۔’’میری غزل‘‘ کا جائزہ۔۔۔

1393

فیض عالم بابر
’’میری غزل‘‘ سعید اشعر کا شعری مجموعہ ہے ۔176 صفحات کے اس مجموعے میں 72 غزلیں شامل ہیں۔کتاب میں حمد اور نعت کوئی نہیں ہے۔کیوں نہیں ہے یہ تو شاعر کو معلوم ہوگا مگر مجھے اچھا نہیں لگا کہ حمدو نعت ہمارے دینی تشخص اور ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔سرِ ورق پر شاعر کا نام جلی حروف میں اوپر اور کتاب کا نام نیچے ہے، اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاعر کی نظر میں اس کا نام اس کی شاعری سے بھی بڑھ کر ہے حالانکہ کسی بھی شاعر کا نام اس کی شاعری ہی زندہ رکھتی ہے۔کتاب میں شامل 28 غزلیں بحر خفیف کی مزاحف شکل(فاعلاتن،مفاعلن ،فعلن) کے وزن پر 10 غزلیں بحر مضارع کی مزاحف شکل(مفعول، فاعلات ،مفاعیل، فاعلن)میں اور 8 غزلیں بحرِ مجتث کی مزاحف شکل(مفاعلن،فعلاتن،مفاعلن،فعلن) کے وزن پر ہیں۔یہ وہ سلیس بحریں ہیں جن میں بیشتر شعرا کا کلام موجود ہے۔کتاب میں نسیم سحر ،رحمان حفیظ کے مضامین،فلیپ پر ریاض ساغر ،ڈاکٹر محمد سفیان صفی اور پسِ ورق نعیم گیلانی کی آراء شامل ہیں۔
شاعر نے کتاب کا نام ’’میری غزل‘‘ رکھ کر یہ پیغام دیا ہے کہ میری غزل اتنی منفرد اور اچھوتی ہے کہ پڑھنے والے پڑھ کر ہی پہچان لیتے ہیں کہ یہ غزل سعید اشعر کی ہے ۔مجھے تو پوری کتاب پڑھنے کے بعد بھی غزل تو درکنار ایک شعر بھی ایسا نہ ملا جو سعید اشعر کی ذات کے رنگ کو انفس و آفاق کے رنگوں سے مس ہوکر بھی نمایاں کررہا ہو ۔کوئی ایسی انفرادیت ہو،ندرت خیال ہو جو چونکا دے۔وہی روایتی اور عام رنگِ سخن ہے جو ہر دوسرے شاعر کا ہوتا ہے۔لہجے ،اسلوب ،تخیل اور لفظیات کی سطح پر مجھے تو کوئی نیا پن نظر نہیں آیا البتہ کچھ اشعار خوبصورت ہیں ۔ کتاب میں ’’میری غزل ہے‘‘ کی ردیف میں ایک غزل شامل ہے جس کے اشعار میں دعوے زیادہ شعریت کم ہے۔اس غزل کا مطلع ہے

وقت کی اک رازدان میری غزل ہے
روشنی کی داستان میری غزل ہے

یہ غزل بحر منسرح(مفتعلن،فاعلات،مفتعلن،فع) میں ہے جس میں اردو ادب میں بہت کم غزلیں نظر نواز ہوتی ہیں۔وجہ اس کی یہ ہے اس بحر میں موسیقیت، غنائیت اور روانی کی کمی ہے۔غالب کے دیوان میں ایک غزل اس وزن پر ہے جس کا مطلع ہے

آکہ مری جان کوقرار نہیں ہے
طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے

سعید اشعر اس لحاظ سے داد کے قابل ہیں کہ اتنی مشکل بحر میں انہوں نے رواں شعر کہے ہیں۔
کتاب لانے سے پیشتر اپنے چند معتبر شاعر ،دانشوردوستوں سے مشاورت کرلینی چاہیے ۔مشاورت سنت رسولﷺ بھی ہے اور یہ سراسر نفع کا سودا ہوتا ہے۔اگر سعید اشعر کسی معتبر دوست سے مشورہ کرلیتے تو شاید کتاب کا نام ’’میری غزل ‘‘نہیں رکھتے کیونکہ کسی کے رکھے ہوئے نام کو رکھنا اسے ہی زندہ کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔’’میری غزل‘‘ کے نام سے معروف شاعر،مترجم،صحافی کرار نوری کے شعری مجموعہ کا دوسرا ایڈیشن دسمبر 1983ء میں کراچی سے شایع ہوا تھا۔کرار نوری مرزا غالب کے شاگرد آگاہ دہلوی کے پڑپوتے تھے۔انکے شعری مجموعے کی تقریب رونمائی کراچی آرٹس کونسل میں ہوئی تھی جس کی صدارت فیض احمد فیض نے کی تھی۔کرار نوری کی کتاب میں شامل دو اشعار

