ابوالایمان سید اسداللہ ابراہیم
ہمارے یہاں بنگلہ دیش کے قیام کےحوالے سے مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل یحییٰ کو ذمہ دار ٹھیرایا جاتا ہے جو کہ حقیقتاً اس کہانی کو انجام تک پہنچانے والے آخری کردار ہیں۔ جبکہ اس کی بنیاد قیام پاکستان کے ساتھ ہی رکھ دی گئی تھی اور اس کے اصل کردار میر جعفر کا پڑپوتا اسکندر مرزا ہے، جبکہ دوسرا اہم کردار جنرل ایوب اور فوج میں اس کی لابی ہے۔ اس کے علاوہ حسین شہید سہروردی، محمد علی بوگرہ، خواجہ ناظم الدین، ظفراللہ خان، چودھری محمد علی، فیروز خان نون، اور نورالامین اس کردار کے مہرے ہیں۔ آئیے بنگلہ دیش بننے کے واقعات سے پہلے ان دو اہم کرداروں کا پس منظر جان لیں تاکہ سمجھ میں آجائے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی بنگلہ دیش کے قیام کی بنیاد کس طرح رکھی گئی۔
اس واقعہ کا اہم کردار فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب ہیں جن کا تعلق ہزارہ کے ’ترین‘ قبیلے سے ہے۔ ان کے والد ’میرداد خان‘ برٹش آرمی میں ’ہڈسن ہارس‘ رجمنٹ میں وائسرائے کمیشنڈ آفیسر تھے۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان آرمی کا سربراہ انگریز آفیسر لیفٹیننٹ جرنل ڈوگلس گریسی تھا جسے ۱۹۵۱ء میں ریٹائر ہونا تھا۔ اُس وقت پاکستان آرمی میں سینئر ترین فوجی آفیسر میجر جنرل محمد اکبر خان اور ان کے بھائی میجر جنرل محمد افتخار خان تھے جنہیں گریسی کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف بننا تھا، لیکن ۱۳ دسمبر ۱۹۴۹ء کو لاہور سے کراچی آتے ہوئے ان کا طیارہ نامعلوم وجوہ کے بنا پر تباہ ہوگیا جس میں ان کے ماتحت بریگیڈیئر شیر خان اور دیگر چوبیس افسران فوت ہوگئے۔ اس کے بعد ان کے بھائی میجر اکبر ۱۹۵۰ء میں ریٹائر ہوگئے، ان دونوں بھائیوں کا تعلق چکوال کے منہاس راجپوت گھرانے سے تھا۔ ان دونوں بھائیوں کے راستے سے ہٹ جانے کے بعد سینیارٹی کے لحاظ سے آسام سے تعلق رکھنے والے بنگالی آفیسر میجر جنرل اشفاق المجید تھے، جنہیں نامعلوم وجوہ کی بنا پر سربراہ نہیں بنایا گیا، اور بعد میں انہیں لیاقت باغ راولپنڈی کیس میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی لیکن الزام جھوٹا ثابت ہوا اور انہوں نے دلبرداشتہ ہوکر فوج سے استعفیٰ دےدیا ۔ قیام پاکستان کے وقت جنرل ایوب کا رینک دسواں تھا لیکن تین سال کے اندر اندر ان کی مسلسل ترقی ہوتی رہی اور ۱۶ جنوری ۱۹۵۱ء کو انہیں فوج کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ان کی ترقی میں جنرل گریسی کی رضامندی سے اہم کردار اُس وقت کے ڈیفنس سیکریٹری اور میر جعفر کے پڑ پوتے میجر جنرل اسکندر مرزا نے ادا کیا جو آزادی سے قبل انگریز گورنمنٹ کے بھی ڈیفنس سیکریٹری تھے۔ اسکندر مرزا کا تعلق مرشدآباد بنگال کے نواب منصور علی خان کے گھرانے سے تھا جن کے تعلقات ایسٹ انڈیا کمپنی سے ابتدا سے ہی تھے۔ اسی گھرانے کا فرد میر جعفر بھی تھا جس نے سراج الدولہ کے خاتمے میں انگریزوں کا ساتھ دیا۔ ایک جانب درسی کتابوں میں ہمیں اس کی غداری کے قصے پڑھائے گئے اور دوسری جانب اسی گھرانے کا فرد اسکندر مرزا جو انگریز فوجیوں کے ہاتھوں ہی پلا بڑھا اور پہلے پاکستان کا ڈیفنس سیکریٹری، پھر گورنر جنرل اور پھر صدر پاکستان بن کر ملک کی تباہی کا سامان کرتا رہا، اور پھر جب تیاری ہوگئی تو اسے آگے بڑھانے کے لیے ۱۹۵۸ء میں ایوب خان ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بن گیا۔ ایوب خان کی جانب سے اسے ملک بدر کرنا ایک دکھاوا تھا، وہ لندن جاکر اپنے آقا کے خرچے پر زندگی گزارتا رہا۔ اس کے ہوٹل کا کرایہ اور اخراجات ملکہ برطانیہ اپنے خصوصی فنڈ سے ادا کرتی رہی، جبکہ ظاہری طور پر تین ہزار پونڈ ماہانہ اخراجات کے لیے الگ ملتے رہے۔ اس نے اپنے بیٹے ہمایوں مرزا کی شادی اُس وقت کے امریکی سفیر کی بیٹی سے کی تھی، جس کے نتیجے میں امریکی سفارت خانہ پاکستان کے خلاف سازشوں کا گڑھ تھا۔ وہ اپنے دورِاقتدار میں خواجہ ناظم الدین سے لے کر نورالامین تک تمام ذیلی کرداروں کو وزیراعظم کے عہدے پر فائز اور برطرف کرتا رہا، جس کا مقصد ایک جانب ان مہروں کو نواز کر ایجنڈے کو آگے بڑھانا تھا تو دوسری طرف سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا تھا تاکہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے۔ ان وزراء اعظم میں خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ جنہیں امریکا سے بلا کر وزیراعظم بنایا گیا تھا، اور حسین شہید سہروردی کے علاوہ آخری وزیراعظم نورالامین سب بنگالی تھے۔ نومبر ۱۹۶۹ء میں اس کا انتقال ہوگیا تو ایرانی بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی نے خصوصی طیارے کے ذریعے اسکندرمرزا کی میت تہران لانے کا حکم دیا، اور یہاں سرکاری اعزاز کے ساتھ اس کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ اس کی دوسری بیوی ’ناہیدتیمور‘ ابراہیم مرزا امیر تیموری کلالی کی بیٹی تھی اور ناہید کی ماں ایرانی حکمراں رضا شاہ پہلوی کی بھتیجی تھی۔ اسی ناہید نے اپنی جگری دوست نصرت بھٹو کے شوہر ذوالفقار علی بھٹو کو اس ایجنڈے میں شامل کیا جو پاکستانی سیاست میں اسی دور میں متعارف ہوئے۔ جنرل ایوب آرمی چیف کی حیثیت سے اسکندر مرزا کے ایجنڈے کو نہ صرف مکمل تحفظ دیتے رہے بلکہ مرکزی قائدینِ پاکستان قائداعظم، قائدِ ملت اور مادرِ ملت کو راستے سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا ،اور جب سرد جنگ کا اختتامی دور آیا تو اس کام کو انجام دینے کے لیے بھٹو، یحییٰ اور مجیب استعمال ہوئے۔
فتنے کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ تقسیم ہند سے پہلے متحدہ بنگال (۱۹۴۶-۴۷) کے مسلم لیگی وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے خصوصی دوست اور صحافی ابوالمنصور احمد نے پاکستان کے قیام کے چند مہینے بعد ہی دسمبر ۱۹۴۷ء میں ’راشٹر بھاشا سنگرام پریشد‘ کا اجلاس بلایا جس میں بنگلہ کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ ابوالمنصور احمد کی پشت پر اسلامی تمدن کے پردے میں مجلس تمدن کام کررہی تھی جس کا کرتا دھرتا ’محمد ابوالقاسم‘ تھا جس نے یکم ستمبر کو اس مجلس کی بنیاد رکھی اور ۱۵ ستمبر ۱۹۴۷ء کو ایک کتابچہ شائع کیا جس کا عنوان تھا ’پاکستانیر بھاشا بنگلہ نہ اردو؟‘ جس میں بنگلہ کو قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ ۱۹۴۸ء میں جب اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا تو مجلس تمدن نے اس کے خلاف بنگلہ زبان کی لسانی تحریک شروع کی اور جب قائداعظم مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے تو ۱۱ مارچ ۱۹۴۸ء کو وہاں ہڑتال کی، جس کے جواب میں قائداعظم نے ۲۱ مارچ کو ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے زبان کا مسئلہ ففتھ کالم لوگوں کی جانب سے قوم کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ پاکستان کی واحد قومی زبان اردو ہوگی۔ اس کے برعکس وہاں کے وزیراعلیٰ خواجہ ناظم الدین نے مجلس تمدن سے ملاقات کرکے انہیں یقین دلایا کہ بنگلہ کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے گا۔ اب مسئلہ تھا اس تنازع کو آگے بڑھانے کا، جس میں سب سے بڑی رکاوٹ قائداعظم کی تھی۔ قائداعظم کی بیماری نے ان کے لیے کام آسان کردیا۔ وہ ۱۹۳۰ء سے تپ دق کے مریض چلے آرہے تھے لیکن قیام پاکستان اور اس کے بعد کی مصروفیت نے انہیں مزید بیمار کردیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کون سے بہترین ڈاکٹر تھے جنہوں نے دمہ کے مریض کو زیارت جیسے سرد پہاڑی علاقے میں رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ انہیں خرابی صحت کی وجہ سے زیارت کے پُرفضا مقام پر رکھا گیا۔ ۷۰ سال بعد جب میڈیکل سائنس مزید ترقی کرچکی ہے، آج کوئی بھی سمجھدار ڈاکٹر دمہ کے مریض کو ایسے مقام پر رکھنے کا مشورہ نہ دے گا۔ مزید کرم یہ ہوا کہ جب ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو انہیں کراچی لایا گیا اور جس ایمبولینس میں انہیں لے جایا گیا وہ راستے میں ہی خراب ہوگئی اور بانیِ پاکستان اور گورنر جنرل کی ایمبولینس کو ریسکیو کرنے والی کوئی گاڑی نہ تھی، نہ ہی کوئی پروٹوکول۔ ایک گھنٹے بعد دوسری ایمبولینس آئی تو انہیں کسی اسپتال کے بجائے گھر لے جایا گیا جہاں وہ ۱۱ ستمبر ۱۹۴۸ء کو انتقال کرگئے، ان کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔ ان کے بعد دوسری اہم شخصیت خان لیاقت علی خان کی تھی جو اُس وقت ملک کے وزیراعظم تھے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلم لیگ کے اندر جو بھانت بھانت کے نظریات کے لوگ جمع تھے ان کی وجہ سے یہ جماعت پاکستان بنتے ہی انتشار کا شکار ہوگئی جس میں قائداعظم اور لیاقت علی خان کے اختلافات بھی ہیں۔ قائداعظم پاکستان کو جدید اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے جس کا اظہار انہوں نے فروری ۱۹۴۸ء میں امریکی عوام سے خطاب میں کیا:
’’پاکستانی اسمبلی کو ابھی پاکستانی قانون بنانا ہے، مجھے یہ نہیں معلوم کہ قانون کی اصل وضع کیا ہوگی، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ایک جمہوری قسم کی ہوگی،جس میں اسلام کے بنیادی اصول بھی شامل کیے جائیں گے۔ آج بھی یہ قانون ایسے ہی قابلِ عمل ہیں جیسے کہ وہ تیرہ سو سال قبل تھے۔ اسلام اور اس کے نظریے نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے۔ یہ ہمیں انصاف، مساوات اور دوسروں سےاچھائی کا درس دیتی ہے۔ہم ان اقدار کے وارث ہیں اور مستقبل کے پاکستانی قانون کو بنانے کی مکمل ذمہ داری کا احساس رکھتے ہیں‘‘۔
اس کے برعکس لیاقت علی خان لبرل مسلم قوم پرستی کے قائل تھے۔ لیاقت علی خان علی گڑھ سےگریجویشن کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے گئے تواس دوران فری میسن کے ادارے ’انرٹمپل‘کے بھی ممبر رہے جو کہ نائٹس ٹمپلرز نے پروفیشنلز کی تربیت کے لیے قائم کیا تھا۔ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ لندن سے واپسی کے بعد انہوں نے پہلی بیوی جہانگیر بیگم کو طلاق دے کر ایک برہمن میجر ہیکٹر پنت کی بیٹی ’شیلا ایرنی پنت‘ سے شادی کی جو ’بیگم رعنا لیاقت علی خان‘ کےنام سے جانی جاتی ہیں۔ بیگم رعنا نے لبرل ازم کے لیے ساری زندگی کام کیا اور اسی مقصد کے لیےخواتین کی تنظیم ’اپوا‘ قائم کی جس کے فورم سے یہ مطالبہ بھی ہوا کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی چار شادیوں کی اجازت دی جائے۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد دو دہائیوں تک ’اسٹیٹس وومن‘ کی حیثیت سے کام کرتی رہیں اور آخر میں ذوالفقار علی بھٹو کا زبردست ساتھ دیا اور ان کے دور میں سندھ کی گورنر بھی رہیں۔
