انیلہ نثار
کچن میں پانی ختم ہو چکا ہے۔ آپ صبح جلدی اٹھ کر پانی بھر لیجیے گا، ایسا نہ ہو کہ اوپر والے جاگ جائیں۔ جانتے ہیں نا لسٹ میں ہمارے پانی کا استعمال کم جانا چاہیے، عبداللہ کی امی اس کے ابو سے رازداری سے بات کر رہی تھیں۔ عبداللہ کے ابو صبح فجر کے وقت اٹھ کے پانی کے کین بھرنے لگے۔ عبداللہ کی امی نے اسے بھی نماز کے لیے جاگا دیا۔ وہ نماز پڑھنے ابو کے ساتھ مسجد گیا اور اپنا حفظ قرآن کا سبق یاد کرنے لگا۔ سبق یاد کرنے کے بعد ناشتہ کرنے گھر آیا تو دیکھا کہ اوپر والے انکل کام کے لیے جا رہے تھے۔ امی نے ناشتہ دیا اور ابو کو کہا کہ آپ ایک کین پانی کا اوربھر لیں دن کے استعمال کے لیے۔ عبداللہ نے یہ سنا تو کہنے لگا امی آپ ڈرم سے استعمال کر لیجیے گا، امی نے عبداللہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا عبداللہ آپ چپ ہو کہ ناشتہ کرو۔ امی ابو اپنی باتوں میں مصروف ہو گئے اورعبداللہ ناشتہ کر نے کے بعد دوبارہ مدرسہ چلا گیا۔ واپس آ کر ٹیوشن گیا، وہاں استانی آج جھوٹ اور ایمانداری پہ سمجھا رہی تھیں اور عبداللہ گہری سوچ میںڈوب چکا تھا۔
آج جب عبداللہ گھر لوٹا تو کافی پریشان لگ رہا تھا۔ بہن نے پوچھا لیکن خاموشی سادھ لی اور دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ اسی طرح شام ہو گئی۔ امی بھی نوٹ کر رہی تھیں کہ آج عبداللہ کافی خاموش ہے۔ آخر رات کے کھانے پہ جب سب اکھٹے ہوئے تو امی نے عبداللہ کے ابو سے کہا کہ آج عبداللہ کافی چپ چپ ہے۔ آخر ابو نے بھی پوچھ ہی لیا، ’’کیا ہوا عبداللہ بیٹا آج سب آپ کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں، آپ آج کیوں الگ تھلگ ہو سب سے؟ کون سی بات آپ کو پریشان کر رہی ہے‘‘؟۔ نہیں ابو میں پریشان نہیں، بس مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا اسی لیے میں سوچ رہا تھا کہ کیا صیح ہے اور کیا غلط؟
’’ابو آج ٹیوشن والی مس نے ہمیں بہت سی باتیں بتائیں اور کہانی بھی سنائی‘‘، عبداللہ نے کہا۔ ’’کیا کیا بتایا تماری استانی صاحبہ نے‘‘، امی نے حیرت سے پوچھا تو عبدااللہ بتانے لگا کہ ’’مس نے بتایاتھا کہ کوئی ایسی بات جو کسی کے لیے جاننا ضروری ہو اور ہم اس بات کو نہ صرف چھپائیں بلکہ اس کی جگہ کوئی غلط بات بیان کریں جھوٹ کہلاتا ہے۔کسی کہ ساتھ کوئی زیادتی کرنا یا جان بوجھ کہ کچھ غلط کرنا بے ایمانی کہلاتی ہے اور اگر ہم کبھی بھول کر بھی اپنے جھوٹ یا بے ایمانی کے ساتھ اللہ کو منسلک کر دیتے ہیں تو اس کا حساب ہمیں اللہ پاک کو لازمی دینا ہوگا کیونکہ ہم جس انسان کے ساتھ بے ایمانی کرتے ہیں یا جھوٹ بولتے ہیں اگروہ انسان نہیں بھی جانتا اسے معلوم نہ بھی ہو پر اللہ پاک تو ہمیں دیکھتا ہے وہ بھی ہر وقت۔ ابو جی اورمس تو یہ بھی بول رہی تھیں کہ جھوٹے انسان کا کوئی اعتبار بھی نہیں کرتا بھلے وہ جھوٹ کہ بعد سچ ہی کیوں نہ بولے ۔
