یادرفتگاں، نازک رشتوں کی گواہی، نفسِ مطمئنہ

347

عذرا صدیقی (جدہ)
میری ساس امی بیگم افروز جہاں صاحبہ 31 اکتوبر2018ء بروز بدھ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئیں۔ امی رکنِ جماعت تھیں، ان کے بچے خصوصاً ریحانہ افروز باجی اور ریحان بھائی جب کراچی یونیورسٹی اور این ای ڈی یونیورسٹی میں ہوتے تھے، تب سے آج تک یہ لوگ گواہی دے رہے ہیں کہ امی نے بہت محبت والا سلوک سب کے ساتھ رکھا، بہترین تواضع کی اور یہ کہ وہ ان کے لگائے ہوئے ہی پودے ہیں۔ انہوں نے بھرپور تحریکی زندگی گزاری۔ گھر، خاندان اور محلے کی فطری ترتیب کو مدنظر رکھا۔ کثرت سے قرآن پڑھتی تھیں۔ الزائمر کی مریضہ ہونے کے باوجود قرآن کا بہت سا حصہ ان کے حافظے میں محفوظ تھا۔ میری امی عذرا صدیقی جو ان کی سمدھن ہوئیں، میری ساس کے انتقال کے بعد یہ تحریر انہوں نے لکھی۔ یہ بڑے نازک اور اہم رشتے کی گواہی ہے بلکہ گھر کی گواہی ہے جو قابلِ قدر ہے۔ (شازیہ عمران)
وہ بہت خوش مزاج، ہنس مکھ، ملنسار اور سادہ سی خاتون تھیں۔ یہ پہلی ملاقات میں اُن کے بارے میں میری رائے تھی۔ پھر اُن سے ایک رشتہ قائم ہوگیا اور سالہا سال سے قائم ہے۔ میری پہلی رائے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اُن کی شخصیت کے اور پہلو سامنے آتے گئے۔ ہمارا اُن کا سمدھیانے کا رشتہ تھا، لیکن الحمدللہ میں نے اُن کو اپنی قریبی عزیز کی طرح پایا۔ جب بھی ہم کراچی جاتے بہت اصرار کے ساتھ بلاتیں اور بہت خوش ہوتیں۔ پھر کئی سال کے بعد تو ایسا ہوا کہ ہم اکثر اُن کے ہاں قیام کرتے، اور اب تو بہت عرصے سے ہم دونوں اُن کے ہاں ہی ٹھیرتے کراچی میں، کہ ہماری بیٹی جو رہتی ہے اُن کے ہاں۔ مجھے اُن کے ہاں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ اور ان کی بیٹی، بیٹے اور سب گھر والے بہت محبت سے مہمان نوازی کرتے۔
پہلے پہل مجھے لگتا شاید ہمارے ساتھ خاص معاملہ کرتے ہیں، لیکن پھر بعد میں مجھے پتا چلا کہ یہ ان کی عادت ہے جو انہوں نے اور ان کے شوہر نے اپنے بچوں میں منتقل کردی ہے۔
زندگی میں سکون، اطمینان، آپس میں محبت، ایک دوسرے کا خیال اور ہم آہنگی ایسی نعمتیں ہیں جو ایک گھرانے کو خوش رنگ گل دستے کا روپ دیتی ہیں، اور یہ اُسی وقت ممکن ہے کہ جب اس گھرانے کے دونوں ستون دین کا فہم رکھتے ہوں اور خود اس پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور ان سے وابستہ لوگوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔
مجھے جب بھی کچھ ایسا نظر آتا ہے جو انسانی زندگی میں مثبت تبدیلی لائے، یا کسی بھی انداز میں سبق آموز ہو، اسے احاطۂ تحریر میں لاکر شیئر کرتی ہوں کہ جانے کس کس کے لیے یہ فائدہ مند ہوجائے۔
افروز جہاں بہن کو ہمیشہ میں نے (ان کی بیماری سے پہلے) مسکراتے پایا۔ وہ بہت خوش اخلاق اور مہمان نواز تھیں۔ سادہ انداز میں باتیں کرتیں۔ اکثر ان کی باتیں آیاتِ قرآنی اور احادیث کا مفہوم ہوتیں۔ وہ بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں تھیں لیکن دین کو انہوں نے خوب سمجھا تھا، اور کسی حد تک اپنے گھر اور اولاد کے لیے اس پر عمل پیرا بھی تھیں۔
