اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام نامور شاعر مرزا غالبؔ پر خصوصی لیکچر اور محفل مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت معروف دانش ور اور شاعر شاداب احسانی نے کی۔ مہمان خصوصی معروف شاعرہ تسنیم عابدی تھیں۔ اس موقع پر مرزا غالب کے فن و شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر شاداب احسانی نے کہا کہ مرزا غالب نے لفظوں سے کھیل کر تخیلاتی تصویریں بنائیں۔ غالب نے خالص اردو لغت کا سہارا لیا۔ غالب کی شخصیت اور فن کثیر الجہتی ہے‘ ان کی انفرادیت اور عظمت اتنے پہلوئوں میں جلوہ گر ہوتی ہے کہ اس کا احاطہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ غالب نے اپنی فنی زندگی کا آغاز فارسی گوئی سے کیا اور کلام کے تین حصے فارسی اور ایک حصہ اردو شاعری پر مبنی ہے۔ محبت کا روایتی مضمون جب غالب کے قلم سے چھوتا ہے تو ایک ایسے شخص کی محبت بن جاتا ہے جو خوددار بھی ہے‘ اَنا پرست بھی۔ وہ افلاطونی محبت کا قائل نہیں۔ مہمان خصوصی تسنیم عابدی نے کہا کہ غالب کی اردو شاعری میں فارسی کے الفاظ شاعری کی دل کشی میں اضافہ کرتے ہیں۔ نازک خیالی بدستور موجود ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ عقلیت‘ معنویت اور جذبے کی شدت سر چڑھ کر بولتی ہے‘ غالب کبھی غزل کو وسعت بخشتے نظر آتے ہیں تو کبھی تصوف میں پناہ ڈھونڈتے ہیں‘ کبھی مذہب میں امان تلاش کرتے ہیں‘ کبھی یاسیت کے گہرے سمندر میں گرنے سے بچنے کے لیے ہاتھ پائوں مارتے ہیں اور کبھی خوابوں ہی خوابوں میں آرزوئوں کی جنت تلاش کرتے ہیں۔ اس دور کی انفرادیت غالب کی بے چینی ہے‘ وہ آسمان کی تلاش میں ضرور نکلے لیکن زمین نے انہیں خود سے جدا نہ کیا۔ معروف شاعرہ ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ مرزا غالب نے جس پُر آشوب دور میں آنکھ کھولی وہاں ماحول حقیقت پسندی سے فرار کا متقاضی تھا۔ غالب بھی اگر عام فرد ہوتے تو مفاہمت کی راہ اختیار کر لیتے لیکن انہوں نے مشکلات کو آواز دی۔ ان کی مشکل پسندی کی ایک وجہ موروثی روایات بھی تھیں۔ معروف شاعرہ عشرت حبیب نے کہا کہ مرزا کے آبا و اجداد ’’اُیبک‘‘ قوم کے ترک تھے۔ ان کا سلسلہ نسب ’’تورا بن فریدوں‘‘ تک پہنچتا ہے۔ مرزا کو شاعری سے کہیں زیادہ آبا و اجداد کی سپہ گری پر ناز تھا۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ شروع میں ’’اسد‘‘ تخلص رکھا پھری اسی نام کے ایک اور شاعر منظر پر آئے تو انہوں نے ’’غالب‘‘ تخلص رکھ لیا۔ غالب نے آگرہ میں کچھ وقت اپنے سسر کے زیر شفقت بھی گزارا جن سے غالب کی شاعری کے رجحانات کو جلا ملی۔ سسر کے مشورے پر ہی انہوں نے اپنا تخلص بدلا۔ اس موقع پر شاداب احسانی‘ تسنیم عابدی‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ حرا شبیر‘ شجاع الزماں خان‘ پروفیسر محمد کمال اطہر‘ محمد نذیر‘ فرح وہاب‘ الحاج نجمی‘ ممتاز خان‘ وحید محسن‘ محمد رفیق مغل‘ غازی بھوپالی‘ سید علی اوسط جعفری‘ تاج علی رعنا‘ ہما اعظمی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ دل شاد احمد دہلوی‘ق عشرت حبیب‘ عارف شیخ عارف‘ تنویر حسین سخن‘ جمیل ادیب سید‘ اقبال رضوی‘ عرفانہ پیرزادہ سیما نے اپنا کلام پیش کیا۔
