پروفیسر عبدالحمید ڈار
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص کسی عورت کو اُس کے شوہر سے یا غلام کو اُس کے آقا سے برگشتہ (سرکش، باغی یا مخالف) کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ (ابودائود، جلددوم، حدیث نمبر 408)
خاندان کا ادارہ انسانی تمدن کی بنیاد ہے۔ اس کے درست رہنے سے انسانی تمدن ترقی کرتا ہے، اور اس کے نادرست ہونے سے انسانی تمدن زوال کی نذر ہوجاتا ہے۔ خاندان مرد اور عورت کے ازدواجی رشتے سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر مرد اور عورت کا ازدواجی تعلق خوش گوار ہو تو اس سے اعلیٰ سیرت و کردار کے حامل افراد معاشرے کو میسر آئیں گے جو اس کے استحکام اور ترقی میں معاون و مددگار ثابت ہوں گے۔ اس کے برعکس اگر میاں بیوی کے درمیان ناچاقی کی وجہ سے خاندان کے ماحول میں تلخیاں پائی جاتی ہوں تو معاشرے کی تعمیر و ترقی میں خاندان کا کردار غیر مؤثر بلکہ منفی ہوکر رہ جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جو ضابطۂ حیات اسے عطا کیا ہے اس میں بھی خاندان کو مرکزی حیثیت دی ہے، اور اسے مستحکم بنانے والے اور اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے والے عوامل کی بڑے مفصل طریقے پر نشاندہی کی ہے۔ زیر نظر حدیثِ رسولؐ کا تعلق بھی انسانی زندگی کے اسی پہلو سے ہے۔ عورت اور مرد میں جدائی ڈالنا شیطان کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ ایک حدیثِ پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
’’تحقیق، ابلیس پانی پر اپنا تخت رکھتا ہے، پھر اپنی فوجیں لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے بھیجتا ہے۔ اس لشکر میں سے ابلیس کے نزدیک تر وہ ہے جس کا فتنہ بہت بڑا ہو۔ ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے ایسا اور ایسا کام کیا۔ ابلیس کہتا ہے کہ تُو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس کو نہیں چھوڑا یہاں تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس کو اپنے قریب کرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں بس تُو نے کام کیا ہے، اور پھر اسے گلے لگا لیتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ، باب وسوسہ کا بیان، بحوالہ مسلم، راوی جابرؓ)
اس نوعیت کے گھنائونے کام شیطان ہم سے کرواتا ہے، وہ ہمیں اکساتا ہے، دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور خواہشات کے سبز باغ دکھاکر ہمیں اپنے دامِ تزویر میں پھانس لیتا ہے۔ اس کے چکمے میں آکر کوئی شخص کسی معزز خاتون کے کان میں ازراہِ تفنن اور مذاق یا کسی مقصد براری کے لیے اس کے شوہر کے کسی غیر سے تعلق کے بارے میں کچھ غلط سلط بات پھونک دیتا ہے، پھر موقع بہ موقع وہ اس پر اس طرح آہن زنی کرتا ہے کہ یہ بات خاتون کے دل کی گہرائیوں میں گڑ جاتی ہے اور خاوند کی وفاداری سے اس کا اعتماد متزلزل ہوجاتا ہے۔ گھر میں پہلی سی خوش گواری اور حلاوت دم توڑنے لگتی ہے اور فضا میں تلخیوں کا زہر گھل جاتا ہے۔ بچوں پر بھی اس صورت حال کے اثرات پڑتے ہیں اور ان کی تربیت کا رنگ بدلنے لگتا ہے۔ بعض اوقات یہ صورت حال میاں بیوی کے درمیان دائمی جدائی کا باعث بن جاتی ہے۔ اس طرح شیطان لعین ایک بہترین گہوارۂ تربیت کو ویران کرکے معاشرے کو اعلیٰ پائے کی افرادی قوت فراہم کرنے والا ایک دروازہ بند کردیتا ہے۔ آپؐ رحمت للعالمین ہیں۔ آپؐ نے رحمت کا در وا رکھنے کے لیے خاندان کے ادارے کو تباہ کرنے والے افعال کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور ان کا ارتکاب کرنے والے گھنائونے کردار کے لوگوں سے اعلانِ برأت فرمایا ہے، اور بتایا ہے کہ ایسے افرادِ معاشرہ کا میرے طریق زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔
آپؐ کا اسوۂ حسنہ یہ تھا کہ جب آپؐ کو حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی باہمی شکر رنجی کا علم ہوا تو آپؐ خود ان کے گھر تشریف لے گئے۔ کچھ دیر کے بعد باہر تشریف لائے تو اصحابؓ نے پوچھا ’’اے اللہ کے رسولؐ! جب آپؐ گھر کے اندر گئے تو چہرۂ مبارک پر حزن و ملال کے آثار تھے، اور جب باہر تشریف لائے ہیں تو بہت خوش اور مطمئن نظر آرہے ہیں، یہ کیا بات ہے؟‘‘ حضورؐ نے فرمایا ’’میں نے ان دو شخصوں میں صلح کرا دی ہے جو مجھے بہت زیادہ عزیز ہیں۔‘‘ (سیرت فاطمۃ الزہرہؓ، طالب الہاشمی، بحوالہ: مدارج النبوۃ از شیخ عبدالحق محدث دہلوی)
اللہ تعالیٰ سب اہلِ ایمان کو شیطان کے شر سے بچائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