وہ اور ان کے شوہر اس معاملے میں ہم رائے تھے تبھی تو اولاد کی بھی اس راستے کی طرف رہنمائی کرتے۔ اس طرح اولاد بھی انہی کی طرح صحیح راستے کی طرف گامزن رہی۔ ان کا گھرانا خاصی حد تک لغویات سے دور ہے۔
جب بھی ہم ان کے ہاں مہمان ہوتے، مَیں اور افروز جہاں بہن بہت ساری باتیں کرتے، جو یا تو پرانے قصے ہوتے یا اُن کے جدہ آنے اور حج کی باتیں ہوتیں۔ پھر کئی بار عمرے پر آئیں، اپنے بیٹے کے ہاں ٹھیریں۔ ان کی باتوں میں سب سے اہم بات یہ کہ کہیں بھی کسی کی برائی یا غیبت کا شائبہ بھی نہ ملا مجھے۔
ایک بات یہ کہ وہ جب بھی کسی سے بات کرتیں تو زیادہ تر مخاطب کے بارے میں بات کرتیں۔ ان کے بارے میں بات کرو تو وہ دوبارہ اس بات کا رخ ادھر ہی پلٹ دیتیں۔ اور یہی بات ان کی بیٹی اور بہوئوں میں، مَیں نے دیکھی۔ اور ظاہر ہے یہ ان کی ہی تربیت تھی۔ چیخنا، چلاّنا یا لڑائی جھگڑا میں نے کبھی نہ دیکھا، نہ سنا ان کے گھر میں۔ ( یقینا ہوتی ہوگی کبھی نہ کبھی کھٹ پٹ) لیکن میں نے ہمیشہ آپس میں بھی سب کو آہستہ اور نرم آواز میں ہی بات کرتے سنا۔
گھر میں کئی نوکر اور کام کرنے والے ہوتے، ان سے بھی اسی طرح بات کرتیں۔ چھوٹے بچوں کو دیکھنے کے لیے ان کے ہاں چھوٹی بچی ہوتی، جس کو وہ بالکل اپنے بچوں کی طرح رکھتیں۔ اس کے کھانے پینے، لباس کے علاوہ تعلیم پر بھی توجہ دی جاتی۔ اس طرح کئی بچیوں کی پرورش اور تربیت کی۔
ایک بات جو مجھے بہت ہی اچھی لگتی ہے ان کے گھر میں، وہ ان کے بیٹوں، بہوؤں، بیٹی داماد، پوتے پوتیوں اور نواسے، سب کا آپس میں وہ تعلق ہے جو ہر وقت ایک دوسرے کے خیال، ہمہ وقت ایک دوسرے کی مدد، کسی کو بھی کوئی پریشانی یا تکلیف ہو وہ سب کی تکلیف بن جانا، اور اپنا سب بھول کر اس کو حل کرنے کی کوشش کرنا… یہ سب افروز جہاں بہن اور ان کے شوہر کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا۔ اور ان کے شوہر کی وفات کے بعد بھی گھر کا ماحول ویسا ہی رہا۔
کئی سال سے افروز جہاں بہن بستر پر تھیں لیکن ان کی ساری آل اولاد کی زندگی ان کے ہی گرد گھومتی۔ وہ لوگ اپنی مصروفیات کو اس طرح ترتیب دیتے کہ ان کو بالکل تنہا نہ چھوڑتے۔ ایک کُل وقتی ملازمہ اُن کے لیے رکھی گئی تھی، اس کے باوجود وہ لوگ بھی ان کے سارے کام کرتے۔ پوتے پوتیاں ان کو پھول کی طرح اٹھا کر بستر سے وہیل چئیر پر رکھ دیتے۔ میں نے یہاں تک دیکھا کہ بیٹے صاحب ان کے کنگھی کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ محبت بھری نظریں ان پر ہیں۔ ایسا لگتا کہ وہ شمع ہیں اور یہ سارے اُن کے پروانے۔
کئی سال سے ایسا ہی تھا، اور اب وہ نفسِ مطمئنہ اپنے پیچھے نفوسِ مطمئنہ چھوڑ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جاملی ہیں۔
