بناتِ اسلام کی شجاعت

902

بینا حسین خالدی
(گزشتہ سے پیوستہ)
خولہؓ کی جرأت و شجاعت دیکھ کر مسلمانوں کے اس لشکر کا جوش اور بڑھ گیا، وہ دیوانہ وار ضرارؓ کو ڈھونڈ رہے تھے، اسی کوشش میں رومیوں کا ایک دستہ گرفتار ہوکر حضرت خالد بن ولیدؓ کے سامنے پیش ہوا۔ آپؓ نے اُن سے حضرت ضرارؓ کی بابت پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس شخص کو ہمارے سردار نے سو سواروں کی حفاظت میں حمص روانہ کردیا ہے تاکہ شہنشاہ ہرقل کے سامنے پیش کرکے بتایا جائے کہ ہمیں کس قسم کے جنوں سے واسطہ پڑا ہے۔
حضرت خالد بن ولیدؓ نے رافع بن عمیرہ طائی کی قیادت میں ایک سو سواروں کا دستہ حمص کی جانب روانہ کیا تاکہ حضرت ضرارؓ کو دشمن کے پنجے سے چھڑا لائیں۔ حضرت خولہؓ بھی حضرت خالدؓ کی اجازت سے اس دستے میں شامل ہوئیں۔ خاصی دوڑ دھوپ کے بعد مسلمانوں کو رومیوں کا دستہ نظر آیا۔ انہوں نے حضرت ضرارؓ اور ان کے ساتھیوں کو باندھ کر اونٹوں پر لاد رکھا تھا۔ حضرت خولہؓ اپنے بھائی کو دیکھ کر بے تاب ہوگئیں اور پکار کر کہا ’’یا اخی! میں آگئی ہوں…‘‘ یہ کہہ کر شیرنی کی طرح رومیوں پر جھپٹیں۔ دوسرے مجاہدین بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر رومیوں پر جا پڑے اور چند لمحوں میں انہیں کاٹ کر رکھ دیا۔ بھائی بہن کے گلے ملے اور فرطِ مسرت سے اس قدر روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ حضرت ضرارؓ اور ان کے ساتھی دشمن کی قید سے رہائی پاکر حضرت خالد بن ولیدؓ کے لشکر میں آملے۔ مسلمانوں کو ان کی بخیریت واپسی پر بے پناہ مسرت ہوئی اور ان کے حوصلے دوچند ہو گئے، دوسری جانب رومی بہت جلد ہمت ہار کر اپنے سینکڑوں آدمی کٹوا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں کو کثیر مالِِ غنیمت ہاتھ لگا اور وہ مظفر و منصور واپس ہوئے۔
دمشق ابھی فتح نہیں ہوا تھا کہ شہنشاہ ہرقل نے ایک زبردست فوج مسلمانوں کو شکست دینے کے لیے بھیجی۔ اجنادین کے مقام پر دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ رومی فوجی کچھ مسلمان عورتوں کو گرفتار کرکے لے جارہے تھے، ان میں حضرت ضرارؓ کی شجاع بہن حضرت خولہؓ بھی تھیں۔ جب ایک جگہ رومیوں نے سستانے کے لیے پڑائو ڈالا تو خولہؓ نے اپنی قیدی بہنوں سے کہا:
’’بہنو! ہم شجاعانِ عرب کی بیٹیاں ہیں اور ہادیٔ برحقؐ کی نام لیوا ہیں، ہم کو ان مشرکوں کی اطاعت قبول کرنے کے بجائے جان پر کھیل جانا چاہیے۔‘‘
ان خواتین میں تبع اور حمیر کے قبائل کی عورتیں بھی تھیں جو نیزہ بازی اور شہسواری میں مردوں کے برابر تسلیم کی جاتی تھیں۔ خولہ کی ولولہ انگیز تقریر سن کر ان کے خون میں حرارت پیدا ہوگئی اور انہوں نے یک زبان ہوکر کہا ’’خولہ تم نے ٹھیک کہا ہے، ہمیں جان پر کھیل جانا چاہیے، لیکن ہتھیاروں اور گھوڑوں کے بغیر رومیوں سے مقابلے کی کیا تدبیر ہو؟‘‘
خولہؓ نے کہا ’’بہادری یہی ہے کہ مادّی سامان کے بغیر محض اللہ کے بھروسے پر باطل کے سامنے ڈٹ جائیں۔ آئو خیموں کی چوبیں اکھاڑ لیں اور ان سے رومیوں کے سر توڑ ڈالیں۔ اس طرح اگر رہائی مل گئی تو اپنے لشکر سے جا ملیں گے ورنہ رتبۂ شہادت پر فائز ہوجائیںگے۔‘‘
اب تمام عورتیں اٹھ کھڑی ہوئیں اور خیموں کی چوبیں اکھاڑ کر لڑنے مرنے پر کمربستہ ہوئیں۔ خولہؓ نے انہیں ایک دائرے کی صورت میں منظم کیا اور پھر یہ سب رجز پڑھتے ہوئے کفار پر حملہ آور ہوئیں:

نحن بنات تبع و حمیر
و ضربنا فیکم لیس منکر
لا فنا فی الحرب نار تسعر
الیوم تلعون العذاب الاکبر

(ہم تبع و حمیر کی بیٹیاں ہیں، ہمارے نزدیک تمہیں ہلاک کرنا کارِ ثواب ہے، اس لیے ہم لڑائی میں جاں سوز آگ بن جاتی ہیں، یاد رکھو آج تم عذابِ عظیم میں ڈالے جائو گے۔‘‘
رومیوں نے چاروں طرف سے عورتوں کا محاصرہ کرلیا، لیکن وہ خیموں کی چوبوں سے ان کا سر توڑ دیتی تھیں اور کسی کو اپنے نزدیک نہ پھٹکنے دیتی تھیں۔ خاصی دیر اسی طرح مقابلہ جاری رہا اور کئی رومی ان جانباز خواتین کے ہاتھوں جہنم واصل ہوگئے۔ آخر رومیوں نے غضب ناک ہوکر ان پر ایک فیصلہ کن وار کرنے کا ارادہ کیا۔ اُدھر خالد بن ولیدؓ اور ضرارؓ کو عورتوں کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو وہ فوج کے ایک تیز رفتار دستے کے ساتھ رومیوں کے تعاقب میں روانہ ہوئے۔ عین اُس وقت جب رومی، بناتِ اسلام پر آخری حملے کے لیے ہتھیار سنبھال رہے تھے، انہوں نے مسلمان شیروں کی ہیبت ناک دھاڑ سنی۔ ان کے فلک شگاف نعروں سے زمین دہل رہی تھی۔ رومیوں کے اوسان خطا ہوگئے اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر الٹے پائوں دمشق کی طرف بھاگے۔ عورتیں اس غیبی امداد پر خدا کا شکر بجا لائیں اور ضرارؓ اپنی جانباز بہن سے مل کر بہت مسرور ہوئے۔ (اقتباس از: ’’شمع رسالت کے تیس پروانے‘‘ طالب ہاشمی)

حصہ