سحرتاب رومانی ایک باصلاحیت شاعر ہیں‘ اقبال خاور
سحر تاب رومانی کا شمار نوجوان شعرا میں ہوتا ہے انہوں نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کے سبب ادبی منظر نامے میں جگہ بنائی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر اور صحافی اقبال خاور نے ایک نشست میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ سہل ممتنع میں سحر تاب رومانی بہت اچھی شاعری کر رہے ہیں تاہم انہوں نے طویل بحروں میں بھی خوب صورت اظہار خیال کیا ہے۔ انہوں نے بہت آسان زبان میں شاعری کے کمالات دکھائے ہیں‘ ان کے ہاں امیجری‘ نئے نئے استعارے نظر آتے ہیں انہوں نے غزل کے روایتی مضامین کے بجائے جدید لب و لہجے میں اشعار کہے ہیں‘ ان کی نظموں میں زندگی رواں دواں ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ادب برائے زندگی ہوتا ہے۔ صنفِ سخن غزل گو کی بھی بڑی اہمیت ہے کلاسیکی غزل کا موضوعِ خاص محبت ہے یعنی حسن و عشق کی دنیا لیکن اب اس شاعری میں غم جاناں کے ساتھ ساتھ غمِ زمانہ بھی شامل ہو گیا ہے اب شاعر اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات بھی لکھ رہا ہے اور وہ اپنے معاشرتی پہلوئوں کو بھی نظم کر رہا ہے سحر تاب رومانی نے حسن و جمال‘ وصال و فراق‘ عشق و فریفتگی‘ فنا و بقا‘ ہجو و نصیحت اور معرفت کے مضامین کے علاوہ نوجوان نسل کے مسائل بھی لکھے ہیں۔ ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ زندگی کے چاک پر‘ اگست 2016ء میں شائع ہوا جس کا اہتمام ڈاکٹر فاروقی العرشی (دبئی) نے کیا تھا جب کہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’دھوپ کے پار‘‘ نو مبر 2018ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ ان دونوں کتابوں کو بڑی پزیرائی ملی ان کتابوں پر مختلف تنقید نگاروں نے تبصرے لکھے ہیں جن میں رسا چغتائی بھی شام ہیں وہ لکھتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں سے سحر تاب رومانوی کی شاعری مجھے نہ صرف غوروفکر پر آمادہ کرتی رہی ہے بلکہ ان کے کئی اشعار پر میں نے بے اختیار داد بھی دی ہے یہ اپنے ہم عصر اور ہم عمر شعرا میں منفرد لب و لہجے کے باعث اہم مقام بنا چکے ہیںیعنی اعتبارِ سخن کی منزل پر فائز ہیں ان کی شعری صلاحیتوں کا سفر عمودی ہے اور ان کے امکانت روز بہ روز روشن ہوتے جارہے ہیں یہ بہت جلد اساتذہ فن میں شمار ہوں گے۔ رانا سعید دوشی نے لکھا ہے کہ سحرتاب رومانی آج کی اردو غزل سے مکمل طور پر آشنا اور وابستہ ایسا نام ہے جس نے اپنی بساط کے مطابق کھری اور خالص لغت سے غزل کے خدوخال سنوارنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنی شناخت کو مستحکم کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ:
ایسے عالم میں زندہ ہوں جس میں بس
مجھ کو میری کوشش زندہ رکھتی ہے
