جو بوؤ گے وہی کاٹو گے

2635

افروز عنایت
ثوبیہ: یہی حال ہے ان کا شروع سے ہی، میں آپ کو اس لیے نہیں بتارہی تھی کہ آپ کو تکلیف ہوگی۔ بس اب کچھ زیادہ ہی ماں بیٹی پیچھے پڑ گئی ہیں۔ میں تو درگزر سے کام لے رہی ہوں۔ ایسی حالت میں آج کچھ کھانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا، میں نے سوچا اپنے لیے کچھ الگ بنالوں، بس پھر تو دونوں شروع ہوگئیں کہ بیگم صاحبہ ایسے ہی لاڈ ہیں تو ماں کے گھر سے لے کر آئو (روتے ہوئے)۔ اماں! ہر بات پر روک ٹوک… برا بھلا کہتی رہتی ہیں۔ برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ میرا تو کھانا پینا سب حرام کردیا ہے دونوں نے۔
رقیہ: بیٹا تم نے کبھی پہلے تو نہیں بتایا، آج شادی کے ایک سال بعد یہ بتارہی ہو۔ تم نے شوہر سے بات نہیں کی؟ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ ورنہ میں اُس سے بات کروں۔ ایسی حالت میں کب تک برداشت کرتی رہو گی!
ثوبیہ: اماں وہ تو صبح کے گئے رات کو واپس آتے ہیں۔ وہ بیچارے اگر دو گھڑی میرے پاس بھولے سے بیٹھ جائیں تو دونوں اسے زن مرید کے لقب سے سارا دن ہی نوازتی رہتی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ دونوں کو مجھ سے ’’بیر‘‘ کیوں ہے۔
اماں: بیٹا تم اپنا خیال رکھو، اس ہفتے عاصم کے ساتھ ضرور آنا، میں اُس سے بات کرتی ہوں۔ کیا انہوں نے تمہیں لاوارث سمجھ رکھا ہے۔!
بیٹی کی بات سن کر رقیہ کو بڑا صدمہ ہوا اور غصہ بھی آیا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ثوبیہ کی ساس، نند اس کے سامنے ہوتیں تو اُن کا منہ نوچ لیتی جنہوں نے اس کی لاڈوں پلی بچی کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے۔ رات میں بھی وہ سونے کے لیے لیٹی تو ثوبیہ کی صدائیں اس کے کانوں میں گونج کررہی تھیں: ’’امی میں نے تو کبھی کسی کے ساتھ برا نہیں کیا، پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟‘‘ چھناکے سے اس کے سامنے سے پردے ہٹتے گئے، وہ 30 سال پیچھے چلی گئی۔ اوہ… تو میرا کیا میری بیٹی کے سامنے آرہا ہے۔ میں نے بھی تو… سیرت بھابھی کی زندگی اجیرن کردی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ابلتے آنسو دیکھ کر میرے دل کو چین محسوس ہوتا تھا۔ اُف خدایا کتنا بُرا برتائو میں اس کے ساتھ روا رکھتی تھی، بلکہ پورے گھر والوں کو بھی اُس سے دور کرنے کے جتن کرتی تھی۔ اماں کو تو میں نے اپنا ہم نوا بنا رکھا تھا۔ اس کے سامنے ایک ایک واقعہ پھن پھیلائے اس کی غلطیوں اور زیادتیوں کی گواہی پیش کررہا تھا۔
٭…٭…٭
مسز رحیم: بھابھی جی، بہو تو ماشاء اللہ چھان بین کے لائی ہیں، بہت پیاری ہے۔ آپ کے بیٹے صہیب سے بہت چھوٹی بھی ہے۔
صائمہ چاچی: ماشاء اللہ دلہن پر یہ سوٹ بھی بہت پیارا لگ رہا ہے۔ رقیہ، جس نے اس محفل میں شرکت کے لیے اپنی تیاری میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا کوئی اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا، سب سیرت بھابھی کی تعریف کررہے تھے۔ رقیہ جل بھن گئی۔ پھر تو اس پر مشکل سے آدھا گھنٹہ بھی اس محفل میں بیٹھنا گراں گزرا۔ آئندہ کے لیے اس نے ایک لائحہ عمل تیار کرلیا اور اماں کو منع کردیا کہ ہر محفل میں ضروری تو نہیں کہ اسے لے کر جائیں۔
