نعیم الرحمن
خالد معین عصرِ حاضر کی بہترین شعرا میں شامل ہیں۔ ان کے چار مجموعے شائع ہو کر قارئین کی بھرپور ستائش حاصل کرچکے ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’بے موسم وحشت‘‘ 1990 میں منظر عام پرآیا تھا۔ ’’انہماک‘‘ نو سال بعد اشاعت پذیرہوا۔ 2005 میں ’’پسِ عشق‘‘ شائع ہوا۔ خالد معین کا چوتھا مجموعہ کلام ’’ناگہاں‘‘ 2012 میں شائع ہوا۔ 2016 میں خالد معین نے ہم عصرِ ادب اور شخصیات پر تجزیاتی مضامین اور عصری ادب کی صورت حال کے بارے میں پہلی نثری کتاب’’رفاقتیں کیا کیا‘‘ قارئین کے ذوقِ مطالعہ کے لیے پیش کی اور پہلی ہی کتاب سے نثر میں بھی دھاک بٹھا دی۔ منتخب اسٹریٹ پلیز پر مبنی ’’اب سب دیکھیں گے‘‘ گزشتہ سال منظرعام پر آئی۔
خالد معین کی نئی تصنیف ’’مصورانِ خوش خیال‘‘ کراچی کے پانچ اہم مصوروں وصی حیدر، فرخ شہاب، تنویر فاروقی، فوزیہ خان اور جی این قاضی کے فن اور شخصیت کے تخلیقی سفر ایک خوب صورت تجزیے پرمبنی ہے۔ اردو میں مصور اور مصوری کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ خالد معین انفرادیت پسندی نے اس بار تحریر کے لیے ایک بہت مختلف اورمنفرد موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ اردو میں مصوروں، مجسمہ سازوں اور مصوری پر صرف مرحوم شفیع عقیل نے بہت تسلسل سے لکھا۔ ان کا یہ کام کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے نامور مصوروں کے بارے میں ان کی پانچ کتابیں شائع ہوئی ہیں جن میں ’’دومصور‘‘، ’’چار جدید مصور‘‘، ’’مصور اور مصوری‘‘ اور’’تصویر اور مصور‘‘ شامل ہیں۔ شفیع عقیل کی ان کتابوں میں پاکستان کے تمام اہم مصوروں اور مجسمہ سازوں کے فن اور شخصیت کا بھرپور محاکمہ کیا گیا ہے۔ اردو ادب کے قارئین کو فن مصوری اوراس کی مختلف پہلوئوں کے بارے میںمعلومات فراہم کیں۔
شفیع عقیل کے بعد خالد معین نے کراچی کے پانچ اہم مصوروں پر قلم اٹھایا ہے اور اردو میں مصوری کے بارے میں موجود کمی کو پورا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ’’مصورانِ خوش خیال‘‘ میں عمدہ سفید کاغذ کے 208 صفحات کے علاوہ آرٹ پیپر کے چالیس صفحات بھی شامل ہیں۔ آٹھ‘ آٹھ صفحات پر پانچوں مصوروں کی تصاویر اور ان کی منتخب پینٹنگز پیش کی گئی ہیں جن سے قاری کو مصور کے فن اور اس کے اسٹائل کی تفہیم میں آسانی ہوتی ہے۔ ان صفحات نے کتاب کی وقعت میں اضافہ کیا ہے۔ اس کی 500 روپے قیمت مناسب ہے۔
کتاب میں پانچ مصوروں کے بارے میں ابواب کو عکس کا نام دیا گیا ہے۔ ہر عکس کے دو حصے ہیں۔ ایک میں مصور کے فن کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسرے میں اس کی رودادِ زندگی بیان کی گئی ہے۔ پہلا عکس خالد معین نے ’’رنگ برش اور کینوس سے آگے‘‘ کے زیرِ عنوان مصور اور مصوری کے بارے میں چھتیس صفحات کے طویل اور مبسوط مضمون کی صورت میں پیش کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’اس کتاب میں شامل کراچی کے پانچوں نامور مصور یقینا اپنا اپنا جداگانہ اعتبار اور اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ پانچ مصور وصی حیدر، فرخ شہاب، تنویر فاروقی، فوزیہ خان اور جی این قاضی ہیں۔ یہ پانچوں میرے ہم عصر ہیں اور میں ان کے ہمہ جہت تخلیقی اوصاف سے قدرِ آشنا بھی ہوں ۔ یہ پانچوں مصور میرے دوست ہیں‘ ان میں نسبتاً نئے دوست منفرد واٹر کلرسٹ جی این قاضی کے علاوہ، جو چار باکمال مصور ہیں ان سے میرے مراسم برسوں پرانے ہیں۔ تنویر فاروقی، فرخ شہاب اور وصی حیدرسے ایک زمانے کی بے تکلفی اور یاری ہے۔ ہم نے ایک ساتھ آوارگی بھی کی ہے اور کئی شامیں ایک ساتھ بسر کی ہیں، خواب نما دھندلکوں کے درمیان شعر و ادب، پینٹنگز اور دنیا بھرکے الٹے سیدھے موضوعات پر گفتگو کی۔ ایک دوسرے کو جاننے کی بھی کوشش کی ہے۔ ایک دوسرے کے نقطۂ نظرکوسمجھنے کی سعی بھی کی ہے اور ایک دوسرے سے کھل کراختلاف بھی کیا ہے۔‘‘
اپنے مضمون میں مصنف نے مختصراً کتاب میں شامل پانچ مصوروں کا تعارف بھی کرایا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’وصی حیدر ایک معروف علمی و ادبی خاندان کے چشم وچراغ ہیں اور مصوری میں ان کی بنیادی پہچان آئل اینڈ کینوس پینٹنگز ہیں، جن میں تصورِ زمان و مکاں بھی ہے، انسانی جذبات و احساسات کے بدلتے ہوئے تیور بھی ہیں اور نت نئے فنی تجربات کرنے کا جنون بھی شامل ہے، جو یقینا قابلِ ستائش ہے۔ فرخ شہاب کا ابتدائی سفرمعروف مصور اقبال مہدی کے زیر اثر رہا تاہم وہ جیسے جیسے اپنی شناخت کے پیچیدہ ترین گردان میں غوطہ زن ہوتے گئے ویسے ویسے پا افتادہ راہوں سے دامن چھڑاتے گئے۔ پھر ایک دن ان کا نیا جنم ہوا۔ اپنے نئے تخلیقی سفرمیں وہ پین اور اِنک کے بجائے برش اور کینوس سے تجریدی، نیم تجریدی، علامتی، نیم علامتی اور اپنی رنگا رنگ تخلیقی شخصیت کی اضافت سے ذاتی خیال و خواب اور اجتماعی عذاب و ثواب کے نئے جہان دریافت کرنے لگے۔ صفی پورکے ایک پیرزادہ خاندان سے تعلق رکھنے والے تنویر فاروقی کی تخلیقی داستانِ فرخ شہاب کے ساتھ ہی شروع ہوئی مگر اس میں ڈرامائی موڑ نہیں آیا، جو فرخ شہاب کی زندگی میں آیا۔ تنویر فاروقی نے اپنے استاد اقبال مہدی کے بنیادی رنگ پین اینڈ اِنک میں پورٹریٹ بنانے میں اتنی طویل ریاضت کی کہ ایک جانب ان کا نام اس رنگ میں کچھ نئے زاویوں کی شمولیت سے تمام ہم عصروں میں سب سے ممتاز نظر آتا ہے، دوسرا انہوں نے آئل اینڈ کینوس پر بھی پین اور اِنک سے بہت آگے نکل کرکچھ ایسے فنی تجربات کیے، جوان کی گہری مشاقی اور اپنے شناختی دائرے میں مزید وسعت کی گواہی بھی ثابت ہوئے۔ فوزیہ خان کو شعر و ادب سے ایک فطری مناسبت ہے اور وہ شاعری، موسیقی اور مصوری کے کئی منفرد ایونٹ کرچکی ہیں اور وہ تصوف کے روشن ترین راستوں کی راہی بھی ہیں۔ وہ بڑی شائستہ اور سمجھ دار آرٹسٹ ہیں، جن سے بات کر کے اور مل کے ہمیشہ خوشی محسوس ہوئی۔ انہوں نے ایک جانب گھرداری کے کٹھن مراحل طے کیے، اپنی ہونہار بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ ادا کیا اور دوسری طرف مشکل ترین حالات میں بھی اپنی پینٹنگز کے موضوعاتی تنوع کو مختلف سیریز میں بڑی کامیابی سے پیش کیا۔ ہمارے پانچویں دوست جی این قاضی، جوکم گو بھی ہیں اور نسبتاً نئے دوست بھی ہیں۔ جی این قاضی کی شخصیت میں خاندانی وقار، شرافت اور خود میں سمٹے رہنے کی خوش ادائی بڑی واضح ہے۔ وہ واٹر کلرسٹ ہیں اور اسی شعبے میں ان کا نام اور کام اپنی شناخت بھی رکھتا ہے۔‘‘
خالد معین کا کہنا ہے کہ ’’ان پانچ مصوروں کے انتخاب میں کوئی منصوبہ بندی شامل نہیں ہے البتہ میرے لیے ایک سہولت ضرور موجود ہے کہ زیر بحث پانچوں آرٹسٹوں سے میری ایک گہری ذہنی ہم آہنگی قائم ہے اور یوں مجھے ان کی زندگیوں کے پوشیدہ گوشوں تک رسائی میں بڑی حدتک آسانی ہوئی ہے۔ اگر اس کتاب کو قارئین نے پسندیدگی بخشی تو اس طرح کے مزید انتخاب کی سمت پیش رفت بھی کی جا سکتی ہے اور اس صورت میں پہلے قدم پرکراچی اور اس کے بعد پاکستان بھر کے ہم عصر آرٹسٹوں پر تفصیلی مکالمے کا امکان پیدا ہوگا۔ خالد معین کا یہ اعلان قارئین کے لیے بڑا خوش آئند ہے اور اس طرح اردو ادب کے قارئین کو شفیع عقیل کے بعد مصور اور مصوری فن پر لکھنے والا ایک اور ادیب میسر آجائے گا۔
کتاب میں خالد معین نے مصوری کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کو بڑی مہارت سے بیان کیا ہے اور آرٹ کے بارے میں اپنے وسیع علم کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ کراچی میں موجود آرٹ گیلریز کی تفصیلات، ملک کے معروف مصوروں کا سرسری لیکن قابلِ ذکر جائزہ، ان کے فن پر اظہارِ خیال نے اس مضمون کو بہت وقیع اور معلومات افزا بنا دیا ہے۔ عالمی سطح پر مصوری کے مختلف مکتب فکر کی تاریخ اور ارتقا کا جائزہ، مشہور مصوروں کے فن اورکام کا تجزبہ بھی بہت عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔
خالد معین نے مصوروں کے فن اور شخصیت سے متعلق مضامین کو دل چسپ عنوان دیے ہیں۔ ’’وصی حیدر پر مضمون کا عنوان ہے۔ ’’عقدۂ مشکل پسند آیا‘‘ ہے۔ وصی حیدر روزنامہ جنگ کے مڈویک میگزین کے لیے ہر ہفتے آرٹسٹوں کا ایک مخصوص رائٹ اَپ لکھتے تھے جو عموماً بیک پیچ پرکلرفُل پینٹنگز کے ساتھ شائع ہوتا تھا، پہلے رائٹرکا نام چھپتا تھا بعد میں رائٹر کی تصویر بھی چھپنے لگی، یوں وصی حیدر جنگ میگزین کے مستقل آؤٹ سورس رائٹر بنے ہوئے تھے اور ظاہر ہے خود بھی اُن دنوں نوجوان آرٹسٹ تھے۔ انہوں نے صادقین، گُل جی، جمیل نقش جیسے نام ور پینٹرز پر بھی رائٹ اَپ پیش کیے اور ہم عصروں کے ساتھ ابھرتے ہوئے میل فی میل آرٹسٹوں کے بھی تعارفی رائٹ اَپ بھی شامل تھے۔ پھر وہ عملی طور پر خود بھی پینٹنگز بنانے اور اپنی آرٹسٹک شخصیت کی تکمیل میں مصروف ہو گئے۔ کئی برس کے بعد وصی حیدر سے ٹوٹا ہوا تعلق ایک نئے رنگ ڈھنگ، نئی گرم جوشی اور نئے عزم کے ساتھ جڑا کہ وہ سارے حجابات جو اس سے پہلے کی مختصر سی رسمی ملاقاتوں میں حائل تھے، ایک جھٹکے میں اُٹھ گئے اور ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز کا سلسلہ آغاز ہو گیا۔ اب وصی اُبھرتا ہوا آرٹسٹ نہیں تھا، اپنا مقام بنا چکا تھا۔ وہ اپنے ہم عصروں میں واضح شناخت رکھتا تھا اور مارکیٹ میں اس کی حیثیت بھی مستحکم تھی۔ وصی حیدر کی خطاطی، ٹائم اینڈ اسپیس اور دیگر میڈیمز میں بنائی ہوئی کئی منتخب اور خوب صورت پینٹنگز اس کے اسٹوڈیو کی زینت ہیں۔ انہوں نے تجریدیت، علامت، پیکر سازی، فیسز اور باڈی کے مختلف شیڈز اور زاویوں کے امتزاج سے اپنے لیے ایک الگ راہ بنائی ہے جب کہ انہوں نے خطاطی میں بھی بڑا معیاری کام کیا ہے۔ جہاں تک وصی حیدرکی ڈرائنگ، اسٹروکس، کلرز اور مجموعی فنی ایکسپریشن کا معاملہ ہے‘ وہ ان سب میں انتہائی مشاق آرٹسٹ کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ دوسرے آرٹسٹوں کے مقابلے میں ان کے ہاں موضوعاتی تنوع بھی ہے، اپنی مخصوص امیجری بھی ہے، کلرز کا برجستہ اور منفرد انتخاب بھی ہے۔ اُ ن کے اسٹروکس میں پاور بھی ہے۔ وصی حیدر کی پینٹنگز میں بعض سیریز قابلِ ذکر ہیں۔ ٹائم اینڈ اسپیس کے حوالے سے بنائی گئی اُن کی بیشتر پینٹنگز بڑے کمال کی ہیں، خاص طور پر ایسی تمام پینٹنگز جن میں چاند، سورج یا زمین کی نمائندگی کرنے والے کلرفل گول دائرے ہیں، اس کے ساتھ زندگی کے دیگرمظاہر ہیں، جن میں عورت اورمرد کی مبہم پرچھائیاں، خوب صورت رنگوں اور ڈرائنگ کی مدد سے آپس میں مدغم ہیں اور پینٹنگ کا مجموعی امپیکٹ غیر معمولی تاثر چھوڑتا محسوس ہوتا ہے۔‘‘
اس جامع مضمون میں وصی حیدر کے فن اور شخصیت کا نچوڑ خالد معین نے قاری کے سامنے بڑی عمدگی سے پیش کر دیا ہے جس میں آرٹ سے ناواقف شخص بھی اس سے لطف اندوز اور آشنا ہو جاتا ہے۔ یہی مصنف کا کمال ہے۔ کسی مرحلے پر کتاب کی دل چسپی کم نہیں ہوتی۔
(جاری ہے)
غزلیں
انور شعور
گو رات بھر کا جاگا ہوا تھا، سویا نہیں تھا
سیرِ سحر کا موقع بھی میں نے کھویا نہیں تھا
حیرت ہے، دل میں نخلِ تمنا کیسے اُگا ہے
یہ بیج اپنے ہاتھوں سے ہم نے بویا نہیں تھا
جا کر وطن سے، دنیا میں خوش بھی رہتا ہے کوئی
کس شب مسافر گھر یاد کر کے رویا نہیں تھا
ہم نے نہ جانے اُس کے لیے کیوں آنسو بہائے
جو بے مروّت اِن موتیوں کا جویا نہیں تھا
انور شعور اب اپنے میں ڈوبا رہنے لگا ہے
محفل میں وہ بھی حاضر تھا لیکن گویا نہیں تھا
اورنگزیب رہبر
توہمات کے سایوں کا دائرہ ہو گا
اسی کے بعد اجالوں کا سلسلہ ہو گا
نگاہ لوٹ کے ہفت آسمان سے آئی
ہمارا مرکزِ تخیل کچھ سوا ہو گا
تمہارے دعوے بنیں گے صلیب محشر میں
جو ہو سکے وہی کہنا بہت بھلا ہو گا
جہاں تھمے گا تری پست ہمتی کا سفر
وہیں سے اک نئی دنیا کا فیصلہ ہو گا
طویل تر ہے، بھیانک ہے جبر کا منظر
لہو کا معجزہ اک دن تو رونما ہو گا
لباسِ خوئے محبت میں رہ گیا تنہا
کبھی وہ رہبرِ سادہ تمہیں ملا ہو گا
زاہد عباس