نعیم الرحمن
(دوسرا او ر آخری حصہ)
کتاب کا اگلا مضمون فرخ شہاب کے بارے میں ’’تپش آئینۂ پرواز ہوں‘‘ کے عنوان سے ہے، جس میں فرخ اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’میرے والد سید شہاب الدین احمدکی پیدائش 1922ء میں گیا میں ہوئی، لیکن اُن کی تعلیم و تربیت انڈیا کے معروف علمی شہر علی گڑھ میں ہوئی۔ اُنہوں نے علی گڑھ اور لکھنؤ میں خاصا وقت گزارا، وہیں نوکریاں بھی کیں اور مختلف بزنس بھی کیے۔ میرے والد ادبی ذوق اور مزاج رکھتے تھے۔ میری یادداشت میں بچپن کی جو ابتدائی یادیں محفوظ ہیں، اُن میں گھر کا نقشہ آتے ہی سفید چاندیاں، عطردان اور خوش لباس معزز لوگ آتے ہیں۔ ہمارے گھر میں اُس وقت کے اہم ادبی رسائل بھی آتے تھے۔ والد نوحے بھی پڑھتے تھے اور مجالس میں بھی جاتے تھے۔ میری والدہ کا تعلق پٹنہ سے ہے۔ تقسیم کے وقت ہمارا خاندان ڈھاکا چلا گیا اور وہاں والد پَٹ سن کے بزنس سے وابستہ رہے۔ وہاں بھی گھرکا ادبی ماحول تھا، مشاعروں اور ادبی لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہا۔‘‘
والدین، بڑے بھائی اور تین بہنوں کے ساتھ سقوطِ ڈھاکا کے بعد فرخ دو سال جنگی قیدی بھی رہے۔ بڑے بھائی کو آرٹ کا شوق تھا۔ پنڈی آئے تو وہ باقاعدہ پینٹ کرنے لگے۔ ڈھاکا میں خوش حال زندگی کے بعد ان کے خاندان نے بہت کٹھن اور مشکل وقت گزارا۔ اسکولنگ ناظم آباد سے شروع ہوئی۔ پھر پی اے ایف اسکول ماری پور میں داخلہ ہوگیا، اور یہ جگہ بڑی پُرسکون تھی۔ دو بار بطور آرٹسٹ بنگلہ دیش چار مصوروںکے ساتھ گئے۔ وہاں بڑی پذیرائی ہوئی۔ سمندر انہیں بہت متاثرکرتا ہے۔ سمندر میں لائیو پینٹنگ بھی کی۔ پرانے برتن خریدنے کے شوقین ہیں۔ باغ بانی کا شوق والدہ سے ملا ہے۔ پینٹنگ واحد جنون ہے جو ہمیشہ اُن کے ساتھ رہا۔ اقبال مہدی کی قربت نے ان کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔ اقبال مہدی ناظم آباد میں گھر کے قریب ہی رہتے تھے۔ فرخ شہاب بہن کے ساتھ اقبال مہدی کے پاس مصوری سیکھنے پہنچ گئے۔ بہنوئی حسام الحق ان کے دوست تھے۔ پینٹنگ کا باقاعدہ آغاز 1984ء میں کیا۔ اقبال بھائی کے اسٹوڈیو میں مختلف فن پارے بنتے دیکھ کر حیران بھی ہوئے اور متاثر بھی۔ اقبال بھائی نے دل چسپی دیکھی تو ایک دن کہا: تم بھی کرو، تم کرسکتے ہو۔ یوں فرخ اُن کا ہاتھ بٹانے لگے۔ اسی سے مشق، مہارت اور ریاضت کا آغاز ہوگیا۔ وہاں کام کرنے کے پیسے بھی ملنے لگے۔ بڑا اچھا ماحول تھا، سیکھنے اور سمجھنے کا موقع بھی میسر تھا، پھر وہاں اتنا زیادہ کام تھا کہ دن رات کام بند ہی نہیں ہوتا تھا۔ اُس دور میں مصور ہی بننے کا عزم کرلیا۔