تاریکیوں میں ہم جو گرفتار ہو گئے
شاید سحر سے پہلے ہی بیدار ہو گئے
ناکامیوں نے اور بھی سرکش بنا دیا
اتنے ہوئے ذلیل کہ خوددار ہو گئے

آنے والی نسلوں کو دھیان میں رکھ کر زبان اور صحتِ زبان کا خیال رکھنا ہر شاعر کا فرض اور بنیادی ذمہ داری ہے مگر افسوس نرگسیّت کے شکار اور راتوں رات شہرت کے طلب گار بیشتر شعرا ء اس کا خیال نہیں رکھتے ۔
لفظ یہاں، وہاں،جہاں ،کہاں ،کہیں ،وہیں جیسے الفاظ کے ساتھ’ پر‘ یا’ پہ‘ کا استعمال زبان نہیں اور معیوب بھی سمجھا جاتا ہے۔ اساتذہ کے ہاں ایسی کوئی مثال بھی نہیں ملتی ۔ بظاہر تو ان دونوں لفظوں کو ایک ساتھ مثلاً’’کہاں پر ‘‘ لکھنے سے معلوم نہیں چلتا کہ ایسا لکھنے میں کیا عیب ہے ،صوتی تنافر بھی پیدا نہیں ہو رہا ۔اس عیب کوسمجھنے کے لیے’ کہاں پر‘ کو’ کدھر پر‘لکھ کر دیکھیں تو سمجھ میں آجاتا ہے ۔سعید اشعر کی کتاب میں جابجا ایسے الفاظ کے ساتھ پر یا پہ کا استعمال کیا گیا ۔چند مثالیں۔

قیام کرتا کہیں پر تو قافلہ دل کا
تُو جو چلا گیا ہے،ابھی تک یہیں پہ ہے

جس مکاں پر جدا ہوئے تھے ہم
تیرگی سی وہاں پہ ٹھہری ہے

چند آنسو کہیں پہ اٹکے ہیں
سانس سینے میں الجھی الجھی ہے

سبھی نے اپنی سی کوشش یہاں پہ کر دیکھی
کسی سے حل نہیں ہوتا یہ مسئلہ دل کا

اشعر سکونِ قلب کی خاطر کبھی کبھی
خود کو کہیں پہ بھول کے آ،کوئی مشورہ

کتاب میں شامل دو شعرکچھ یوں ہیں

حسن کہتے ہیں اسے،جتنا بھی ہو لاپرواہ
اپنے حصے کا مگر کام یہ کر جاتا ہے
یہ بصارت ہے مری یا کہ بصیرت میری
ایک پردہ پسِ پردہ نظر آتا ہے مجھے

پرواہ کوئی لفظ نہیں ہوتا درست لفظ پروا ہے ۔سند کے طور پر غالب اور جون ایلیا کا ایک ایک شعر پیش ہے۔

زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
کیا مزہ ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک
سوچا ہے کہ اب کار مسیحا نہ کریں گے
وہ خون بھی تھوکے گا تو پروا نہ کریں گے

دوسرے شعر میں یا کہ کا ایک ساتھ استعمال فصیح نہیں گوکہ اس کی مثالیں اساتذہ کے ہاں بھی مل جاتی ہیںجیسے۔

جست کی ان نے اپنی جاگہ سے
تھا سفینے میں یا کہ دریا میں
(میر تقی میر)
برس پندرہ یا کہ سولہ کا سن
جوانی کی راتیں ،مرادوں کے دن
(میر حسن)

مگر اساتذہ کی اغلاط کی تقلید یا انہیں سند بناکر پیش کرنا بھی کوئی دانشمندی نہیں ہوتی۔یا اور کہ ایک ہی مفہوم دیتے ہیں اسی لیے ان کو ایک ساتھ استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
کتاب میں شامل مزید دو شعر کچھ یوں ہیں ۔

