خواب ہوا، میرا آرام

325

زہرا تنویر
مہنگائی کے اس دور میں ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے اب ایک فرد کی آمدن ناکافی ہوتی ہے، اس لیے جو لوگ پہلے خواتین کی ملازمت کے خلاف تھے اب یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ ایک آدمی کی کمائی گھر چلانے کے لیے کم ہے۔ لہٰذا اب بہت سے لوگ خواتین کی ملازمت کو معیوب نہیں سمجھتے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ لیکن ملازمت پیشہ خواتین پر دُہری ذمہ داری لاد دینا بھی قرین انصاف نہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایک ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا تو وہاں بہت سی خواتین کا کہنا تھا کہ سارا دن آفس میں گزارنے کے بعد گھر آکر دو گھڑی آرام کرنے کا دل کرتا ہے لیکن گھر کے سارے کام ہمارے منتظر ہوتے ہیں۔ اس لیے اب آرام کا خیال بھی ذہن میں لانا خواب اور بے و قوفی سا لگتا ہے۔ ایک لڑکی کا رشتہ اس بات پر طے ہوا کہ لڑکی ملازمت کرتی ہے تو دونوں میاں بیوی مل جل کر کام کریں گے، اس طرح زندگی میں آسانی ہوگی۔ شادی کے بعد جب شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر پبلک ٹرانسپورٹ سے طے کرنا پڑا تو ہوش اڑ گئے۔ واپسی کا سفر گھر کے کاموں کی پریشانی میں گزر جاتا کہ رات کو کیا کرنا ہے اور صبح نکلتے کیا کرنا ہے تاکہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔
اس ذہنی کشمکش میں وہ سب کو یہی مشورہ دینے لگی کہ شادی سے پہلے جاب نہ کرنا، بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس کی ذہنی کیفیت اور سوچ سے یہ اندازہ لگانا بہت آسان تھا کہ وہ اکیلے اتنے کاموں کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی۔ کیونکہ شادی سے پہلے اگر لڑکی جاب کرے تو والدین کی طرف سے گھر کے کاموں کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ جب کہ شادی کے بعد ہماری روایت ہے کہ گھر کے کام بہو و بیوی ہی کرے گی اور اب جاب بھی لازمی ہوگئی ہے۔ جب عورت کی ملازمت کے حوالے سے سوچ بدل گئی ہے، اور جن کی سوچ تبدیلی کے مدارج طے کررہی ہے وہ گھر کے کاموں کے حوالے سے بھی سوچ کو بدلیں اور مل جل کر کمانے کی تحریک کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مل جل کر گھر کے کام کرنے کی تحریک میں شامل ہوں تاکہ احساس کا جذبہ پیدا ہو اور عورت اپنی سکت سے زیادہ بوجھ اٹھانے پر مجبور نہ ہو۔ یہ کیسی سوچ اور نظریات ہیں جن کو اپنے مفاد کے لیے تو استعمال کیا جا رہا ہے لیکن احساس سرے سے موجود ہی نہیں۔ احساس کے جذبے کو فروغ دیں تاکہ ساتھ دینے والے قدم کہیں تھک نہ جائیں

حصہ