سحر تاب رومانی کے ہاں غزل پورے تغزل کے ساتھ جلوہ گر ہے ان کی غزل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ’’محبت فاتح عالم‘‘ کے نظریے کے ساتھ غزل میں خود موجود ہوتے ہیں‘ ان کی غزلوں میں معاشی‘ اقتصادی‘ معاشرتی‘ سماجی اور اخلاقی موضوعات بھی نہایت سلیقے سے اپنی جگہ بناتے ہیں لیکن ان موضوعات میں بھی رومانی جذبوں کی لہریں موجزن ہوتی ہیں ان کے ہاں غزل میں ایک خاص قسم کی وضع داری اور رکھ رکھائو واضح طور پر محسوس کیا جاتا ہے جو کہ ان کی طبعِ سلیم کا مظہر ہے۔ اختر سعیدی نے سحر تاب رومانی کے بارے میں کہا کہ وہ میچور شاعر ہے‘ وہ ٹھنڈے دل و دماغ کا آدمی ہے لیکن سماجی رویوں کو بہت شعلہ بیان انداز میں لکھتا ہے ان کی شاعری میں جمالیاتی حسن کے علاوہ شعری وجدان عروج پر ہے۔ غنائیت سے بھرپور اشعار کہتے ہیں‘ سماجی غفلت کا اظہار ان کے یہاں ایک تبصرے کی صورت میں نظر آتا ہے۔
مرے سب لوگ مارے جا رہے ہیں
مری آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے
اس طرح کے شدید ردعمل کے اشعار بھی سحر تاب رومانی کے ہاں ملتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعر بہت حساس ہوتا ہے‘ وہ کسی بھی واقعہ کو سرسری انداز میں نہیں لیا بلکہ اس کی مختلف اشکال ہمارے سامنے لاتا ہے۔
بات دل کی تھی دل سے ہو جاتی
بیچ میں تم دماغ لے آئے
اس قسم کے نہایت بے ساختہ‘ تازہ کاری سے معمور اشعار سحر تاب کی شناخت بنتے جارہے ہیں‘ ان کے مشکل مشکل الفاظ کے بجائے سہل ممتنع نظر آتا ہے‘ یہ الفاظ کے جادوگر ہیں‘ مشاعرہ پڑھنے کے فن سے بھی واقف ہیں اور کئی ادبی انجمنوں میں بھی بہت فعال ہیں۔ راقم الحروف نے سحر تاب رومانی کا انٹرویو بھی شائع کیا تھا جس میں انہوں نے ادبی موضوعات پر لگے بندھے جوابات کے بجائے بہت سی نئی باتیں پیش کی تھیں ان کے دیگر شعری مجموعے ’’گفتگو ہونے کے بعد‘‘ 2010ء اور ’’ممکن‘‘ 2013 میں شئاع ہوئے تھے۔
سلام گزار ادبی فورم کی 99 ویں محفل ِ سلام
اس وقت کراچی میںطاہر سلطانی ماہانہ حمدیہ طرحی مشاعرہ اور قمر وارثی طرحی نعتیہ مشاعرہ کرا رہے ہیں لیکن مقبول زیدی نے سلام امام حسینؓ کے حوالے سے طرحی مشاعروں کا آغاز کیا ہے‘ یہ سلسلہ پاکستان کے مختلف شہروں میں جاری ہے اس تناظر میںسلام گزار ادبی فورم نے 99 ویں محفل سلام ’’اجازت‘‘ کی ردیف میں سید اصغر علی کی رہائش گاہ پر منعقد کی جس کی صدارت پروفیسر شاداب احسانی نے کی۔ فیروز ناطق خسرو مہمان خصوصی اور شمس الغنی مہمان اعزازی تھے۔ مقبول زیدی نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس موقع پر جن شعرا نے طرحی ردیف پر کلام پیش کیا ان میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ قاسم ترمذی‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ نسیم کاظمی‘ پرویز نقوی‘ خمار زیدی‘ اخلاق احمد درپن‘ عدنان عکس‘ تبسم رضوی‘ مصطفی کاظمی‘ آسی سلطانی‘ فرحت عابد‘ پروین حیدر‘ سمیع نقوی‘ اصغر علی سید‘ حجاب فاطمہ شامل تھے۔ فاخر رضا اور سید دانیال علی زیدی نے پروگرام کی آئی ڈی بنا کر پیش کی۔ صاحب صدر پروفیسر شاداب احسانی نے کہا کہ رثائی ادب نے اردو کو Rich کیا ہے حضرت امام حسین نے باطل قوتوں کے خلاف لڑتے ہوئے اللہ کی راہ میں اپنی اور اپنے جاں نثاروں کی قربانیاںدے کر ایک لازوال داستان رقم کی ہے۔ رثائی ادب میں کربلا ایک مضبوط استعارہ ہے مرثیہ اور سلام کی مجالس عام طور پر محرم کے مہینے میں زیادہ ہوتی ہیں لیکن سلام گزار ادبی فورم نے سلام کی ماہانہ طرحی مشاعروں کے انعقاد سے ایک نئی بنیاد ڈالی ہے جو قابل تحسین ہے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت اور آلِ رسول سے محبت ہمارے دینِ اسلام کا اہم جزو ہے‘ آل رسول کی سیرت بیان کرنا عین ثواب ہے۔ ذکرِ رسول اور ذکر آل رسول ہر زمانے میں ہوتا رہا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلے گا۔ مقبول زیدی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سلام گزار ادبی فورم تمام اربابِ سخن کے شکر گزار ہیں کہ وہ طرحی مشاعروں میں شریک ہوتے ہیں‘ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ طرحی ردیفوں کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ردیف بامعنی ہوں۔ اب تک جتنے بھی مشاعرے ہو چکے ہیں ہم انہیں آہستہ آہستہ کتابی شکل دے رہے ہیں ہمارے ساتھ جو لوگ جڑے ہوئے ہیں اور جو لوگ ہمارے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں ہم ان سب کے شکر گزار ہیں۔
’’مصورانِ خوش خیال‘‘ شائع ہو گئی
پروفیسر ڈاکٹر اوجِ کمال محقق ادیب اور ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادبی رسالہ ’’دنیائے ادب‘‘ کے تخلیق کار بھی ہیں اس ادارے کے تحت اب تک انہوں نے بے شمار کتابیں شائع کی ہیں ابھی حال ہی میں انہوں نے ممتاز شاعر خالد معین کی کتاب ’’مصورانِ خوش خیال‘‘ شائع کی ہے۔ 207 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں فرح شہاب‘ وصی حیدر‘ تنویر فاروقی‘ فوزیہ خان اور جی این قاضی کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ خالد معین پچھلے کئی برسوںسے نثر نگاری کی طرف بھی مائل ہیں جب کہ ان کے کئی شعری مجموعے بھی منظر عام پر آچکے ہیں ان کی نثر کی کتابوں میں ’’رفاقتیں کیا کیا‘‘ ہم عصر ادب اور شخصیات پر تجزیاتیء مضامین’’اب سب دیکھیں گے‘‘ کے بعد ’’مصورانِ خوش خیال‘‘ شائع ہوئی ہے جس کی تقریب رونمائی ہو چکی ہے آخر الذکر کتاب کا انتساب عہد آفریں پاکستانی اساتذہ اور مصوروں کی نئی نسل کے نام ہے خالد معین نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ تنویر فاروقی‘ وصی حیدر‘ اور فرخ شہاب ایک دوسرے کے سچے دوست ہیں انہوں نے شاعری کے علاوہ مصوری کے میدان میں بھی اپنی شناخت بنائی ہے۔ وصی حیدر ایک منفرد آرٹسٹ ہیں انہوں نے موضوعاتی سطح پر مصنوعی کی ہے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ تنویر فاروقی پورٹریٹ کے شعبے کے اہم فن کار ہے‘ ان کے بنائے ہوئے پورٹریٹ فنون لطیفہ میں خوش گوار اضافہ ہے‘ جی این قاضی ایک باصلاحیت مصور ہیں انہوں نے زندگی کے مختلف مسائل کو Paint کرکے عوام کے سامنے رکھا ہے۔ اس کتاب میں ہر مصور کی تصویر کے ساتھ اس کی پینٹنگ کے مختلف انداز دکھائے گئے ہیں جو کہ سامعین کی توجہ اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ خالد معین چونکہ ایک ذہین شاعر اور ادیب ہیں اس لیے انہوں نے مصورانِ خوش خیال میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