ماشاء اللہ آپ کو تو آپ کی مس نے بہت ہی عمدہ باتیں بتائیں ہیں اور آپ کو سب یاد بھی ہیں۔ میرے بیٹے آپ ان پر ہمیشہ عمل بھی کرنا۔ ابو نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ یہ جواب سنتے ہی عبداللہ سوچ میں پڑ گیا تو بہن نے پوچھا اب اس میں اتنے سوچنے والی کیا بات ہے؟ عبداللہ نے بہن کی طرف دیکھا اور کہا کہ اگر یہ ساری باتیں بہت اچھی ہیں تو پھر ہم ان پر عمل کیوں نہیں کر سکتے۔ اس پر عمل نہیں ہو سکتا میں اسی لیے پریشا ن ہوں۔ کھل کہ بولو عبداللہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ امی نے تجسس سے پوچھا۔امی جیسے مس نے بتایا تھا کہ کوئی ایسی بات جو کسی کے لیے جاننا ضروری ہو اور ہم اس بات کو نہ صرف چھپائیں بلکہ اس کی جگہ کوئی غلط بات بیان کریں جھوٹ کہلاتا ہے۔ تو ہم بھی تو جھوٹے ہوئے نا پھر؟ دیکھو ہم اوپر والی انکل آنٹی کو سچ نہیں بتاتے کہ ہم ان سے زیادہ پانی چھپ کر استعمال کرتے ہیں بلکہ ہم تو ان کو روز ہی جھوٹ بولتے ہیں۔
اسی طرح جب ان کو پانی کا بل ادا کرنا ہو گا تو وہ ہمارے استعمال شدہ پانی کا بھی بل ادا کریں گے کیوں کہ ان کو تو ہماری سچائی نہیں پتا۔ امی اور ابو پہلے دن ان کو بول رہے تھے کہ ہم کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتے اگر کریں تو ہمیں اللہ پوچھے تو اس طرح اللہ ہمیں سزا لازمی دے گا۔ ہم تو باربار چھپ کے کین بھی بھرتے ہیں اور جب وہ لوگ نہیں ہوتے تو نل میں بھی پانی استعمال کرتے ہیں۔ میں اسی لیے صبح سے پریشان ہوں کہ ایک تو ہم جھوٹ بولتے ہیں اوربے ایمانی بھی کرتے ہیں اور اللہ پاک کو بھی اپنے جھوٹ کے ساتھ شامل کرتے ہیںاور باجی جس دن ان کو ہمارا سچ پتہ چل گیا اس دن سے وہ کبھی بھی ہماری کسی بات کا یقین نہیں کریں گے۔ امی ابو جو خاموشی سے یہ باتیں سن رہے تھے فورا بولے عبداللہ آپ چھوٹے ہیں ابھی جا کر اپنے کمرے میں آرام کریں۔ عبداللہ اپنے ذہن میں بہت سارے سوالات لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور امی بھی کچن سمیٹ کر آرام کرنے چلی گئیں۔
ایک دن اچانک عبداللہ کے بڑے بھائی رحمن امی کو زور زور سے آواز دیتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ امی کچن سے ہاتھ صاف کر تی ہوئیں باہر آئیں تو رحمن نے بتایا کہ امی اس بار بجلی کا بل بہت ہی زیادہ آیا ہے کہاں سے دیں گے اتنا بل، امی بجلی کا بل دیکھتے ہوئے سر پکڑ کر بیٹھ گئیں اور بجلی والوں کو کوسنے لگیں۔ عبداللہ جو پاس ہی بیٹھا اپنے ریاضی کے سوالات حل کر رہا تھا یہ سب سن کے بولا میری مس نے یہ بھی کہا تھا کہ زیادتی اور بے ایمانی کی سزا اللہ پاک دنیا میں ہی دے دیتا ہے آپ نے اوپر والوں سے جھوٹ بول کر پانی کے پیسے زیادہ لیے اور اللہ پاک اب بل کے ذریعے آپ سے و ہ پیسے وصول کر رہے ہیں۔
یہ بات سنتے ہی امی شرمندگی کے ساتھ اپنے کمرے میں گئیں جہاںعبداللہ کے ابو بیٹھے تلاوت کر رہے تھے۔ عبداللہ کی امی کو ایسے دیکھ کر پوچھا کیا ہوا؟ تو آنکھوں میں آنسو لیے اس کی امی نے کہا آج واقعی مجھے احساس ہوا ہم اپنے بچوں کی تربیت کرنے کے لیے بہتر والدین نہیں ہیں۔ ہم ان کو اچھی اچھی باتیں بتاتے تو ہیں ان کوقرآن و سنت پہ عمل کرنے کے مشورہ تو دیتے ہیں لیکن ہم خود اس پہ عمل نہیں کرتے اور بچے تو باتوں سے زیادہ عمل سے سیکھتے ہیں۔ ہم سے توبہتر عبداللہ کی استانی صاحبہ ہیں۔ مجھے بھی اس دن عبداللہ کی باتیں سن کر شدت سے اس بات کا احساس ہوا۔ عبداللہ کی والد نے سر جھکا کر جواب دیا اور اسی شرمندگی کے ساتھ دونوں نے عہد کیا کہ آئندہ وہ نہ تو کبھی جھوٹ بولیں گے اور نہ کبھی کسی کے ساتھ زیادتی کریں گے۔