صادقین صاحب اُن دنوں فیریئر ہال میں کام کررہے تھے، انہیں وہاں کام کرتے بھی دیکھا، ملاقاتیں بھی رہیں۔ اسماعیل گل جی، بشیر مرزا، ناگوری صاحب، ناہید رضا اور بہت سے نامور آرٹسٹوں کو اسی دور میں قریب سے دیکھا۔ علی امام کا بھی بڑا اثر تھا۔ اس پورے مضمون میں فرخ شہاب کے آرٹ کے شعبے میں داخل ہونے، ذاتی زندگی اور بطور مصور ترقی کی منازل کا انتہائی دل چسپی سے جائزہ لیا گیا ہے جس سے قاری ان کے پوری فنی سفر اور ارتقا کو بہ خوبی سمجھ جاتا ہے۔
تنویر فاروقی کے شخصی مضمون کا عنوان ’’شوق ِ آئینہ بندی میں ہوں‘‘ ہے۔ خالد معین لکھتے ہیں کہ ’’تنویر فاروقی بڑا پیارا دوست ہے۔ اس کی شخصیت کا گریس اب تک برقرار ہے۔ وہ اپنے استاد اقبال مہدی کا ذکر بھی بڑی محبت سے کرتا ہے۔ تنویر فاروقی ہم عصروں کے مقابلے میں فنی طور پر بھی کم نہیں، بلکہ اس کے ہاتھ میں جو پرفیکشن ہے، اس کی ڈرائنگ جتنی مضبوط ہے اور اُس کی لائنز جتنی پاور فل ہیں، اتنا ہنر دیگر ہم عصروں کے پاس کم کم ہے۔ تنویر نے اپنا موضوعاتی دائرہ، اپنے مخصوص فنی مزاج کے مطابق رکھا ہوا ہے، وہ اسی پین اینڈ اِنک کے دائرے پر مشتمل اپنے رنگارنگ تخلیقی خدوخال بھی نمایاں کرتے ہیں۔ تاہم اس دائرے میں رہتے ہوئے بھی اورکبھی کبھی اس سے باہر آکر بھی وہ نت نئے تجربے ضرور کرتے ہیں، مثلاً وہ پین اینڈ اِنک کے ساتھ آئل آن کینوس کے میڈیم میں اپنے مخصوص اسٹائل میں پینٹنگز بناتے ہیں جن میں گھوڑوں اور دیگر چیزوں کی پینٹنگز شامل ہیں۔ تاہم اُن کی پہچان وہی حسن و حیا میں سمٹی نوخیز اور معصوم لڑکیوں کے پورٹریٹ ہیں جن میں بلیک اینڈ وائٹ، سیپیا ٹون اور آئل آن کینوس پینٹنگز شامل ہیں۔ کہیں کہیں سندھ کی روایتی عورت، دیہی اور شہری مردوں کے ساتھ پاکستان کی معروف شخصیات کے پورٹریٹ بھی نظر آتے ہیں۔
کتاب کا پانچواں عکس فوزیہ خان کے فن اور شخصیت پر ’’رنگ ِ بہار ایجاد ہوں‘‘ کے عنوان سے ہے۔ تخلیقی شاعری صوتی آہنگ اورکلام کرتے حروف سے اپنے انفرادی سفرکا آغاز کرتی ہے اور نت نئے جہانوں کو اپنی گرفت میں لاتی ہے۔ اسی طرح مصوری اپنے ظاہر و باطن میں اپنا پہلا تعارف رنگوں، روشنیوں، پرچھائیوں، اشکال، موڈ اور لکیروں سے کراتی ہے۔ آگے چل کر یہ رنگ، روشنیاں، اشکال، موڈ اور لکیریں بھی آپس میں مل جل کے کئی دیکھے اَن دیکھے جہانوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ پھرکہیں کہیں مانوسیت، نامانوسیت میں تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ کہیں سامنے کے سادہ سے رنگ ایک حیران کن ست رنگی دھنک میں رقص کرتے کرتے اچانک ایک نیا رنگِ جہان تخلیق کرلیتے ہیں۔ برش ابتدائی خاکے کے بغیر کہاں تک پرواز کرے گا، منظر کوئی جانا پہچانا ہوگا یا علامت کے پیرائے سے ہوتا ہوا، تاثر اور اظہار کی نزاکتوں سے ہم عکس نیم تجریدیت اور مکمل تجریدیت کے لمس میں ڈوبا کوئی انوکھا شاہ کار وجود میں آئے گا، اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ۔