کل شازیہ سے فون پر بات ہورہی تھی، وہ بتانے لگی: کئی سال سے امی بستر پر تھیں اور ان کی یادداشت بھی برائے نام تھی لیکن کچھ باتیں اور کچھ کام جو وہ ہمیشہ کرتی تھیں، وہ اُن کے لاشعور میں جوں کے توں موجود تھے، اور ان کا اب بھی وہی جواب دیتیں جو صحت کی حالت میں دیتی تھیں۔ مثلاً اگر ہم ان کے سامنے سے جانا چاہیں تو مشکل سے اجازت دیتیں، لیکن اگر ان سے کہا جاتا ’’امی نماز پڑھنی ہے‘‘ تو کہتیں ’’ہاں جلدی جاؤ مجھے بھی پڑھنی ہے‘‘۔ وہ حافظہ نہیں تھیں لیکن سورہ بقرہ بھی کہیں بیچ میں سے ان کو سناتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی رکیں تو وہ آیت پوری کردیتیں۔ اگر انہیں بتایا جاتا آج جمعہ ہے تو کہتیں ’’ہاں سورہ کہف پڑھو، میں بھی پڑھتی ہوں ابھی‘‘۔ اگر ان سے پوچھا جاتا ’’کیا پکائیں، کیا کھائیں گی؟‘‘ توکہتیں ’’جو بھی مل جائے گا ہم تو وہ ہی کھالیں گے‘‘۔ اب جب کہ ایک عرصے سے کھانا بالکل چھوڑا ہوا تھا، اب بھی یہ کہتیں۔
عمران اور ریحانہ افروز نے بتایا کہ امی کو دنیاوی چیزوں سے اُس وقت بھی لگاؤ نہیں تھا جس عمر میں لڑکیاں بہت سنبھال سنبھال کر رکھتی ہیں اپنی چیزیں۔ اپنے جہیز کے برتن جو ابھی پیک ہی تھے اپنی نند کی شادی پر گفٹ کردیے۔ اپنے بھائی کو دیکھا کہ ان کو کاروبار کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے تو خاموشی سے اپنا کچھ زیور بیچ کر پیسے ان کو دے دیے۔ اس طرح کی بہت سی باتیں… یہ تو وہ باتیں ہیں جو میں جانتی ہوں یا میں نے دیکھیں۔ اُن کی اولاد اور قریبی لوگ زیادہ جانتے ہوں گے، اور یقینا وہ اس سے بھی زیادہ خاص الخاص ہوں گی جو میں لکھ رہی ہوں۔ یہ میرا ایک ادنیٰ سا خراجِ عقیدت ہے افروز بہن کے لیے۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے اور پڑھنے والوں کے لیے سبق اور نصیحت۔
شازیہ نے فون پر مجھے اُن کے آخری سفر کی تیاری کا نقشہ بتایا کہ کتنی خوب صورت اور مطمئن تھیں وہ اپنے رب سے ملنے کی تیاری کے بعد! اور کتنے اطمینان سے ان کے بیٹے، پوتے، پوتیاں، نواسے اور سب ان کے گرد گھیرا ڈالے ان کا آخری دیدار کرتے ہوئے ان کی مغفرت طلب کررہے تھے، اور بہت احترام اور محبت کے ساتھ پھول کی طرح اٹھا کر لے گئے ان کے آخری ٹھکانے پر۔
مجھے بہت رشک آتا ہے ایسی زندگی اور موت پر۔ میں سوچ رہی ہوں دین کا فہم اور اس پر عمل پیرا رہنے کی جدوجہد، میاں بیوی کا ہم خیال ہونا، سادہ زندگی، اللہ کے بندوں سے محبت، ان کی مدد اور دنیا کی لغویات کو واقعی کانٹے سمجھ کر ان سے بچ بچ کر چلنے کی کوشش، (جو بہت مشکل سہی لیکن انسان کوشش کرسکتا ہے، اور اللہ تعالیٰ صرف کوشش ہی دیکھے گا) ان سب کے بے شک وہ نتائج نہ ہوں جو اللہ چاہتا ہے، لیکن شاید اللہ کوشش پر ہی راضی ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ افروز جہاں بہن کی مغفرت فرمائے، ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی اولاد کو صدقۂ جاریہ بنائے، آمین۔

اعتذار

شمارہ نمبر 16 تا 22 دسمبر 2018ء میں افسانہ ’’عورت کے دکھ‘‘ کی مصنفہ کا نام غلط شائع ہوگیا ہے، یہ افسانہ محترمہ حریم شفیق صاحبہ کا ہے۔ ہم اس سہو پر مصنفہ اور قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔

حصہ