سوال: جمعیت کی تاسیس کیسے ہوئی؟
جواب: ۱۹۴۵ء میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخل ہونے کے بعد میں نے اسلامی ذہن رکھنے والے طلبہ کو تلاش کیا اور تحریک اسلامی کا لٹریچر ان کو پڑھوایا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں پچاس کے قریب طلبہ ہم خیال ہوگئے۔ اس وقت ان کو ’’مجلس تعمیر افکار اسلامی‘‘ کے نام سے متعلم کیا گیا اور اس نام کے تحت ہم لوگ تحریک کا کام کرنے لگے۔
مئی ۱۹۴۷ء میں دارالسلام پٹھان کوٹ میں ہندوستان کے دیگر مقامات کے طلبہ سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا اور سب کے مشورے سے طے ہوا کہ اسلامی ذہن رکھنے والے طلبہ کا ایک آل انڈیا اجتماع اگست کی تعطیلات کے دوران میں دہلی میں منعقد کیا جائے اور وسیع پیمانے پر ایک تنظیم بنائی جائے۔ لیکن ۳ جون کو تقسیم ہند کا اعلان ہوگیا اور ملک کے حالات اس قابل نہ رہے کہ کوئی تنظیمی ڈھانچہ بنایا جاسکے۔
پاکستان کے قیام کے بعد جب حالات کچھ بہتر ہوگئے تو نومبر ۱۹۴۷ء میں ہم نے اپنے اس عزم کو پورا کرنے کا اعلان کیا اور ملک کے مختلف مقامات پر کافی طلبہ سے رابطہ قائم کیا۔ اس کے بعد اخبارات میں اعلان کیا گیا کہ ۲۱ دسمبر ۱۹۷۴ء کو لاہور میں اسلامی ذہن رکھنے والے طلبہ کا ایک اجتماع ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ۲۵ یا ۳۰ طلبہ جمع ہوئے اور اسلامی جمعیت طلبہ کی تنظیم وجود میں آگئی۔
سوال: ارکان بنا لیے گئے تو پھر ناظم اعلیٰ کا انتخاب بھی ہوا ہوگا۔ اس کا کیا طریق کار اختیار کیا گیا؟
جواب: انتخاب اس طرح ہوا کہ اس میںکوئی امیدوار نہیں تھا اور ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمارے ہاں کسی بھی انتخاب میں کوئی امیدوار نہیں ہوگا بلکہ تمام ارکان ایک خفیہ پرچی (بیلٹ) پر جس ساتھی کو مناسب اور موزوں سمجھیں اس کا نام لکھ کر پیش کر دیں۔ سب لوگوں نے اپنی رائے دی اور یوں اس ذمہ داری کا سزاوار مجھے ٹھہرایا گیا۔ میں نے بہت کہا کہ میں اس کا اہل نہیں۔ میرے ذمے ساتھیوں کو محض اکٹھا کرنا تھا۔ اب آپ ہی اس کام کو سنبھالیں کیونکہ آپ میں زیادہ صلاحیت رکھنے والے بھی ہیں اورتقویٰ و للہیت میں بھی برتر ہیں۔ مگر اس پر کوئی بھی نہ مانا۔ سب نے کہا کہ انتخاب ہوگیا ہے۔ ہم اس انتخاب کو تبدیل نہیں کریں گے۔
سوال: تنظیم کے سربراہ کے لیے پہلے روز ہی سے ’’ناظم اعلیٰ‘‘ کا لفظ تجویز کیا گیا۔ امیر، صدر یا کنوینر بھی تو ہوسکتا تھا، آخر اس لفظ کو کیوں طے کیا گیا؟
جواب: شروع ہی سے ناظم اعلیٰ طے کیا گیا، امیر، کنوینر اور صدر کے الفاظ بھی اس میٹنگ میں سامنے آتے تھے۔ امیر کا لفظ تو ابتداء ہی میں منظور نہ کیا گیا۔ صدر کا لفظ اس لیے نامنظور کر دیا گیا کہ یہ تو تمام تنظیموں کے سربراہوں کے لیے مخصوص ہے۔ آخر جمعیت کی انفرادیت اس کے ہر ہر پہلو سے نمایاں ہونی چاہیے۔ اس احساس کے نتیجہ میں ناظم اعلیٰ ہی کا لفظ متفقہ طور پر طے کر لیا گیا۔ اس میں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ ہر مقام پر جمعیت کے کام کا ذمہ دار چونکہ ناظم ہوگا اس لیے پاکستان کی سطح پر جمعیت کا ذمہ دار ناظم اعلیٰ کہلائے گا۔
سوال: آپ حلقہ احباب جمعیت کے بھی پہلے ناظم تھے۔ اس کی تشکیل کے وقت ذہن میں کیا خاکہ تھا؟
جواب: ہمارے ذہن میں تو خاکہ یہ تھا کہ طلبہ کی ایک ایسی سوسائٹی تیار کی جائے جو طالب علمی کے دور سے گزرنے کے بعد جب عملی زندگی کی دہلیز پر قدم رکھے تو قومی زندگی کا کوئی بھی میدان ایسا نہ رہے، جس میں اس صالح سوسائٹی کے آدمی نہ ہوں۔
چنانچہ اسی لیے ہماری پوری کوشش یہ ہوتی تھی کہ جمعیت کے کارکن اپنے آپ کو زندگی کے کسی ایک شعبہ کے لیے تیار کریں، محنت کریں اور بتدریج اس شعبہ میں اپنا مقام پیدا کریں۔ آہستہ آہستہ جب ہمارے ساتھی تحصیل علم کے بعد جمعیت سے فارغ ہونے لگے تو ہمارے ذہن میں یہ آیا کہ فارغ ہونے والے دوستوں سے تعلق ہی اس مقصد کو پورا کرنے کا سبب بن سکتا ہے، نیز انہیں رہنمائی دے کر طالب علمی میں حاصل کیے جانے والے مقصد زندگی کی تڑپ اورصراط مستقیم کی روشنی کو مسلسل توانا کیا جائے کہ وہ اسلامی انقلاب کے بہترین کارکن ثابت ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام کسی نظم کے تحت ہی ممکن تھا اور اسے حلقہ احباب کا نام دیا گیا۔
(ماخوذ از:ـــ’’جب وہ ناظم اعلیٰ تھے‘‘ ظفر اللہ خان)
٭…٭