فوزیہ خان کراچی کی مشہور آرٹسٹ ہیں۔ اُنہوں نے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران اپنے تخلیقی وجود کی شناخت اپنی سنجیدہ روش، اپنے مسلسل کام، گہرے ریاض اور اپنے منفرد خیالات کے ذریعے قائم کی ہے۔ فن میں دیرپا شہرت تخلیقی کاموں کی گہری انفرادیت کے بغیر ممکن نہیں، اسی لیے انہوں نے ابتدا ہی سے ایسی سیریز پرکام کیا جو اُن کے ہم عصروں کی نظر سے اوجھل تھیں، اور اسی لیے جب بھی اُنہوں نے اپنے تخلیقی فن پاروں کی نمائش کی، اُنہیں عوام اور خواص کی جانب سے بھرپور پذیرائی بھی ملی۔ ایک خاتون ہونے کے ناتے جو نہ کسی لابی سے تعلق رکھتی ہو، نہ تعلقاتِ عامہ کے فن میں طاق ہوں، یہ سب کرنا آسان نہیں ہے۔ ساتھ ہی گھرکی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے کینوس پر تازہ گُل بوٹے، بیلیں، درخت، پرندے، جھیلیں، درختوں کی جڑیں، متاثرکُن لینڈ اسکیپ اور جانے کیا کیا تخلیق کرتی رہتی ہیں۔ وہ اپنی ہر پینٹنگ میں رنگوں کی کہکشاں اتار دیتی ہیں، اور اُن کی ہر پینٹنگ چاہے کتنی ہی سادہ ہو، یک رُخی نہیں ہوتی۔
’’مصورانِ خوش خیال‘‘ کا آخری عکس جی این قاضی کے فن اور شخصیت پر ’’ہر اک ذرہ پہ دل باندھا‘‘ کے زیرِ عنوان ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’جی این قاضی سے میری ملاقاتیں دیگر آرٹسٹ دوستوں کے مقابلے میں کچھ کم سہی، لیکن میں اُن کے کام سے بڑی حد تک واقف ہوں۔ اُن کا ذکر سب سے زیادہ وصی حیدر سے سنا اور انہی کے اسٹوڈیو میں جی این قاضی سے پہلی ملاقات بھی ہوئی۔ ان کے اپارٹمنٹ کے تمام کمروں میں مکمل اور ادھوری پینٹنگز کے انبار لگے ہیں۔ اس بے ترتیبی میں ایک حسنِ ترتیب بھی نمایاں ہے۔ وہ اسی اپارٹمنٹ میں اپنا تخلیقی کام کرتے ہیں، پھر کوئی نوجوان سیکھنے کے لیے آجائے تو اُس کے لیے بھی یہاں کے دروازے کھلے ہیں۔ کوئی پینٹر دوست چلا آئے تو وہ اُسے بھی خوش آمدید کہتے ہیں۔ جی این قاضی کی شناخت واٹر کلر آرٹسٹ کے طور پر ہے، تاہم انہوں نے آئل اینڈ کینوس، ایکرلیک اور دیگر مسکڈ میڈیم میں بھی خاصا کام کیا ہے، البتہ اُن کا اسلوب اور موضوعاتی دائرہ عام طور پر اپنی مٹی، اپنی ثقافت اور اپنے وطن سے جڑا ہوا ہے۔ انہیں قدیم زمانوں، قدیم اور تاریخی عمارتوں سے عشق ہے، وہ مختلف مسجدوں، مقبروں اور قدیم عمارتوں کو ہمیشہ نت نئے زاویوں سے بناتے ہیں۔ اس میں نیلے، سرخ اور دھیمے رنگوں کی خوب صورت آمیزش بھی کرتے ہیں۔ اُن کی ڈرائنگ بڑی کمال کی ہے اور اُن کا لائن ورک بھی بڑا پختہ ہے۔
مجموعی طور پر مصور اور مصوری سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ’’مصورانِ خوش خیال‘‘ ایک تحفۂ خاص کی حیثیت رکھتی ہے۔ خالد معین نے اس کتاب میں شاعر اور ادیب کے بعد آرٹ کے ایک عمدہ پارکھ کی حیثیت سے بھی خود کو منوایا ہے۔ شفیع عقیل کے بعد ان کی آمد اردو ادب کے لیے خوش آئند ہے۔ ایسی ہی اورکتابوں کے قاری منتظر رہیں گے۔