اماں: لیکن بیٹا لوگ کیا کہیں گے؟
رقیہ: لوگوں کو میں سنبھال لوں گی، کہوں گی کہ اسے ہمارے ساتھ آنا جانا پسند نہیں، یا یہ کہ وہ اپنے میکے گئی تھی۔
٭…٭…٭
سیرت کی طبیعت خراب تھی، کمزوری کی وجہ سے ڈاکٹر نے اسے صحیح خوراک اور دودھ لینے کی تاکید کی تھی۔
سیرت نے فریج میں رکھے برتن سے آدھا گلاس دودھ نکالا اور کرسی پر بیٹھ کر ابھی پینے ہی والی تھی کہ رقیہ چیخ پڑی ’’او ہو، تو یہ بیگم صاحبہ دودھ کی ساری دیگچی پی لیتی ہے، ہم روز کہتے ہیں کہ دودھ کہاں گیا‘‘۔ سیرت کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ’’رقیہ میں نے تو آج پہلی مرتبہ…‘‘
رقیہ: واہ رے واہ کس ڈھٹائی سے جھوٹ بولا جارہا ہے، کس معصومیت سے تم نے مکر و فریب کا جال بُنا ہوا ہے، سب تمہیں معصوم سمجھتے ہیں۔ تمہارا شوہر کماتا ہی کیا ہے کہ یہ عیش کررہی ہو!
٭…٭…٭
صہیب نے جو آج آفس سے جلدی آگیا تھا، انگور کا تھیلا سیرت کے ہاتھ میں تھمایا۔ ’’یہ دھو کر پلیٹ میں لے آئو، سب مل کر کھاتے ہیں‘‘ اور خود بھی بیوی کے پاس بیٹھ گیا۔
رقیہ نے جو بھائی کو بھابھی کے اتنے قریب دیکھا تو سر پیٹ لیا ’’ توبہ توبہ… کیا وقت آگیا ہے۔ زن مرید! شرم بھی نہیں آتی، گھر میں جوان بہنیں ہیں اور بیوی کے ناز نخرے اُٹھانے میں مصروف ہے…!‘‘
صہیب اس صورت حال سے ایک دم بوکھلا گیا۔ ماں نے بھی روتی رقیہ کو گلے لگایا ’’بیٹا برداشت کرلو… تم اپنے آپ کو یوں ہلکان نہ کرو۔‘‘
صہیب: لیکن اماں… ہوا کیا؟ میرا قصور؟…
ماں نے غصے سے بیٹے اور بہو کو دیکھا اور بیٹی کو اندر کمرے میں لے گئیں۔ غرض کہ سیرت کا اس گھر میں ہر لمحہ کانٹوں کی سیج پر گزر رہا تھا۔ وہ ان دونوں ماں بیٹی کو جتنا خوش رکھنے کی کوشش کرتی وہ اس سے اتنی ہی نفرت کرتیں۔ رقیہ کے دل میں اپنی بھابھی سے حسد و نفرت میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔
٭…٭…٭
اُف خدایا، میں نے حسد میں کتنے سال سیرت بھابھی کو اپنی نفرتوں کا نشانہ بنایا۔ کوئی لمحہ، کوئی موقع بھی تو نہ چھوڑا اس کو ذلیل کرنے کا۔ لوگوں کے سامنے اس کی برائیاں کرنا، اس کے ماں باپ کو برا بھلا کہنا… مگر وہ اللہ کی بندی مجھے پلٹ کر یہ نہ کہتی کہ آپ غلط کہہ رہی ہیں۔ سارے گھر والوں کو اس سے بدظن کیا، یہاں تک کہ اس کا شوہر بھی اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے گھبراتا، اور ڈرتا کہ کہیں گھر میں کوئی نیا ہنگامہ نہ کھڑا ہوجائے۔ اُف خدایا آج میرا اپنا کیا میری معصوم بیٹی کے آگے آرہا ہے۔ میری بیٹی بے سکونی کی زندگی جی رہی ہے۔
٭…٭…٭
رقیہ: اماں کب تک بھائی صہیب اور ان کے بیوی بچوں کو پالتے رہیں گے! ابا کے اوپر یہ بوجھ ہیں۔ صہیب بھائی کی کمائی ہی کتنی ہے، اور ان کے اور ان کے بچوں کے عیش دیکھیں۔ الگ رہیں تو دال دلیہ کے بھائو معلوم ہوجائیں گے۔ ابا کو کیوں نہیں کہتیں کہ بھائی اپنا ٹھکانہ کہیں بنالیں۔
اماں: کہاں جائے گا بچوں کو لے کر…؟
رقیہ: یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے، اور ابا بیچارے اپنے بچوں کے خرچے پورے کریں یا بیٹوں کی اولادوں کے بھی…!
