مہناز طاہر
رات بھر بارش کی وجہ سے ٹھنڈ خاصی بڑھ گئی تھی۔ طبیعت میں کچھ بے چینی بھی تھی جس کی وجہ سے اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ رات کے کسی پہر اس کی آنکھ لگ گئی۔
’’اوہو ثاقب آفس جا چکے ہیں‘‘۔ اس نے برابر میں خالی بستر کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ سائیڈ ٹیبل پر رکھی ٹائم پیس میں ٹائم دیکھا، آٹھ بج رہے تھے۔ وہ آفس اکثر سات بجے چلا جاتا تھا۔ ازمینہ کو شرمندگی کے احساس نے آ لیا کہ وہ ناشتا کیے بغیر ہی چلا گیا اور اس کو پتا بھی نہیں چلا۔
اس گھر میں آئے ہوئے انہیں ابھی دس پندرہ دن ہی ہوئے تھے، ثاقب کو کوئی پروجیکٹ ملا تھا، وہ کسی چینل کے لیے کام کرتا تھا، اکثر ریسرچ ورک اور ڈاکومینٹری فلم بناتا رہتا تھا۔ اس بار بھی اسی سلسلے میں اُس کو اس چھوٹے سے لیکن بہت پُرسکون سے قصبے میں آنا پڑا۔ پروجیکٹ میں ٹائم لگ سکتا تھا اسی وجہ سے وہ ازمینہ کو بھی ساتھ ہی لے آیا تھا۔
ازمینہ نے اپنے بالوں کو سمیٹا اور کچن میں آگئی۔ اپنے لیے کافی بنائی اور کافی کا کپ لے کر اپارٹمنٹ کی واحد بڑی سی گیلری میں آگئی۔ اس کا اپارٹمنٹ چرچ اسٹریٹ پر تھا… 38 چرچ اسٹریٹ، جس کا ایک سرا ساحل سمندر کو ملتا تھا اور دوسرا چرچ کی طرف۔ اسے اپنی گیلری میں سے سمندر نظر آتا تھا اور اس کو سمندر دیکھنا بہت پسند تھا۔ ایک عجب سی پُراسراریت تھی اس کے سکوت میں، جو اسے اپنی طرف کھینچتی تھی۔
بہت خوبصورت علاقہ تھا۔ لائن سے ایک ہی طرز کے گھر بنے ہوئے تھے۔ اس نے کھڑے کھڑے پورے علاقے کا جائزہ لیا۔ وہ اندر آنے کے لیے مڑ ہی رہی تھی کہ اچانک سڑک کے اُس پار فلیٹ کا دروازہ کھلا، اندر سے ایک عورت لانگ بوٹ اور لانگ کوٹ پہنے ہوئے باہر نکل رہی تھی۔ ازمینہ یہ منظر روز ہی دیکھ رہی تھی، اس کے لیے یہ بہت عجیب تھا، وہ عورت چار روز سے اسی حلیے میں اسی وقت اور ایک ہی انداز میں نکلتی تھی، اور دروازہ بند کرکے چلی جاتی تھی۔ شاید چرچ جاتی ہو یا آگے جا کے دائیں مڑ جاتی ہو جہاں اس ٹاؤن کا واحد بس اسٹینڈ تھا۔
لیکن آج وہ کہیں نہیں گئی بلکہ گھر کے باہر بنی ہوئی بینچ پر بیٹھ گئی۔ اُس وقت بارش رک چکی تھی لیکن سردی بلا کی تھی۔ وہ اس کو واضح طور پر دیکھ پا رہی تھی۔ وہ کچھ عجیب تھی، کچھ گڑبڑ تو تھی اس میں۔ ابھی ازمینہ اس بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک اس عورت نے اوپر ازمینہ کی طرف دیکھا۔ یہ پہلی بار تھا کہ اس عورت نے ازمینہ کو نوٹس کیا تھا۔ وہ ایسے دیکھ رہی تھی جیسے ازمینہ کو نیچے آنے کا کہہ رہی ہو۔ ازمینہ چونک سی گئی، اس نے جلدی سے پاس پڑی جیکٹ لی اور فلیٹ سے نیچے اتر گئی۔ اُس وقت اسٹریٹ بالکل سنسان تھی۔ ازمینہ کو قریب آتے دیکھ کر وہ عورت اپنی جگہ سے ذرا پرے ہٹ کے بیٹھ گئی، گویا ازمینہ کو بیٹھنے کی جگہ دے رہی ہو۔ ازمینہ نے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا، لیکن اس نے ازمینہ کا بڑھا ہوا ہاتھ مکمل طور پر نظرانداز کردیا۔ ازمینہ شرمندہ ہوگئی۔
