احوال ”احباب عابد علی بیگ“ محفلِ مشاعرہ کا!

917

جسارت رپورٹ
اردو ادب بالخصوص اردو شاعری میں دسمبر کے مہینے کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ عام طور پر ہندوستان اور پاکستان سمیت پورے ایشیا میں سردی اور خنکی کی شدید لہر اُن تمام علاقوں پر اپنا اثر ڈالتی ہے جہاں جہاں اردو زبان بولی اور پڑھی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دسمبر کے مہینے کو رومان پرور مہینہ کہا جاتا ہے۔
پاکستان اور ہندوستان میں دسمبر اور جنوری مشاعروں کے ایام کہے جاسکتے ہیں۔ اردو شاعری میں موسم بہار کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے، ان مہینوں میں بسنت کی مناسبت سے ”بسنتی مشاعرہ“ اور موسم بہار کی مناسبت سے ”مشاعرہ جشن بہاراں“ سجایا جاتا ہے،جس میں دستیاب نامی گرامی اساتذہ شعرا کرام اپنا کلام سامعین کی نذر کرتے اور خوب داد سمیٹتے ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی میں بھی ”احباب عابد علی بیگ“ کی جانب سے عابد علی بیگ صاحب کے اعزاز میں ایک بزم سجائی گئی۔ جناب عابد علی بیگ لندن شفٹ ہوچکے ہیں، اس سے پہلے گزشتہ تیس برسوں سے ہانگ کانگ میں بسلسلہ روزگار قیام پزیر تھے۔ سابق طالب علم جامعہ کراچی کی حیثیت سے ریڈیو پاکستان کراچی کی بزم طلبہ اور بین المدارس مقابلہ معلومات عامہ میں ایک ذہین طالب علم کے طور پر آپ نے اپنی پہچان بنائی۔ کراچی میں رہتے ہوئے مشہور زمانہ مزاحیہ پروگرام ”ففٹی ففٹی“ کے خاکے بھی لکھے اور ٹی وی کے معلوماتی پروگراموں کے معلوماتی سوالات بھی ترتیب دئیے۔ اور یہی ریڈیو و ٹی وی گیری کا تجربہ انہیں دیار غیر میں منفرد مقام دے گیا۔ نیروبی اور ہانگ کانگ میں قیام کے دوران اپنا رشتہ اپنی مٹی سے استوار رکھنے کے لیے اردو زبان سے اچھا ”بائنڈنگ میٹریل“ اور کیا ہوسکتا تھا! چنانچہ عابد علی بیگ نے اپنا اردو ریڈیو چینل قائم کیا اور ہانگ کانگ سے بزم سخن کے نام سے اردو چینل کا آغاز کیا جو تیس سال سے مستقل اپنے پروگرام نشر کررہا ہے۔ نیروبی میں رہتے ہوئے درجنوں مشاعرے سجائے اور شاعری کے سلسلے کو آگے بڑھایا، یہی شوق ہانگ کانگ میں بھی پورا کرتے رہے۔ مزاح، سنجیدہ شاعری، جمیل الدین عالی اور انشا جی کے بعد معدوم ہوتے ہوئے ”دوہے“ کو سہارا دیا۔ کئی بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ آپ گزشتہ دنوں کچھ دنوں کے لیے اپنے شہر کراچی تشریف لائے اور خوب مصروف وقت گزارا۔ یہ دوستوں کی خوش نصیبی تھی کہ ان کی بے شمار مصروفیات میں سے کچھ وقت احباب عابد علی بیگ نے اپنے نام کروالیا۔ اور ساحل سمندر (سی ویو) سے متصل جناب نوید علی بیگ کے دولت کدے پر محترم انور شعور صاحب کی صدرات میں ایک محفل مشاعرہ منعقد کی گئی جس کے دولہا یعنی مہمانِ خصوصی جناب عابد علی بیگ تھے۔ موسم کی خنکی اور سمندر کو چوم کر آتی ہوئی بادِ صبا محفل کو مخمور کردینے کے لیے کیا کم تھی کہ ایسے میں قبل از مشاعرہ تقریب کے میزبان جناب نوید علی بیگ صاحب نے لذتِ کام و دہن کے نام پر پُرتکلف ضیافت کا اہتمام کردیا۔
نوید علی بیگ صاحب کا ذوق و شوق ضیافت میں جھلک رہا تھا۔ دیوار کے ساتھ قرینے سے سجائی گئی ڈائننگ ٹیبلز پر دیسی و بدیسی کھانے مہمانوں کی اشتہا بڑھانے میں لگے تھے، گرم تنور پر تل لگے نان اور اس سے نکلتی بھینی بھینی خوشبو نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ طعام کا اعلان ہوچکا تھا، کھانوں کے ساتھ مختلف نوعیت کے میٹھے موجود تھے، جن سے فارغ ہوئے تو گرما گرم چائے اور کافی ہماری منتظر تھی۔ دورانِ مشاعرہ ایشیا کی محفلوں کی روایتی شان ”شاندار پان“ مہمانوں کو پیش کیا جاتا رہا۔ مہمانوں کی آمد جاری تھی کہ مشاعرے کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے متحرم انور شعور صاحب اور مہمانِ خصوصی جناب عابد علی بیگ صاحب کو خوبصورت اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔ مشاعرے کی نظامت نوجوان شاعر جناب عبدالرحمن مومن کے سپرد تھی جنھوں نے حقِ نظامت نہایت خوبصورتی کے ساتھ نبھایا۔ عبدالرحمن مومن نے اپنے کلام سے مشاعرے کا آغاز کیا اور نہایت شاندار اشعار عطا کیے۔ ان کے بعد راقم الحروف نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ مزاح اور سنجیدہ شاعری دونوں میں ہی نمایاں مقام رکھنے والے صحافی دوست جناب اے ایچ خانزادہ آئے تو محفل کا رنگ دوبالا ہوگیا۔ اے ایچ خانزادہ نے سماجیات کی تلخییوں کو مزاح کے رنگ میں جس خوبصورتی سے پیش کیا وہ ان ہی کا خاصہ ہے۔ معروف سینئر مزاحیہ شاعر جناب سعید آغا نے مزاح کے اسی رنگ کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے سیاسی و معاشرتی حوالوں سے اپنے قطعات پیش کیے اور فرمائشی کلام بھی عطا کیا اور بھرپور داد سمیٹی۔ اب باری تھی غزل کے منفرد اسلوب کے شاعر جناب اجمل سراج صاحب کی، جنھوںنے اپنے تازہ کلام سے نوازا اور فرمائشی کلام بھی عطا فرمایا۔
اب باری تھی مہمانِ خصوصی جناب عابد علی بیگ کی۔ جناب عابد علی بیگ نے وکٹ کے چاروں جانب کھیلتے ہوئے مزاح اور سنجیدہ دونوں حوالوں سے اپنا کلام پیش کیا۔ سامعین کے اصرار پر ”دوہے“ بھی ترنم کے ساتھ سنائے، جس سے محفل کا رنگ دوبالا ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ صاحبِ صدر جناب انور شعور صاحب اپنا کلام پیش کرتے، ناظم مشاعرہ نے سرپرائز دیتے ہوئے امیر جماعت اسلامی محترم حافظ نعیم الرحمان صاحب کو اسٹیج پر طلب کرلیا۔ کچھ پس و پیش کے بعد حافظ نعیم اسٹیج پر تشریف لائے اور مرحوم مولانا ماہرالقادری کی مشہور نعت