اماں کے ذہن میں رقیہ نے ایسے اس بات کو بٹھایا کہ انہوں نے ابا کو بھی راضی کرلیا۔ اس طرح رقیہ کی سازش نے سیرت سے چھت بھی چھین لی۔ بے سروسامانی اور محدود آمدنی میں اس نے حالات کا سخت مقابلہ کیا اور زمین پر اپنے قدم جمانے کے قابل ہوئی۔
٭…٭…٭
وہ بیتے لمحے یاد کرکے رقیہ نے کروٹ بدلی۔ اُف میرے مولا… مجھ سے بڑی زیادتی ہوئی ہے۔ سیرت بھابھی کو زندگی کے تمام دکھ اور مشکلات میری وجہ سے پیش آئے، اور میں اس کے ہر گرتے آنسو کو اپنی کامیابی تصور کرتی تھی۔
٭…٭…٭
سب دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے کھانے کی میز پر بیٹھے۔ سیرت بھی کرسی پر بیٹھنے ہی والی تھی کہ رقیہ نے ماں کو اشارہ کیا۔
ماں: (سیرت کی طرف دیکھ کر) تمہارا کھانا کچن میں ہی رکھا ہے، وہیں سے لے لینا (اماں کا لہجہ بڑا توہین آمیز تھا جیسے وہ گھر کی ملازمہ ہو)۔
لیکن سیرت نے ’’جی اماں‘‘ کہا اور کچن میں چلی گئی، جہاں بغیر ڈھکی ایک پلیٹ میں ایک چپاتی اور کٹوری میں تھوڑا سالن پڑا ہوا تھا۔ وہ بڑی نفاست پرست تھی لیکن اس وقت اسے بہت بھوک لگی تھی، لہٰذا اس نے پانی ہی سے روٹی نگلنا بہتر جانا۔ وہ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی تھی لیکن آج اپنی بے بسی پر صرف آنسو ہی ٹپکا کر اپنے صبر کا نذرانہ پیش کرپائی تھی۔ رقیہ نے چھوٹی بہن کو کچن میں بھیجا کہ اس مہارانی کو ذرا دیکھ آئو۔ جب وہ دو تین نوالے جیسے تیسے گلے سے اُتارکر باہر آئی تو تینوں ماں بیٹیاں تحقیر آمیز نظروں سے اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔
٭…٭…٭
بیٹی کا درد رقیہ کے دل میں پھر ایک کروٹیں بدلنے لگا۔ آج میری بیٹی بھی سیرت بھابھی کی طرح حاملہ ہے، نہ جانے اسے پیٹ بھر کر روٹی ملی ہوگی یا نہیں… یااللہ مجھ سے سرزد ہوا ظلم میری بیٹی کے آگے نہ لا، مجھ سے بڑی کوتاہی ہوئی، اور سیرت بھابھی… وہ چپ چاپ میرا دیا ہوا ہر زخم برداشت کرتی رہی، حد تو یہ کہ میری شادی کا سن کر مجھے بڑی فراخدلی سے مبارک دینے آئی، بلکہ اپنی محنت مزدوری کی کمائی سے ایک عمدہ تحفہ بھی لائی۔ لیکن میں نے پھر بھی اس کی قدر نہ کی۔ یااللہ مجھے معاف کردے … میں ضرور سیرت بھابھی کی طرف جائوں گی۔ وہ لمحے جو اس نے میری وجہ سے اذیتوں کی نذر کیے، ان کی تو میں تلافی نہیں کرسکتی لیکن دو میٹھے بول اس سے بول کر اس کا دل خوش کرسکتی ہوں۔ شاید رب کریم میری بیٹی کے معاملے میں اس کے سسرال والوں کے دلوں نرمی ڈال دے۔ آج رقیہ کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے۔ وہ اُٹھی اور دو نفل استغفار کے پڑھ کر سوئی، جس سے اس کے بے چین دل کو کچھ سکون ملا۔
