عزمِ جواں

294

عالیہ زاہد بھٹی
موبائل کی اسکرین پر ابھرتی ہوئی تصویری کہانی ایک ہرنی اور اس کے شیر خوار بچے سے متعلق لگ رہی تھی۔ زقند بھرتا ہرنی کا چھوٹا سا بچہ اور سمندر کی بیکراں لہریں… بچہ اپنے آپ میں مست بھاگا جا رہا ہے، دور تاک لگائے بیٹھا مگرمچھ بھی دیکھنے والوں کو نظر آرہا ہے، مگر بچے کی بے نیازی اپنے عروج پر ہے، کہ اچانک اس کی ماں فراٹے بھرتی ہوئی آتی ہے اور بچے کی طرف لپکتے مگرمچھ کے قریب جاکر اپنی رفتار ہلکی کرکے گویا مگرمچھ کو موقع دیتی ہے کہ آئو مجھے اپنا نوالہ بنا لو، میرے بچے کو جانے دو۔ ایسا کرتے وقت اس ہرنی کی نظریں اپنے بچے پر اور چال سست، مگر اس کی نظروں میں چمکتا اک عزمِ جواں کہ میں نے اپنی قربانی دے کر نئے خون کی آبیاری کا موقع دیا۔ یہ میرے ہی وجود کا حصہ، میرے وجود کے ثبات کا نشان ہے، میں رہوں یا نہ رہوں میرے لہو سے نمو پانے والا یہ ’’عزم‘‘ ہمیشہ جواں رہے گا، پائندہ رہے گا، شاد رہے گا۔
میں اس ہرنی کی آنکھوں میں چھپے پیغام کو، اس روشنی کو، اس عزم کو دیکھنے میں منہمک تھی کہ مگرمچھ نے جھپٹا مار کر اس ہرنی کو اپنا نوالہ بنا لیا اور بچہ اسی بے نیازی سے فراٹے بھرتا دور کی منزلوں کو طے کرتا نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ ساتھ ہی یہ چھوٹا سا وڈیو کلپ بھی ختم، اور سانس روکے ساکت کھڑے میرے اردگرد چار ننھے ننھے وجود بھی جیسے خواب سے جاگے اور فوراً اس وڈیو پر تبصرے شروع ہوگئے جو کہ واٹس ایپ پر کسی نے شیئر کی تھی، اور جیسے ہی میںنے گھر میں موجود اس اکلوتے اسمارٹ فون کو ہاتھ میں لیا میرے چاروں بڑے بچے میرے اردگرد بیٹھ گئے کہ اب اماں کی زیر نگرانی دن بھر کی شیئر کی گئی وڈیوز دیکھیں گے۔ وہ چاروں تو اسی طرح بیٹھے دیگر وڈیوز دیکھتے رہے، اور میں موبائل اسکرین پر نظریں جمائے ابھی تک گویا اس ہرنی کے عزمِ جواں کے حصار میں غلطاں و پیچاں اپنا آج اور اپنے بچوں کا کل دیکھ رہی ہوں، وہ کل کہ جس میں دجّالی فتنے کا مگرمچھ میرے بچوں کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہے، میرے بچے بھی اس ہرنی کے بچوں کی طرح معصومیت سے زقند بھرے چلے جارہے ہیں، اور میں… میں کہاں ہوں؟ کیا میری رفتار میں اُس ہرنی جیسی بے تابی ہے جو اپنے بچے کو مگرمچھ سے بچانے کے لیے سرگرداں ہے اور آخرکار کامیاب ہوگئی؟
نہیں، میری اور میرے جیسی ہزاروں مائوں کا المیہ یہ ہے کہ اپنے بچوں کے لیے ہلکان ہوئی جارہی ہیں کہ یہ کھالو، یہ پی لو، یہ پہن لو… اچھے سے اچھا کھانا، لباس، آسائش، ہر ممکن سہولت… مگر پھر بھی کہیں زینب کا قصہ تو کہیں کائنات کی سسکیاں، کہیں رابعہ کا واقعہ، کہیں شاہ زیب کا قتل، تو کہیں زید کو ہراساں کیا جانا… یہ سب کون ہیں، میری ہی جیسی مائوں کے جگر گوشے ہیں ناں…! ان کو محفوظ مستقبل دینا، انہیں پامال ہونے سے بچانا میری ذمے داری ہے ناں…! ابھی کل ہی اس موضوع پر میری ایک بہن سے بات ہورہی تھی، میں نے سوال کیا کہ کیا بحیثیت ماں ہم سب مائیں اپنے بچوں کو ایک بہترین یا بہتر مستقبل دینے میں کامیاب ہوسکتی ہیں؟ تو میری اس بہن نے جواب دیا کہ ہاں ہم اپنی تربیت کے ذریعے قرآن سے قربت پیدا کرکے، نماز، روزے کا ماحول بنا کر، ذکر اذکار اور تسبیحات کے ذریعے کافی حد تک ایک اچھا اور محفوظ مستقبل فراہم کرسکتی ہیں، یعنی بذریعہ تبلیغ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحابِِ صفہ کی ٹریننگ کی تھی تو آگے چل کر ایک بہترین ریاست، ایک بہترین قوم تشکیل پائی تھی۔ اُس وقت تو میں اس جواب سے مطمئن ہوگئی تھی، مگر آج اس وڈیو نے مجھے پھر سے بے چین کردیا، مجھے لگاکہ صرف اپنے بچوں کو بھاگنا سکھا کر ہرنی مطمئن نہیں بیٹھی، بلکہ وقت کے عفریت کے ہاتھوں سے اپنے بچے کو بچانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا بیٹھی۔ وہ بھی تو مطمئن ہوسکتی تھی کہ میں نے بھاگنا سکھا دیا ہے، اب میرا بچہ محفوظ ہے، اس نے یہ سوچ کر اطمینان سے آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ کھلی آنکھوں سے خطرے کو بھانپا اور جو کچھ اس سے بن پڑا، وہ کر دکھایا۔ میں تو انسان ہوں، اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے، میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھا دیا کہ اصحابِِ صفہ کی ٹریننگ صرف بحیثیت مدرس، بحیثیت واعظ، بحیثیت موذن اور بحیثیت امام اور پیش امام ہی نہیں کی، انہی اصحابِ صفہ سے سلطنتِ اسلامیہ کے قیام کے بعد گورنری بھی کرائی اور خلافت بھی… عدالتوںکے نظام بھی چلائے اور معیشت و تجارت بھی۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں اصحابِ صفہ کام آئے، کہ ان کی تربیت میں خلافتِ الٰہیہ کے قیام کا مقصد ڈالا گیا تھا، ان کے عزم کو جواں رکھا گیا تھا، ان کا مطمح نظر صرف تبلیغ دین نہ تھا بلکہ اقامتِ دین کا فریضہ تھا، تبھی تو مدینہ کی ریاست کا قیام ناگزیر ٹھیرا۔ میں اور میرے جیسی مائیں تو اس ہرنی سے بھی کم تر ٹھیریں گی۔ ہمارا عزم تو محض اتنا ہوتا ہے کہ اپنے بچے کو اچھی دنیاوی تعلیم دلا دیں تاکہ وہ بہتر ملازمت حاصل کرکے فراغت کی زندگی گزارے۔ ہم انہیں اچھی دنیاوی تعلیم کے ساتھ اچھی دینی تعلیم دلانے کے لیے کبھی اتنا ہی فکرمند کیوں نہیں ہوتے؟ اتنا ہی مال خرچ کرنے لیے بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ ہم کو قاری صاحب کو قرآن کے لیے معمولی سا ہدیہ دینا بھی بار گزرتا ہے، حالانکہ ہمیں چاہیے کہ دینی تعلیم کے لیے بھی بہترین استاد کا انتظام کریں، خود بھی تربیت کے لیے فکرمند ہوں، کیونکہ اس طرح ہی ہم اپنے بچوںکو ایک محفوظ معاشرہ دے سکیں گے، ساتھ ہی بہترین دیانت دار حکومت کے قیام کے لیے بھی اپنا ہر ممکن وقت، مال اور قابلیت خرچ کریں۔ بچے میرے اردگرد بیٹھے میرے ہاتھ میں موجود موبائل پر واٹس ایپ سے آتی وڈیوز دیکھ رہے تھے، سامنے جھولے میں سوئی ہوئی سب سے چھوٹی بیٹی کو دیکھا اور اس سے بڑی عائشہ پر نظر پڑی جو فیڈر منہ میں لیے دنیا و مافیہا سے بے نیاز اپنے بالوں سے کھیلتی نہ جانے کن سوچوں میں گم تھی، اور میں یہ سوچ رہی ہوں کہ عائشہ، خدیجہ اور فاطمہ جیسے نام رکھ کر ہم اپنے باقی فرائض سے پہلوتہی کر جاتے ہیں، ان زینب نام والیوں کو اللہ کے نظام کا تحفظ دینا میری اور آپ کی ذمے داری نہیں ہے کیا؟ ہمارے بچوں کا حق نہیں کہ اللہ سے اپنی بندگی کے حق کو دنیا کے سامنے منوا سکیں! اپنی عفت، عصمت، معیشت و سماج کی پاکیزگی کو اسلامی طرزِفکر پر استوار کرسکیں؟ کیوں نہیں ہے، بالکل ہمارے بچوں کا بھی حق ہے۔ اس ہرنی کا عزم جواں اب میرے جذبوں کو بلند کر رہا ہے اور میری آنکھوں میں روشنی بن کر اتر آیا ہے… اس راہ میں آپ میرا ساتھ دیں گی ناں…؟

حصہ