”کہاں میں، کہاں مدحِ ذاتِ گرامی
نہ سعدی، نہ رومی، نہ قدسی نہ جامی
پسینے پسینے ہُوا جا رہا ہوں
کہاں یہ زباں اور کہاں نامِ نامی “

پیش کی۔ حافظ نعیم الرحمن صاحب اپنے دلآویز مسحور کن لحن میں نعتِ رسول پڑھ رہے تھے اور شرکاء پر ایک ایسی کیفیت طاری تھی جو الفاظ میں بیان ہی نہیں کی جاسکتی۔
اب مشاعرے کے آخری شاعر صاحبِ صدر جناب انور شعور تھے اور سامعین کی نبض پر ان کا ہاتھ تھا۔ منفرد لب و لہجے اور آسان فہم انداز کلام کی بدولت اردو شاعری میں جو مقام انور شعور کو حاصل ہے وہ کم ہی کسی کے حصے میں آتا ہے۔ آپ کے کئی اشعار اور مصرعے زبان زدِ عام ہو کر قبولیت کی بلندیوں پر جا پہنچے ہیں۔ صاحبِ صدر انور شعور صاحب نے دورانِ کلام سامعین کو اپنے خوبصورت جملوں اور بذلہ سنجی سے بھی محظوظ کیا۔ مشاعرے کے اختتام پر میزبانِ مشاعرہ جناب نوید علی بیگ نے تمام مہمانوں اور شعرا کا خاص شکریہ ادا کیا اور شعراء کو تہنیتی گلدستے پیش کیے۔ اس طرح رات بارہ بجے یہ خوبصورت اور یاد رہ جانے والی محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔

حصہ