’’میں آپ کو روز اپنی بالکونی سے دیکھتی ہوں‘‘۔ ازمینہ نے بات شروع کرنی چاہی۔
’’جانتی ہوں‘‘۔ اس کے سپاٹ لہجے سے ازمینہ کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔
’’مجھے کچھ ہی دن ہوئے ہیں یہاں آئے ہوئے۔ میں اس علاقے کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتی۔ کیا کوئی بڑا اسٹور ہے قریب میں؟‘‘ ازمینہ نے جان بوجھ کے بات طویل کرنی چاہی، تاکہ اس سے دوستی کرسکے۔ اُس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’آپ یہاں کب سے ہیں؟‘‘ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بات کرے۔ ’’صدیوں سے…‘‘ اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
پتا نہیں کیا تھا اُس کے لہجے میں کہ وہ وہاں رک نہیں پائی اور اس کو کچھ بولے بنا اپنے اپارٹمنٹ میں آگئی۔ اس نے واپس بالکونی میں سے جھانکا، وہ وہاں نہیں تھی… لیکن ازمینہ کو عجیب سی الجھن اوربے چینی میں ڈال گئی۔
شام میں ثاقب آیا تو اس کو چپ چپ دیکھ کر پریشان ہوگیا۔
’’کیا ہوا، خیریت ہے! آج گھر میں بڑی خاموشی ہے۔ تم ٹھیک ہو؟‘‘
’’ہاں میں ٹھیک ہوں۔‘‘
’’نہیں تم بلاوجہ اتنی خاموش نہیں رہ پاتیں۔ کچھ تو بات ہے، بتاؤ مجھے۔‘‘اس نے اصرار کیا تو ازمینہ نے اسے صبح کا سارا قصہ سنادیا۔
’’اوہ! اس میں اتنی پریشانی کی کیا بات ہے! تم کل پھر سے اس کے پاس جانا اور اس سے دوستی کی کوشش کرنا، یہاں کی عورتیں بہت تنہا ہوتی ہیں، اس کے دل کی باتیں سنو گی تو اس کو اچھا لگے گا اور اس کی تم سے دوستی بھی ہوجائے گی۔ چلو اب اچھی سی چائے پلاؤ۔‘‘ اور وہ یہ سوچتے ہوئے کچن میں چلی گئی کہ کل اُس عورت سے دوستی کرنے کی کوشش کرے گی۔
اگلے دن اس نے ثاقب کے جانے کے بعد جلدی جلدی کام سمیٹا اور بالکونی میں آئی تو حیرت کی انتہا نہ رہی، وہ عورت اسی جگہ بیٹھی اُس کے اپارٹمنٹ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ازمینہ تیزی سے نیچے کی جانب بھاگی۔ ’’اوہ، لگتا ہے آپ میرا انتظار کررہی تھیں؟‘‘ ازمینہ نے اپنی سانسوں کو قابو میں کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں مجھ کو تم اچھی لگیں۔‘‘
’’شکریہ…‘‘ ازمینہ واقعی خوش ہوگئی کہ کوئی تو ملا باتیں کرنے کے لیے۔ وہ بھی اس تنہائی سے بور ہونے لگی تھی۔
