ڈاکٹر نثار احمد نثار
کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی اور ادارۂ فکر نو کے اشتراک سے 12 جنوری 2019ء کو کراچی پریس کلب میں اختر سعیدی کے اعزاز میں تقریب پزیرائی کا اہتمام کیا گیا۔ ظفر محمد خان ظفر نے صدارت کی۔ مظہرہانی مہمان خصوصی تھے‘ رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوت کلام مجید کی سعادت علی کوثر نے حاصل کی۔ عاشق شوقی نے نعت رسول ؐ پیش کی۔ مقررین میں انور انصاری‘ نفیس احمد خان‘ ہمایوں ظفر‘ زیب اذکار‘ محمد اسلام‘ شاہد اقبال شاہد‘ جہانگیر خان‘ طاہر حبیب‘ توقیر اے خان ایڈووکیٹ‘ غلام محی الدین اور حامد اسلام خان شامل تھے جب کہ راقم الحروف نثار احمد نے اختر سعیدی کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ انور انصاری نے کہا کہ اختر سعیدی 40 سال سے شاعری کر رہے ہیں انہوں نے 480 ادبی شخصیات کے انٹرویوز بھی کیے ہیں۔ ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی ان کا بہت کام ہے۔ محمد ہمایوں ظفر نے کہا کہ اختر سعیدی کو وہ 1983ء سے جانتے ہیں جب یہ روزنامہ حریت میں کام کرتے تھے۔ اختر سعیدی اچھی شہرت کے حامل نہایت نفیس انسان ہیں گوگل پر بھی ان کے بارے میں اہم معلومات موجود ہیں۔ محمد اسلام نے کہا کہ آج لوگ اختر سعیدی کی محبت میں یہاں موجود ہیں‘ اختر سعیدی نابغۂ روزگار شخصیت اور سماجی روایات کے علمبردار ہیں۔ شاہد اقبال شاہد نے کہا کہ اختر سعیدی نے جسارت اخبار میں ادبی ڈائری لکھی اور جنگ کراچی میں سینئر سب ایڈیٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں‘ یہ شریف النفس انسان ہیں‘ ان کا کوئی اسکینڈل نہیں بنا۔ یہ بہت اچھے اشعار کہہ رہے ہیں‘ ان کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ’’شہرِ ہنر کے زندہ لوگ‘‘ فروری 2019ء میں ادبی حلقوں تک پہنچ جائے گی ابھی یہ کتاب زیورِ طباعت سے آراستہ ہو رہی ہے۔ جہانگیر خان نے کہا کہ اختر سعیدی کہنہ مشق شاعر اور صحافی ہیں انہوں نے دونوں میدان میں نام کمایا ہے ان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ طاہر حبیب نے کہا کہ اختر سعیدی کی شاعری میں تغزل کے ساتھ ساتھ تصوف کا رنگ بھی پایا جاتا ہے یہ بے لوث انسان ہیں اپنے لیے کبھی لابنگ نہیں کرتے۔ توقیر اے خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ اختر سعیدی ان کے استاد ہیں انہوں نے مجھے الفاظ کو ترتیب دینا سکھایا ہے ان کی توسط سے میں نے بے شمار مشاعروں میں شرکت کی‘ ان کا ذکر میں نے اپنی کتابوں میں بھی کیا ہے۔ غلام محی الدین نے کہا کہ اختر سعیدی نے میگزین سیکشن میں میرے ساتھ کام کیا ہے‘ یہ اپنے کام کے ماہر ہیں‘ ان کی تحریروں میں روانی کے ساتھ ساتھ گہرائی اور گیرائی پائی جاتی ہے‘ ان کی ہینڈ رائٹنگ بھی بہت خوب صورت ہے‘ انہوں نے بہت سی اہم شخصیات کے انٹرویوز کیے ہیں جو کہ قابل ستائش ہے‘ یہ ایک ریسرچ ورک ہے جس کے لیے انعام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ حامد اسلام خان نے کہا کہ اختر سعیدی ایک متحرک انسان ہیں‘ اردو ادب کی ترقی میں انہوں نے بہت کام کیا ہے‘ ان کی خداداد صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں۔ صاحب اعزازِ تقریب اختر سعیدی نے کہا کہ وہ کراچی پریس کلب اور اپنے ادارے کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے ان کے اعزاز میں یہ محفل سجائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ روزنامہ جنگ سے انہیں عزت و شہرت ملی ہے اس کے لیے میںاس اخبار کے مالکان کے شکر گزار ہوں۔ مظہرہانی نے کہا کہ اختر سعیدی ایک کھرے اور صاف دل کے انسان ہیں ان کے شاگردوں کی تعداد بہت ہے لیکن یہ کبھی غرور نہیں کرتے‘ یہ ایک بڑے صحافی و شاعر ہونے کے علاوہ سماجی رہنما بھی ہیں انہوں نے ینگ کلچر آرگنائزیشن کے ذریعے مستحق افراد کی مدد کی ہے۔ ہم ان کے لیے ایک عظیم الشان تقریب کا اہتمام کریں گے یہ ہم پر قرض ہے اور ہم یہ قرض ادا کریں گے۔ زیب اذکار نے کہا کہ اختر سعیدی کا شمار ہمارے شہر کے اہم افراد میں ہوتا ہے انہوں نے بطور صحافی نام کمایا اور شاعر کی حیثیت سے بھی اپنی پہچان بنائی یہ ایک علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں ان کے والد بھی شاعر تھے اور ان کے چچا روزنامہ جنگ میں ایک اہم عہدے پر فائز تھے جب کہ ان کے بھائی بھی قادرالکلام شاعر تھے یہ سیلف میڈ آدمی ہیں بہت محنت کے بعد آج اس مقام پر ہیں کہ ان کا طوطی بول رہا ہے یہ کئی اہم ادبی اداروں کے عہدیداران میں شامل ہیں اس حوالے سے بھی ان کے کریڈٹ میں کئی شان دار تقریبات ہیں انہوں نے قائداعظم ایوارڈ کا اجرا کیا جو کہ ایک قابل قدر کام ہے۔ صاحب صدر ظفر محمد خان نے اختر سعیدی کے فن و شخصیت پر مقالہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ اختر سعیدی خوش فکر اور معتبر صحافی و شاعر ہیں انہوں نے ہر دو شعبوں سے انصاف کیا ہے ان کے تین شعری مجموعے چراغ جلنے تک‘ فراق سے وصال اور ہوا چراغ آئینہ منظر عام پر آچکے ہیں۔ یہ 16 اکتوبر 1958 کو سندھ کے ایک خوب صورت شہر ٹنڈو آدم میں ایک قادرالکلام شاعر جوہر سعیدی کے گھر پیدا ہوئے‘ شاعری ان کی گھٹی میںؓ پڑی ہوئی ہے انہوں نے روزنامہ جسارت میں ’’روشنیوں کے شہر‘‘ کے عنوان سے چار برس تک کراچی کی علمی و ادبی سرگرمیوں کی رپورٹس پر مشتمل ہفتہ وار کالم لکھا جس کے باعث انہیں ادبی محافل میں بلایا جانے لگا۔ انہوں نے 28 نومبر 1984ء کو روزنامہ جنگ کراچی جوائن کیا اور 31 دسمبر 2018ء کو باعزت طور پر اس ادارے سے ریٹائر ہوئے انہوں نے بطور صحافی ادبی و علمی شخصیات کے انٹرویو کیے جو کہ ایک ریکارڈ کام ہے انہوں نے بے شمار ادبی اور علمی تقریبات ترتیب دیں جو کہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ یہ پس پردہ رہ کر دوسروں کو آگے بڑھاتے ہیں جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے تو یہ میر تقی میر کے اسلوب کے آدمی ہیں اور خارجی محسوسات نمایاں ہیں انہوں نے جدید لب و لہجے میں اپنا نظریۂ شاعری بیان کیا ہے۔ ان کے استعارے خود ساختہ نہیں ہیں بلکہ زندگی سے جڑے ہوئے ہیں انہوں نے کبھی بھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی ہمیشہ سچ لکھا ہے جس کی پاداش میں انہوں نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔ ان کے بہت سے اشعار زبانِ زدعام ہیں مثلاً:
عشق کی راہوں پہ چلنا ہے تو رسوائی نہ دیکھ
تجھ کو پانی میں اترنا ہے تو گہرائی نہ دیکھ
٭
کر دیا بے نقاب چہروں کو
آئنہ کتنا برگزیدہ ہے
٭
مدتوں صحرا نوردی کی مرے اجداد نے
مجھ کو ورثے میں جنونِ آبلہ پائی ملا
٭
نازک خیالیوں کی مجھ یہ سزا ملی
شیشہ تراسنے کو بھی پتھر ملا مجھے