میرا الہام مجھ سے کہتا ہے
تو نے شعلوں کو خود ہوا دی تھی

مسافر جارہا ہے اک جزیرے پر
نہ پیچھے سے صدا کرنا،دعا کرنا

پہلے شعر میں الہام کہنا غلط ہے۔ الہام کوئی مجسم وجود نہیں کہ مخاطب ہوگا۔الہام ہونا درست ہے۔دوسرے شعر کے دوسرے مصرع میں ذم کا پہلو ہے گوکہ مکتوبی شکل میں یہ پہلو نمایاں نہیں ہوتا مگرملفوظی شکل میں نمایاں ضرور ہوگا۔سعید اشعر دوسرا شعر کسی محفل میں پڑھیں، سننے والے جملہ کس کر ،مکرّر کہہ کر یا چہرے پر مسکراہٹ سجا کر اپنا اظہار ضرور کریں گے۔سننے والا دوسرے مصرع میں موجود لفظ’ صدا ‘کو ’سدا‘ ہی سنے گااور خوب محظوظ ہوگا۔
خوش آئند بات ہے کہ کتاب میں پروف کی غلطیاں زیادہ نہیں ہیں مگر ہیں ضرور ۔جیسے۔

دشت ہوتا تو مل بھی جاتا وہ
شہر کے بیج کھو گیا ہے کوئی

اس شعر میں بیچ کو بیج لکھا ہے

کوئی کھڑکی نہ کوئی در بولا
میں نے ایک ایک کو صدا دی تھی

اس شعر میں پہلا ایک اک ہوگا

ہر دم دل و دماغ میں ترے فراق سے
بڑھتا ہی جارہا ہے خلا، کوئی مشورہ

اس شعر میں ترے کی جگہ تیرے ہوگا

کتاب میں شامل کئی اشعار میں بھرتی کے الفاظ بھی جلوہ افروز ہیں جن سے سعید اشعر کو جان چھڑانی ہوگی۔بھرتی کے الفاظ شاعر کے قدرتِ کلام پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں۔
شاعر جس سطح کا بھی ہومگر اس کے کلام میں کچھ اشعار ایسے ہوتے ہیں جو نہ صرف پڑھنے والے کو لطف بہم پہنچاتے ہیں بلکہ تخلیق کے حوالے سے شاعر کی سمت کا بھی تعین کرتے نظر آتے ہیں۔سعید اشعر کی کتاب میں بھی جا بہ جا ایسے خوبصورت ،بامعنی اور پُرلطف اشعار موجود ہیں
جن کی تعداد 22 ہے ۔ان میں سے چند اشعار دیکھیے۔

ہزار بار کی کوشش بھی رنگ لائی نہیں
کسی طریقے سے بھرتا نہیں خلادل کا

مری نظر کا یہ دھوکا ہو،عین ممکن ہے
جھکا ہوا ہے کناروں سے آسمان بہت

تجھ کو معلوم ہے اس خواب کی تعبیر ہے کیا؟
چاند کے ساتھ ستارہ نظر آتا ہے مجھے

( ازراہِ تفنن مجھے اس شعر کی تعبیر یہ نظر آتی ہے کہ ایک بچے کی ماں سے عقد ہوگا)

تونے گرداب کی صورت کو فقط دیکھا ہے
اس کے اندر سے کنارا نظر آتا ہے مجھے

ان پرندوں کو اختیار نہیں
ساتھ لے کر کہیں شجر جائیں

اتنے تھے اس کے قرب کے لمحات ضوفشاں
بجھ بھی گئے چراغ،اندھیرا نہیں ہوا

تجھے کو پہلے ہی کھو چکا تھا میں
بعد میں تونے بددعا دی تھی

اس نے ہر حال میں پانا تھا مجھے
اور مجھے پاکے ہی چھوڑا اُس نے

(اس شعر میںلفظ چھوڑاکا استعمال لاجواب ہے جس نے ایک عام سے خیال والے شعر کو جان بخش دی )

میرے ہونے سے تجھے الجھن ہے
اپنے اندر سے چلا جاتا ہوں۔

حصہ