بسنت ایک خونی تہوار

229

قرۃالعین کاشف
ڈوربیل مسلسل بج رہی تھی۔وانیہ تقریبا دوڑتے ہوئے دروازے تک پہنچی پوچھا کون ہے ؟اور ماریہ کی آواز سن کر خوش ہوگء کیونکہ ماریہ آپی تو وانیہ کو بہت اچھی لگتی ہیں وہیں سے وانیہ نیآواز لگاء کہ امی جان ماریہ آپی اور آنٹی آئیں ہیں اور یہ کہتے ہوئے وہ انہیں ڈرائنگ روم میں لیگئی۔ اسلام علیکم انہوں نے اندر آتے ہی سلام کیا۔
وعلیکم اسلام کیسی ہیں آپ؟ میں ٹھیک ہوں۔ باجی ان باجی کو آپ سے ملانے لاء ہوں نئے شفٹ ہوئے ہیں محلے میں یہ کہتے ہوئے ماریہ نے ساتھ آء ہوء خاتون کی طرف اشارہ کیا وہ خاتون تو دیکھنے ہی میں مہذب لگ رہی تھیں باتوں کے دوران پتہ چلا کہ لاہور سے کراچی شفٹ ہوء ہیں کیونکہ انکے شوہر کا یہاں ٹرانسفر ہو گیا جس وجہ سے انہیں لاہور چھوڑنا پڑا انہوں نے بتایا کہ ان کا سارا خاندان لاہور ہی میں ہے بس ایک دو رشتہ دار یہاں ہیں وہ کافی ملنسار آنٹی ہیں یہ جان کر مجھے بہت خوشی ہوئی بات لاہور کے ہوئی تو ماریہ نے جھٹ پوچھ لیا کہ لاہور میں تو بسنت منائی جاتی ہے نا ؟؟؟اور یہ کہ اس دفعہ تو حکومت نے اعلان کیا ہے کہ پورے ملک میں بسنت منائی جائے گی۔
یہ سنتے ہی آنٹی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں حیران ہوگء کے انہیں کیا ہوا گیا میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ چھ سال پہلے کی بات ہے لاہور میں بسنت بہت جوش کے ساتھ منایا جا رہا تھا وہ بھی صرف انڈین ڈراموں کی دیکھا دیکھی بچے تو بچے بڑوں نے بھی اپنی اپنی چھتوں پر پتنگیں اڑانے کا روز مقابلہ رکھا ہوا تھا ان دنوں میرے ایک بیٹے برہان کی طبیعت خراب ہو گئی اس کو اچانک تیز بخار اور موشن شروع ہوگئے تھے اتفاق سے گھر میں اورصرف بچے تھے۔ میں نے گھریلو ٹوٹکے کیے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا میں نے برہان کے سر پہ پٹیاں رکھنا شروع کیں اور ساتھ ہی اپنے شوہر کو فون کیا کہ جلدی سے آجائیں برھان کی حالت بہت خراب ہورہی ہے میں برہان کہ سر پہ پٹیاں رکھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنی بیٹی عائشہ کو سمجھارہی تھی کہ ہمارے ہاسپٹل جانے کے بعد بغیر پوچھے دروازہ نہیں کھولنا اس دوران مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب نعمان اور ریان چھت پہ چلے گئے پتہ تو مجھے جب چلا جب ریان کے چیخنے کی آواز آئی کہ امی بھائی کا خون نکل رہا ہے میں دوڑتے ہوئے چھت پہ پہنچی تو میں نے دیکھا کہ نعمان کے کپڑے خون میں لتھڑے ہوئے ہیں اس کو دیکھتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے میں نے اپنی تمام ہمت جمع کی اور نعمان کو گود میں اٹھایا اور اس کو لیکے بھاگتے ہوئے نیچے آء اتنے میں ان کے ابو بھی آچکے تھے ہم نے نعمان کو گاڑی میں ڈالا اور اسپتال لے گئے قاتل ڈور نعمان کی گردن پہ چل چکی تھی نعمان تڑپ رہا تھا اور ہم بالکل بے بس ہاسپٹل میں ایمرجنسی ٹریٹمنٹ دی گئی لیکن بہت دیر ہو چکی تھی اوراس قاتل ڈور نے نعمان کی جان لے لی یہ سب کچھ آناًفاناً ہوا ہم کچھ نہ کر سکے اور جب روتے پیٹتے گھر پہنچے تو برہان کا بھی انتقال ہو چکا تھا میں تقریبا پاگل ہو گئی تھی اس قاتل ڈور نے میرے ایک نہیں دو بیٹوں کی جان لے لی۔۔۔۔۔
نفرت ہے مجھے بسنت سے، نفرت ہے مجھے پتنگوں سے ،نفرت ہے مجھے پتنگ کی ڈور سے
کیوں ہم نے اللہ کی ڈور چھوڑ دی ہے ؟جبکہ اس رسی کو پکڑنے کا مجھے حکم دیا گیا کہ پکڑو اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ۔اللہ کی رسی کو پکڑنے میں کامیابی ہی کامیابی ہے جس کو پکڑنے کا حق ہے اس کو ہم نے چھوڑ دیا ؟اور جو نہیں کرنا وہ ہم کرنے پر آ گئے
ہم کیوں مناتے ہیں بسنت ؟؟؟یہ ہمارا تہوار نہیں ہے یہ ہمارے مذہب کا حصہ نہیں ہے یہ ایک خونی تہوار یہ ہندوانہ تہذیب کا حصہ ہے خدارا ہم سمجھتے کیوں نہیں ہیں ؟؟؟ہمیں عقل کیوں نہیں آتی ؟؟؟ہم اتنے لوگوں کی جان لے لیتے ہیں آخر کب ہمیں سمجھ آئے گی ؟؟؟
اور آنٹی رو پڑیں ہم سب کی آنکھوں میں آنسو تھے ہم چاروں رو رہے تھے اور ہماری زبانیں خاموش ہوگیئں تھیں۔

حصہ