’’میں نے برسوں کے بعد کسی انسان سے بات کی ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ ازمینہ نے حیرت سے پوچھا، لیکن اس نے ازمینہ کی بات ان سنی کردی۔ ’’مجھے لگتا ہے کہ تم سے اپنے بارے میں بات کرکے مجھے اچھا لگے گا۔‘‘ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں آپ مجھ سے بات کرسکتی ہیں۔‘‘
’’اب سے کوئی پانچ سال پہلے میں یہاں اپنے شوہر پیٹر کے ساتھ ہنسی خوشی رہتی تھی، مجھے اس سے بہت محبت تھی‘‘۔ وہ کہتے کہتے رکی اور پھر گویا ہوئی’’لیکن وہ میرے ساتھ کوئی اور ہی کھیل کھیل رہا تھا، مجھے پہلے تو صرف شک تھا، پھر ایک دن جب میں وقت سے پہلے اپنی جاب سے گھر آئی تو اُس کے پہلو میں اُس کی نئی گرل فرینڈ تھی۔‘‘
’’پھر…؟‘‘ ازمینہ اس کی کہانی میں دل چسپی دکھاتے ہوئے بولی۔
’’پھر! پھر میں نے ان کے لاکھ گڑگڑانے اور معافیاں مانگنے کے باوجود اپنی الماری سے پستول نکال کر ان کے جسموں میں گولیاں اتار دیں۔‘‘
ازمینہ اب خوف زدہ ہوگئی۔ خوف زدہ ہونے کے لیے یہ کیا کم تھا کہ وہ ایک قاتل کے ساتھ بیٹھی تھی! وہ غیر محسوس طریقے سے تھوڑا پیچھے ہوگئی۔
’’میں نے کچھ دیر ان کے تڑپنے کا منظر دیکھا اورپھر ان کو لاک کرکے باہر آگئی اور اسی بینچ پر بیٹھ گئی۔‘‘ وہ ایک ہی سمت میں دیکھتے ہوئے بول رہی تھی’’اُس دن بہت ٹھنڈ تھی، میں رات بھر اسی طرح بیٹھی رہی، میونسپل والوں کو صبح میری اکڑی ہوئی لاش ملی۔‘‘
’’کک… کیا مطلب! تم مر چکی ہو؟‘‘ ازمینہ میں اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہاں سے اٹھ کر بھاگ سکے۔ اس کا چہرہ لٹھے کی طرح سفید ہورہا تھا۔ اسی اثناء میں ثاقب اور اس کا دوست اس کی طرف بھاگتے ہوئے آئے۔
’’کیا ہوا؟ ازمینہ تم ٹھیک ہو ناں، تم اتنی دیر سے کس سے باتیں کررہی ہو؟‘‘ اس نے برابر میں بیٹھی عورت کو دیکھا، لیکن وہ تو سپاٹ چہرہ لیے سامنے دیکھے جارہی تھی۔’’ازمینہ یہاں تو کوئی نہیں ہے،، کیا ہوگیا ہے تم کو!‘‘ ازمینہ کی آنکھیں بند ہوتی جا رہی تھیں، اس کو بہت سی آوازیں آرہی تھی:
’’ازمینہ ازمینہ! آنکھیں کھولو۔ یہ سب ڈراما تھا۔ ازمینہ فلم کا حصہ میں نے تمہیں بتایا تھا ناں، ہم حقیقی تاثرات پر مبنی ایک ڈاکومینٹری بنارہے ہیں۔‘‘ ثاقب ہذیانی کیفیت میں چیخ چیخ کے بتانے لگا۔ ’’یہ دیکھو، یہ لوسی ہے، ہماری کو ایکٹر۔‘‘ اس نے ساتھ کھڑی سرخ بالوں والی لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو خود ازمینہ کی حالت دیکھ کر پریشان تھی۔ لیکن ازمینہ اس کی وضاحتوں سے دور جا چکی تھی۔ اس کا دل خوف اور دہشت سے بند ہوچکا تھا۔