صاحبِ صدر نے مزید کہا کہ اختر سعیدی کے لیے ٹنڈو آدم میں جشن اختر سعیدی کا انعقاد کیا گیا جہاں ان کی تاج پوشی کی گئی اس کے علاوہ ان کے اعزاز میں مختلف محفلیں سجائی جاتی رہی ہیں۔ انہوںنے خود بھی بے شمار قابل ستائش تقریبات کا انعقاد کیا ہے جس میں جشنِ رفیقانِ سخن بھی قابل ذکر ہے کہ جس میں انہوں نے لانڈھی‘ کورنگی کے اُن تمام قلم کاروں کو خراج تحسین پیش کیا جو کبھی اس علاقے کا حصہ رہے تھے اس کے علاوہ بھی یہ شہر میں ادبی کام انجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ محمد علی گوہر نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔ اس موقع پر مختلف افراد کی جانب سے اختر سعیدی کو تحائف‘ گلدستے اور شیلڈ پیش کی گئیں۔
بزمِ تقدیسِ ادب پاکستان کا مشاعرہ
احمد سعید خان کی رہائش گاہ پر ظہور الاسلام جاوید کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔ بزم تقدیس ادب پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ اس تقریب کی صدارت پروفیسر منظر ایوبی نے کی۔ طارق جمیل مہمان خصوصی تھے۔ احمد سعید خان نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس موقع پر منظر ایوبی‘ ظہورالاسلام جاوید‘ رونق حیات‘ فیروز ناطق خسرو‘ سید آصف رضا رضوی‘ اختر سعیدی‘ فیاض علی خان‘ پروفیسر اوسط جعفری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد نثار‘ احمد سعید خان‘ عامر شیخ اور خالد میر نے اپنا کلام پیش کیا۔ 12شعرا پر مشتمل یہ مشاعرہ تین گھنٹوں پر محیط تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ کئی شعرا نے چار‘ چار غزلیں پڑھیں جب کہ مائیک سے اعلان ہوا تھا کہ دو غزلیں پڑھی جائیں۔ راقم الحروف کے نزدیک اگر یہ تقریب ہفتے کی رات کو ہوتی تو ہم ہر شاعر سے دس غزلیں بھی سن سکتے تھے۔ تقریب کے مہمان اعزازی ظہورالاسلام جاوید کے بارے میں صاحبِ صدر پروفیسر منظر ایوبی نے کہا کہ ظہورالاسلام جاوید 1965ء سے شعر کہہ رہے ہیں‘ ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’موسم کا اعتبار نہیں‘‘ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر انجینئر ہیں‘ پاکستان آرمی سے ریٹائر ہونے کے بعد 1974ء میں دبئی چلے گئے جہاں انہوں نے حصولِ معاش کے ساتھ ساتھ اردو زبان و دب کے فروغ کے لیے دن رات کام کیا اب یہ صورت حال ہے کہ 13 عالمی مشاعروں کے آرگنائزر ظہور الاسلام جاوید عرب امارات کی تمام ریاستوں میں منعقد ہونے والی ادبی تقریبات کی ضرورت بن گئے ہیں۔ انہوں نے 17 مئی 2002ء کو ابو ظہبی میں پہلے عالمی اردو مشاعرے کا اہتمام کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے‘ ان کے فن اور شخصیت پر ڈاکٹر کلیم قیصر اور اشفاق احمد عمر نے ایک کتاب ’’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا کیا‘‘ تحریر کی ہے۔ یہ قادر الکلام شاعر انعام الرحمن گوالیاری کے فرزند ہیں‘ گویا شاعری انہیں ورثے میں ملی ہے ان کی شاعری آسان فہم‘ دل کش ہے‘ جس میں خوب صورت تراکیب لفظی‘ لاجواب تشبیہات اور استعارے شامل ہیں انہوں نے اپنی شاعری میں بہت سے تجربوں کو لکھا ہے جس سے ان کی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ عرب امارات میں اردو ادب کا چراغ روشن کرنے والوں میں یہ بہت اہم شخصیت ہیں یہ جب بھی کراچی آتے ہیں تو ہم ان کے اعزاز میں پروگرام ترتیب دیتے ہیں بلاشبہ یہ ان کا حق ہے۔ صاحب اعزاز ظہورالاسلام جاوید نے کہا کہ وہ بزمِ تقدیس ادب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ان کے لیے یہ محفل سجائی‘ کراچی ایک بڑا شہر ہے اس لحاظ سے یہاں ادبی سرگرمیاں بہت ہوتی ہیں کراچی میرا اپنا شہر ہے میں ابوظہبی میں مقیم ہوں لیکن میرا دل کراچی والوں کے ساتھ دھڑکتا ہے یہ زندہ دل لوگوں کا شہر ہے پاکستان کی ترقی میں کراچی کا بہت حصہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے ہم سب کو متحد ہونا پڑے گا کیوں کہ اس زبان کو وہ حق نہیں ملا جس کی یہ مستحق تھی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوںکو انگریزی بھی پڑھائیں لیکن انہیں اردو سے بھی جوڑ کر رکھیں کہ یہ ہماری ضرورت بھی ہے اور ہماری پہچان بھی۔ اس زبان کا دوسری زبانوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے اردو پاکستان کی قومی زبان ہے‘ علاقائی زبانوں کی ترقی سے اردو کی ترقی وابستہ ہے۔ آخر میں صاحبِ اعزاز کو شیلڈ اور پھولوں کے تحائف پیش کیے گئے۔
اکادمی ادبیات کراچی کا مذاکرہ اور مشاعرہ
اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام عالمی مشاعرہ بیادِ ابراہیم منشی کا انعقاد کیا گیا جس میں ہانگ کانگ‘ آسٹریلیا‘ سعودی عرب اور مقامی شعرا نے شرکت کی۔ صدارت آسٹریلیا سے آئے مہمان معروف شاعر محمد مصدق لاکھانی نے کی‘ ابراہیم منشی کی فن و شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے محمد مصدق لاکھانی نے کہا کہ کانٹوں کی پیاس بجھانا ابراہیم منشی کی زندگی کا مقدر بن گیا اور چارۂ غم کی نوید سنانا ان کا مسلکِ زیست‘ وہ اگر ایک آنکھ سے روتے ہیں تو دوسری آنکھ سے ہنستے ہیں‘ ان کایہ رونا اور ہنسنا عوام کے حوالے سے ہے۔ آپ روتے ہیں عوام حال زار پر اور ہنستے ہیں ان کے روشن مستقبل پر‘ ان کی شاعری شکست کی صدا بھی ہے اور سو ز یقین کی للکار بھی‘ آپ نے اپنی شخصیت اور شاعری کو عوام کی خاطر وقف کر رکھا تھا۔ اس موقع پر سعودی عرب سے آئے ہوئے معروف شاعر ڈاکٹر سید نعیم الحامد علی نے کہا کہ آمریت کے خلاف ان کا مؤقف ہمیشہ واضح اور سچا رہا شاعری میں بھی ان کا لہجہ عوام کے جذبات سے گہری وابستگی کا غماز رہا۔ ہانگ کانگ سے آئے شاعر ظفر رضوی نے کہا کہ آپ کی شاعری مرعوب کن علامتوں اور استعاروںکی بے ساکھی لگا کے نہیں چلتی‘ وہ سماجی ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کرتا ہے‘ لگی لپٹی نہیں رکھتا۔ ابراہیم منشی استحصالی سماج کے سخت خلاف تھے جس کی بنا پر 1972ء میں حیدر آباد میں ایک قوم پرست پارٹی میں شعر اور شاعری پر آپ کو گرفتار کیا گیا اور چھ ماہ قید اور پانچ ہزار روپے جرمانے کی سزا ہوئی جب کہ 1973ء اور 1974ء میں بھی دس ماہ کے لیے جیل کاٹی۔ معروف دانش ور اور ماہر تعلیم نوشابہ صدیقی نے کہا کہ محمد ابراہیم 15 جنوری 1934 کو حیدرآباد ضلع میں پیدا ہوئے اور 2003 میں انتقال کر گئے‘ ابراہیم منشی کا شمار سندھ کے باغی شاعروں میں ہوتا ہے‘ آپ کے لفظوں میں ایسی قوت تھی کہ آمریت مسخ ہونے لگتی تھی۔ ابراہیم منشی عوامی مسائل پر عوامی لہجے میں بات کرتے تھے۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ ابراہیم منشی اچھے شاعر کے ساتھ ساتھ اچھے لوک فنکار بھی تھے‘ آپ اکثر قوم پرست تنظیموں کی تقریبات میں اپنی شاعری خود گاتے تھے۔ تقریب میں محمد مصدق لاکھانی‘ ڈاکٹر سید نعیم الحامد علی‘ ظفر رضوی‘ وکیل مورائی‘ پروفیسر نوشابہ صدیقی‘ حیات رضوی‘ سید اوسط علی جعفری‘ مرتضیٰ لغاری‘ فرح کلثوم اور دیگر شعرائے کرام نے اپنا کلام سنا کر ابراہیم منشی کو خراج عقیدت پیش کیا۔