اُس وقت کے دو اہم بین الاقوامی ایجنٹ اسکندر مرزا اور جنرل ایوب نے لیاقت علی خان کے مزاج سے فائدہ اٹھایا اور انہیں قائداعظم سے دور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اور اپنے آقاؤں کے اشارے پر اس کے باوجود کہ سوویت یونین سے دعوت نامہ آیا ہوا تھا، پاکستان کو امریکی بلاک میں رکھنے کے لیے ۱۹۵۱ء میں انہیں امریکا لے گئے جہاں وہ یہ معاہدہ کرکے آگئے کہ پاکستان کی معاشی ترقی امریکی مشاورت سے ہوگی، جس کے نتیجے میں اسی وقت امریکی معاشی ماہرین یہاں آکر بیٹھ گئے تھے جو ہمیں معاشی غلامی میں دھکیلتے چلے گئے۔ کام نکل جانے کے بعد لیاقت علی خان کو ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسہ سے خطاب کے دوران گولی مار کر قتل کردیا گیا، جس کا الزام ’سعد اکبر ببرک‘ نامی افغانی پر لگا جو کہ ایک اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں نظربند تھا۔
سیکورٹی اداروں کی تحویل سے بچ کر وہ کیسے جلسہ گاہ پہنچ کر اگلی قطار میں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ھوگیا اور اس کے ہاتھ میں ہتھیار کہاں سے آئے؟ اور اس نے واقعی انہیں قتل کیا یا نہیں؟ یہ بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات نہیں دیئے گئے۔ ان دونوں مرکزی قائدین کے ہٹنے سے پہلے ہی مسلم لیگ میں انتشار پیدا ہوچکا تھا، جس میں اہم پیش رفت کے طور پر حسین شہید سہروردی نے ’عبدالحمید بھاشانی‘ کو آگے کرکے عوامی لیگ بنائی جو بعد میں بنگلہ دیش بنانے میں کام آئی۔ بھاشانی صاحب انتہائی سیمابی اور جذباتی آدمی تھے جو پہلے کانگریس میں رہے، پھر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے، اس کے بعد عوامی لیگ کے صدر بنے، پھر اپنی الگ جماعت بنائی۔ لیکن ان تمام مرحلوں میں مولانا کہلانے کے باوجود اسلامی سیاست کرنے کے بجائے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سیاست کرتے رہے۔ آخرکار اپنی شعلہ بیانی سے نفرت کی آگ کو فروغ دینے میں کامیاب رہے اور بنگلہ دیش بنانے کی جدوجہد کرتے رہے۔ وزیراعظم پاکستان محمد علی بوگرہ نے جو بنگالی تھے ۱۹۵۴ء میں جنرل ایوب خان کے بھائی سردار بہادر خان جو صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ تھے، کے مشورے پر ’ون یونٹ‘ بنا کر تقسیم پاکستان کی ابتدائی صورت بنادی تھی جس میں پاکستان کو دو صوبوں میں تقسیم کرکے ایک کو مغربی پاکستان اور دوسرے کو مشرقی پاکستان کہا گیا اور اسی آڑ میں دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔ اسکندر مرزا کے دور صدارت میں حسین شہید سہروردی جب وزیراعظم بنے تو انہوں نے ابوالمنصور احمد کو جس نے بنگالی قوم پرستی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا، ان خدمات کے عوض ۱۹۵۷ء میں ڈپٹی پرائم منسٹر بھی مقرر کردیا۔ اس مرحلے تک بنگالی قوم پرستی کی دیگ کافی پک چکی تھی اس لیے اب اس کو تڑکا اور بگھار لگانے کے لیے جنرل ایوب نے براہِ راست مداخلت کرتے ہوئے مارشل لا لگادیا۔ اس سے پہلے محمد علی بوگرا اپنے دورِ وزارت میں ایوب کو وزیر دفاع بناکر عملی طور پر حکومت میں شامل کرچکے تھے۔ عموماً ایوب کا دور ۱۹۵۸ء میں اس کے مارشل لا لگانے سے شروع کیا جاتا ہے، جب کہ حقیقتاً وہ ۱۹۵۱ء سے فوج کے سربراہ کی حیثیت سے سارے کھیل کا نگراں رہا ہے۔ فوج اور جنرل ایوب کو عوام میں مقبول بنانے کے لیے اس کے بین الاقوامی آقاؤں نے اس کی مدد کرتے ہوئے پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے صنعت کو فروغ دینے میں مدد کی، جبکہ اس سے پہلے امریکی ۱۹۵۵ء میں ’ملٹری اسسٹنس ایڈوائزری گروپ‘ بھیج کر افواج پاکستان کو اپ گریڈ کرچکے تھے۔ اسی طرح ۱۹۵۰ء میں توانائی کے بحران سے نپٹنے کے لیے ایٹمی توانائی کے حصول کے لیے کام شروع کردیا گیا تھا، جب کہ جنرل ایوب کے دور میں اسے فروغ دے کر کراچی میں پہلا پلانٹ لگا، جسے ’کینپ‘ کہا جاتا ہے۔ پھر ۱۹۶۱ء میں جنرل ایوب جب امریکا گئے تو انہیں بھرپور پروٹوکول دیا گیا۔ یہ تمام سہولتیں انہیں ہیرو بنانے کے لیے تھیں جو کہ ان کے آقاؤں نے ان کی خدمات کے بدلے عطا کیں، جس کی آج بھی لوگ ترقی کے حوالے سے مثال دیتے ہیں۔ دوسری جانب یہی امریکہ پاکستان کی امداد کو بتدریج کم کرتے ہوئے ہندوستان کی امداد بڑھاتا گیا۔ بھارت کو یہ امداد چین کے ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے بہانے اور ۱۹۶۲ء کی ہند؍چین سرحدی جھڑپوں کو بنیاد بناکر دی جارہی تھی اور پاکستان کو زبانی تسلی دی جارہی تھی۔ اس امداد کی بدولت بھارت اپنی فوج میں دگنا اضافہ کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اب اس کی فوج گیارہ ڈویژن سے بڑھ کر بائیس ڈویژن ہوچکی تھی۔
۱۹۶۳ء میں بھارت کو ایک ارب ڈالر کے علاوہ دس کروڑ ڈالر ہنگامی فوجی امداد دی گئی، جکہ اس کے مقابلے میں اب پاکستان کو دھمکی دی جانے لگی اور تربیلا ڈیم کی سرمایہ کاری بھی روک لی گئی۔ چین کے بہانے پہاڑوں پر لڑنے کے لیے چھ بٹالین فوج تیار کی گئی تھی، اسے بھارت نے کشمیر میں لگا دیا۔ امریکی شہہ پر بھارت نے ۱۹۶۳ء میں آزاد کشمیر کے ضلع چکنوٹ میں فوج داخل کردی، پھر ۱۹۶۴ء میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیا۔ اس کے بعد اپریل ۱۹۶۵ء میں رن کچھ کے علاقے میں فوجی کارروائیاں شروع کردیں جس کے ردعمل میں پاکستان نے آپریشن جبرالٹر کیا۔ اُس وقت بنائے گئے اس نام نہاد قومی ہیرو کو مادر ملت فاطمہ جناح کو ہرانے کے لیے ۱۹۶۵ء کے صدارتی انتخاب میں دھاندلی کرنی پڑی۔ اہلِ کراچی اور جماعت اسلامی نے مادرِ ملت کو ووٹ دے کر جو ”جرم“ کیا تھا اس کی سزا یہ ٹھیری کہ جنرل ایوب کے بیٹا گوہر ایوب نے لیاقت آباد کراچی میں عوام پر گولیاں چلوائیں، انہیں سمندر برد کرنے کی دھمکی دی گئی اور پھر مہاجر پٹھان کا ایسا جھگڑا کھڑا کیا گیا جس کے غبار سے پندرہ سال بعد ’ایم کیوایم‘ وجود میں لائی گئی جس کے ہاتھوں اہل کراچی کا لہو بہتا رہا، لیکن اس دھویں میں اہلِ کراچی اصل قاتلوں کو دیکھنے میں ناکام رہے۔ دوسری بڑی ”مجرم“ جماعت اسلامی تھی جس کی سزا نہ صرف اسے ایم کیو ایم کے ہاتھوں کراچی میں دینے کی کوشش کی گئی بلکہ بنگلہ دیش میں جانوں کے نذرانے پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایوب خان نے اس دھاندلی پر پردہ ڈالنے اور اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے اس ملک کو ۱۹۶۵ء کی جنگ میں جھونک دیا جس کے لیے اُس کے آقائوں نے پہلے اسے، پھر بھارت کو اچھی طرح تیار کردیا تھا۔ اس جنگ کے لیے اس نے مقبوضہ کشمیر کے اندر ’آپریشن جبرالٹر‘ کے نام سے ناکام مداخلت کرنے کے بعد آپریشن گرینڈ سلام کے نام سے پاک فوج کو چھمب اور جوڑیاں پر قبضہ کرکے اکھنور کی طرف یلغار کی راہ دکھائی، جس کے ردعمل میں بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کے موقع کے انتظار میں پہلے سے ہی تیار بیٹھا تھا ۔ مادرِ ملت کو ہرانے کے باوجود پاکستان کے قیام کی علامت یہ خاتون جنرل ایوب کے لیے خطرہ تھیں، اس لیے انہیں جنرل ایوب نے غدار اور انڈیا کا ایجنٹ قرار دیا، اس کے بعد ۹ جولائی ۱۹۶۷ء کو وہ اچانک مُردہ پائی گئیں۔ مطالبہ کرنے کے باوجود پوسٹ مارٹم نہ ہونے دیا گیا اور عوامی احتجاج کے باوجود ان کی تدفین کردی گئی۔ ملک کے اس مطلق العنان حکمران نے پورے ملک پر قبضہ کرکے اسے انتشار میں مبتلا کردیا۔ اس کے دور میں جس معاشی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اس دوران ملک میں پانچ کروڑ لوگ خطؐ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ اس سارے تماشے کے دوران اس کھیل کو اپنے انجام تک پہنچانے کے لیے مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو دو اور کھلاڑی میدان میں تیار ہوچکے تھے۔ اب کھیل فائنل راؤنڈ میں داخل ہوچکا تھا، مجیب الرحمٰن کی سیاست ہی ہنگامہ آرائی سے پُر تھی، اگرتلہ سازش کیس میں سرغنہ کی حیثیت سے اسے نامزد کردیا گیا، دوسری جانب شعلہ بھڑکانے کے لیے بھٹو شعلہ بیاں مقرر تھے۔
ہنگامہ بڑھا، مذاکرات ناکام ہوئے اور ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو صدر جنرل ایوب نے استعفیٰ دے دیا اور اپنے ہی بنائے ہوئے ۱۹۶۲ء کے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اسپیکر قومی اسمبلی عبدالجبار خاں کو اقتدار سونپنے کے بجائے فوج کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ کو مارشل لا لگانے کی دعوت دے ڈالی۔ چنانچہ جنرل یحییٰ نے آئین بحال کرنے کے بجائے لیگل فریم ورک آرڈر نافذ کردیا جس کے تحت منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کو نیا آئین بنانے کا کام سونپ دیا گیا۔ بساط کی اگلی چال میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی مساوی نمائندگی ختم کرکے انہیں ایک آدمی ایک ووٹ کے اصول پر نمائندگی دی گئی جس کے تحت مشرقی پاکستان کو اپنی کثرتِ آبادی کی بناء پر ۵۶ فیصد نمائندگی حاصل ہو گئی اور مغربی پاکستان کی نمائندگی۴۴ فیصد رہ گئی۔ عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں نے علاقائی جماعتیں ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے تقسیم کا ماحول پیدا کردیا جس کی نشاندہی کرتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اکتوبر ۱۹۷۰ء میں سنت نگر، لاہور کے جلسے میں کہا: ’’اگر یہ دو علاقائی جماعتیں اکثریتی ووٹ لے کر قومی اسمبلی میں پہنچ گئیں تو ملک کے متحد رہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی‘‘۔ لیکن سال بھر چلنے والی الیکشن مہم کے دوران اس قدر دھول اڑائی جا چکی تھی کہ کوئی عقل کی بات سننے کو تیار نہ تھا اور قوم نے نفرت کے علم برداروں کو ووٹ دی کر تقسیم کا ایجنڈا ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ سید مودوی کی جماعت اسلامی اور پاکستان کو متحد رکھنے والی دیگر جماعتیں الیکشن ہار گئیں جو درحقیقت پاکستان اور پاکستانی قوم کی ہار تھی، کیونکہ سطحی اور جذباتی سوچ رکھنے والی اس قوم نے پاکستان بننے سے لے کر آج تک نفرت و تقسیم کے علم برداروں کو ہی سر پر بٹھایا ہے، لیکن ظلم سے بڑھ کر ستم یہ ہے کہ نہ احساسِ زیاں ہے نہ ہی ملال۔ پھر الیکشن کے جو نتائج آئے انہیں تسلیم نہ کرکے اس تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی۔ جنوری ۱۹۷۱ء میں جنرل یحییٰ ڈھاکہ ایئرپورٹ پر شیخ مجیب کو ملک کا آئندہ وزیراعظم قرار دے چکے تھے، لیکن بھٹو نے وسط جنوری میں پی پی پی کے وفد کے ہمراہ ڈھاکہ جاکر مجیب کے ساتھ سودے بازی کی کوشش کی۔ کشتی میں دونوں نے سیر بھی کی اور بھٹو نے ساڑھے پانچ نکات تسلیم کرنے کا اعلان کردیا، مگر پھر آدھے نکتے پر بات اٹک گئی۔
خوشگوار موڈ میں ناکام مذاکرات، اندرا گاندھی کا دورہ امریکہ، اور بنگلہ دیش کا حتمی فیصلہ۔۔۔ اب مرحلہ تھا بھارت کو اس کھیل میں براہِ راست گھسیٹنے کا، جو اب تک پسِ پردہ کام کررہا تھا اور جس میں ۱۹۶۵ء کی جنگ کے ذریعے شدت پیدا کر ؎دی گئی تھی۔ اس کے لیے بھارتی طیارے ’گنگا‘ کو دو کشمیری نوجوانوں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی نے۳۰ جنوری کو اغوا کرکے لاہور ایئرپورٹ پر اتار لیا۔ یحییٰ نے اس مسئلے کو حل کرنے کا اختیار بھٹو کو دیا جو دوسرے دن رات کو طیارے کے اندر ان سے ملے، اور پھر اسی رات طیارے کو آگ لگا دی گئی جس کے بعد بھارت نے مشرقی پاکستان جانے والے پاکستانی طیاروں کے اپنی فضا سے گزرنے کی ممانعت کردی۔ چونکہ اس کھیل کو منطقی انجام تک پہنچانا تھا اس لیے پولینڈ نے جنگ بندی کی قرارداد پیش کی تو سلامتی کونسل میں ایک جذباتی تقریر کرتے ہوئے بھٹو قرارداد کا مسودہ پھاڑ کر واک آئوٹ کرگئے۔ بھٹو کے واک آئوٹ اور قرارداد پھاڑنے کو دلیرانہ اقدام ٹھیراتے ہوئے بھٹو کی عظمت کے قصیدے لکھے جارہے ہیں، حالانکہ اس وقت جنگ بندی پاکستان کی ضرورت تھی۔ قرارداد کا پھاڑا جانا دراصل اس بات کا اعلان تھا کہ اب دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
اس صورتِ حال میں فتوؤں کی کتاب میں تو سب مسلمان تھے، لیکن ان میں کسی کو رب العالمین کا حکم اور رہبرِ کامل صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد نہیں تھا۔ بلکہ اس کے مقابلے میں شیطان کے پیروکار لیڈر ان کے رہبر تھے جنہوں نے نفرت کی دیوار ایسی اٹھائی کہ پھر کوئی مسلمان نہیں تھا، صرف بنگالی، بہاری اور پنجابی تھے جن کے جان و مال، عزت و آبرو ایک دوسرے پرحلال تھے۔ اللہ رب العالمین نے مومنوں کو اپنی بندگی کی رسی سے باندھ کر بھائی بھائی بنا دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس رسی کو توڑا تو لاکھوں لوگ نفرت کی نذر ہوگئے، حالانکہ رہبرِ کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمادیا تھا کہ شیطان تمہیں لڑانے کی کوشش کرے گا۔ شیطان کی کوششیں جاری رہیں اور جب ۱۴ دسمبر کو ڈھاکہ میں فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نیازی کہہ رہا تھا کہ دشمن میری لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکہ میں داخل ہوسکتا ہے تو اُس وقت یہ لوگ بھارتی جنرلوں کے استقبال کی تیاری کرچکے تھے، اور وہی نیازی صرف دو دن بعد ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کی سہ پہر کو ریس کورس گرائونڈ ڈھاکہ میں سقوطِ مشرقی پاکستان کی دستاویز پر دستخط کرنے کے بعد اپنا پستول فاتح سکھ بھارتی لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے حوالے کررہا تھا۔ کیونکہ اس کا فیصلہ امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اندرا گاندھی کو نومبر میں امریکہ بلا کر کردیا تھا۔ جبکہ اس سے پہلے جنرل یحییٰ کو بھی حکم دے دیا گیا تھا، جس کی تصدیق اسی سال نومبر میں ہنری کسنجر نے کردی تھی۔ اور جس امریکی بحری بیڑے کو مدد کے لیے آنا تھا وہ ’یو ایس ایس انٹرپرائز‘ نامی بیڑہ ۱۱ اگست کو خلیج بنگال میں موجود تھا اور ۱۳ دسمبر کو سوویت یونین کا بحری جہاز بھی یہاں پہنچ چکا تھا۔ اس لیے کہ عالمی اقتدار میں دونوں اہم پولیس مین ہیں جن کا اس اہم تقریب کے دوران موجود رہنا ضروری تھا۔ کیونکہ یہ صرف ایک ملک کو توڑنے کی تقریب نہیں تھی بلکہ گزشتہ پانچ سو برسوں میں انہوں نے مسلمانوں کے اندر قوم پرستی کے بیج بو کر انہیں تقسیم کردیا تھا، لیکن تحریک پاکستان کے دوران عارضی طور پر جو ایک ملت اور ایک اسلامی ریاست کا تصور ابھرا تھا اسے مسلم لیگ نے دو قومی نظریے کے نام پر مسلم قوم پرستی کا رنگ دے دیا تھا جس کے پردے میں درحقیقت پنجابی اور بنگالی قوم پرستی پوری شدت سے موجود تھی۔ پاکستان میں مسلم قوم پرستی تو فروغ نہ پا سکی لیکن عالمی طاغوت نے ملت کے تصور کو پھر خلیج بنگال میں ڈبودیا۔ اسی بات کو اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ ویسے بھی ہندو قوم پرستی کے مقابلے میں مسلم قوم پرستی کی بنیاد پر دو قومی نظریہ ایک بدعت ضلالہ ہے۔ ’’دو قومی نظریہ‘‘حقیقت نہیں ہے بلکہ ’’دو ملی نظریہ‘‘ اصل حقیقت ہے، جس میں ایک ملتِ واحدہ ہے جو رب العالمین کی بندگی کے نظریے پر قائم ہے جس کا نام’’ ملتِ اسلام‘‘ ہے، جبکہ دوسری ملت طاغوت ہے جو غیر اللہ کی بندگی کے نظریے پر قائم ہے جسے ہم’’ ملتِ کفر ‘‘کہتے ہیں۔
مسلم قوم پرستی کا بت ٹوٹنے کے بعد پاکستانیوں کے اندر قوم پرستی کی ایسی فصل تیار ہوئی ہے جس کا پھل ہم آج بھی کھا رہے ہیں۔ دوسری جانب بنگالی قوم پرستی اتنی ہی مقدس تھی تو ہندوستان کے ماتحت مغربی بنگال کے ہندو بنگالی اس بنگلہ دیش میں اب تک کیوں نہ شامل ہوئے؟
مشرقی بنگال میں پیدا ہونے والے پٹ سن کی بُو تو نفرت کے علم برداروں کو اسلام آباد کی سڑکوں سے آگئی، لیکن قریب ہی کلکتہ کی فیکٹریوں سے کبھی نہ آئی۔ لوگ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش نے آزادی حاصل کرکے بڑی ترقی کی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر بنگلہ بندھو کی بیٹیاں کلکتہ کے بازاروں سے لے کر ممبئی کے بازاروں تک، اور وہاں سے لے کر خلیج کی ریاستوں تک کیوں فروخت ہورہی ہیں؟ سقوطِ غرناطہ سے لے کر سقوطِ ڈھاکہ تک مسلمان نہ اپنی حماقتوں سے باز آتے ہیں اور نہ عالمی طاغوت انہیں کچلنے سے۔ مدینہ منورہ کا عبداللہ (ابن ابی) ہو یا غرناطہ کا ابو عبداللہ، یا ڈھاکہ کا عبداللہ(نیازی)، یا کشمیر کا عبداللہ (فاروق)، اگر دلوں میں نفاق ہو تو ’عبداللہ‘ جیسا پاکیزہ نام بھی رسوائی سے نہیں بچا سکتا۔ بلقانائزیشن کی پالیسی کے تحت سقوطِ ڈھاکہ کی اس تقریب کے ساتھ ہی عالمی طاغوت کادوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کو سرد جنگ کے دوران چلانے کا دور کامیابی سے مکمل ہوگیا۔