٭…٭…٭
کہتے ہیں انسان جو بوئے گا، وہی کاٹے گا۔ اللہ رب العزت بڑا منصف ہے، کسی کے ساتھ ظلم برداشت نہیں کرتا، وہ تو اپنے بندوں پر مائوں سے بھی ستّر گنا زیادہ مہربان اور محبت کرنے والا ہے۔ جو زمین والوں پر رحم کرتا ہے وہ اُس پر رحم فرماتا ہے۔ بیشک مظلوم بددعا نہ بھی دے لیکن اس کا صبر، اس کی خاموشی ہی بددعا ہوتی ہے جس کا اثر ظالم کی زندگی پر کبھی نہ کبھی ضرور پڑتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اختیارات بھی بڑی آزمائش ہیں، ان اختیارات کی بدولت اپنے نفس کو کسی کی حق تلفی اور ظلم سے روکنا ہی ’’انسانیت‘‘ ہے۔ جس نے اپنا دامن اس انسانیت سے خالی رکھا وہ وحشی جانور کی طرح ہے، وہ اپنے اختیارات کے نشے میں جائز ناجائز سب کر گزرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے ظالم لوگوں کے سائے سے بھی محفوظ رکھے جو سازشوں کے تانے بانے بُن کر اپنے سامنے والے کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔
آخر میں پھر اس بات کو ضرور دہرائوں گی کہ مائوں کی تربیت بیٹیوں کے لیے اصلاح کی راہیں کھولتی ہیں، جس سے غفلت برتنا دراصل کئی لوگوں کو شکنجے میں جکڑنے کے مترادف ہے۔ کسی بھی ماں کی بیٹی کو آگے دوسرے رشتے نبھانے ہوتے ہیں۔ ماں کی اچھی تربیت ہی بیٹی میں ان رشتوں کا احترام و حق ادا کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے، جس سے وہ کسی بھی گھر کو ’’گھر‘‘ بنانے کی اہل ثابت ہوسکتی ہے اور دوسروں کے حقوق کی پاسداری بھی کرسکتی ہے۔ ورنہ پھر رقیہ کی طرح ضد، حسد، غرور کی بھینٹ چڑھ کر دوسروں کی خوشیوں کو برباد کردیتی ہے اور آخر اس کا کیا ہوا ظلم اس کی زندگی میں کہیں نہ کہیں اثرانداز ہوتا ہے۔ اگر اِس دنیا میں اثرانداز نہ بھی ہو، تو آخرت کے انجام سے تو بچنا مشکل ہے۔ آخرت کے انجام کے اس ڈر سے ہی ہر انسان کو دوسروں پر ظلم اور ناانصافی کے وار کرنے سے بچنا چاہیے۔
رب العزت تمام بیٹیوں کو مثبت سوچ و عمل والے سسرالیوں سے واسطہ ڈالے۔ (آمین)

حصہ