عورت کے دکھ

581

ساجدہ فرحین فرحی
’’آپی… آپی! کہاں ہیں آپ؟‘‘ بنٹی دور سے ہی چِلّاتا ہوا آیا۔
’’ارے کیا ہوا؟‘‘ ثمر نے فکرمندی سے اس کے چھِلے ہوئے گھٹنے کو دیکھا تو پانچ سالہ بنٹی جو اس کا چھوٹا بھائی تھا، تکلیف سے مزید کراہنے لگا۔ بچوں کے مزاج ایسے ہی ہوتے ہیں، تکلیف اتنی ہوتی بھی نہیں مگر ذرا سی ہمدردی ملنے کی دیر ہوتی ہے اور آہ و فغاں شروع۔ اتنے میں پنکی جو تین سال کی تھی، وہ بھی پہنچ گئی اور لگی سوچنے کہ اب وہ کیا بہانہ لگائے کہ آپی جو بھائی کے لیے اتنی فکرمند ہیں، کی توجہ خاص اس کی طرف مبذول ہو جائے۔
’’کیا بات ہے پنکی؟‘‘ ثمر نے پنکی کے جذبات بھانپ لیے تھے۔ ثمر نے اس کو بھی گود میں بٹھا لیا اور بنٹی کے گھٹنے پر دوا لگانے لگی۔ اتنے میں امی جان آگئیں اور کہنے لگیں ’’ثمر، ہر وقت ان دونوں کے ساتھ کھیل میں لگی رہتی ہو، بیٹا شام ہورہی ہے، کیا چائے نہیں بنے گی آج؟‘‘
ثمر اپنے والدین کی سب سے بڑی اولاد تھی، خدا نے ثمر کے بعد دو بچوں میں خاصا انتظار کروایا انہیں۔ اس لیے ثمر ان کی بہت سمجھ دار اور پیاری بیٹی تھی۔ ننھے منے بہن بھائی بھی گویا اس کی جان تھے۔ یہ چھوٹا سا آنگن خوشیوں بھرا تھا۔ وہ سارا دن امی کے ساتھ اُن کا ہاتھ بھی بٹاتی اور چھوٹے بہن بھائی کی دیکھ بھال بھی کرتی۔ ابو جان بھی اس سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ بھئی ان کی پہلوٹھی کی اولاد جو ٹھیری، اور پھر دس سال کی طویل مدت اس نے ان دونوں میاں بیوی کی تنہائی بھی مٹائی تھی۔ ماسٹرز کرنے کے بعد ثمر بالکل گھر کی ہی ہوکر رہ گئی۔ ہر وقت بہن بھائیوں کے ساتھ مگن رہنے والی ثمر اپنی زندگی میں خوش تھی کہ اچانک وہ گھڑی آگئی جس کا ہر لڑکی کو سامنا کرنا پڑتا ہے… گھر میں چپکے چپکے چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں۔ بہن بھائی بھی اب کچھ سمجھ دار ہوچکے تھے، چنانچہ بنٹی اور پنکی خبر اُڑا ہی لائے کہ آپی آپ کی شادی خانہ آبادی کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔ ثمر نے چونک کر ان دونوں کی طرف دیکھا۔ تو کیا وہ اب پرائی ہونے جارہی ہے…! امی ابو جو اس سے اتنی محبت کرتے ہیں اسے کسی غیر کے حوالے کردیں گے؟ اتنے پیارے بہن بھائی اس سے دور ہوجائیں گے…؟ اسے دیس نکالا کی سزا سنائی جانے والی ہے؟ مگر یہ سزا تو نہ تھی، یہ تو قانون ِ قدرت ہے، سو رب کی رضا میں راضی ہوگئی اور ماں باپ کی دعائوں کے سائے میں پیا کے سنگ اس کے دیس چلی گئی۔ شہروں کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ تھا، دل گھبراہٹ کا شکار بھی تھا کہ جانے اجنبی دیس کیسا ہو؟ بہن بھائی ابھی تو شادی کی خوشیوں میں مگن تھے، مگر بعد میں جو خلا سا محسوس ہونا تھا اس کا ان کو بعد میں ہی پتا چلا۔ بنٹی کو اپنی ہر بات آپی سے شیئر کرنے کی عادت تھی، اور پنکی تو اس کے بغیر سوتی ہی نہ تھی۔ امی کی سارے دن کی دوست اور ابو کی بہت خدمت گزار بیٹی… سبھی اس کو بہت مس کرتے اور چپکے چپکے روتے بھی کہ اس کا نصیب بھی تو دوسرے شہر میں لکھا تھا کہ اس کو دیکھنے کو بھی آنکھیں ترس جاتی تھیں۔
ثمر کا سسرال عام سسرال جیسا ہی تھا، نہ بہت برا اور نہ ہی بہت اچھا… زندگی کا ہم سفر اچھا تھا، بہت چاہنے والا، بہت خیال رکھنے والا… مگر یہ کیا کہ جب بھی میکے جانے کی بات کرتی تو اس کی محبت اُڑن چھو ہوجاتی… تو کیا زندگی کے بیس بائیس سال جن رشتوں کے ساتھ جس آنگن میں گزارے اسے بھول جائے! یہ کیسی قربانی مانگی جاتی ہے عورت سے اُس محبت کے بدلے جو شوہر اسے دے…! یہ انصاف تو نہ ہوا۔ وہ کیسے بھول جائے ان رشتوں کو جو اس کے خون سے جڑے تھے! اس نے تو سسرال کے ہر رشتے کو نبھایا تھا، اسے اپنے شوہر سے محبت تھی تو اُس سے جڑے ہر رشتے سے بھی پیار تھا۔ وہ ہر دکھ سُکھ میں ان کا ساتھ دیتی۔ تو کیا اس کے ’’مجازی خدا‘‘ کو اس سے محبت نہ تھی جو اس سے جڑے ہر رشتے سے بھی پیار کرتا، ان کے جذبات و احساسات کا خیال رکھتا! وہ اندر ہی اندر ٹوٹ رہی تھی… مگر یہ تو شاید ہمارے معاشرے کی ہر دوسری عورت کی کہانی تھی۔ عورت کی ذات دو حصوں میں بٹ جاتی ہے، اس کی اپنی تو شاید کوئی زندگی ہی نہیں ہوتی۔ پہلے ماں باپ کے گھر کا راج، اور پھر شوہر کا گھر، اس کا دستور… ثمر انہی سوچوں میں گم رہتی… اس کے اندر بغاوت کے جذبات امنڈنے لگے… یہ کیسی زندگی ہے جو میں گزار رہی ہوں! وہ بے چین تھی۔
ٹی وی پر کوئی ڈراما چل رہا تھا۔ کوئی اداکار عورت کا روپ دھارے ہوئے تھا۔ نہ جانے کیا ہوا کہ وہ اچانک ہذیانی انداز میں چیخنے لگی ’’خدا کا شکر کرو تمہیں خدا نے عورت نہیں بنایا۔ کیوں مرد کو عورت بننے کا اتنا شوق ہے! شکر کرو عورت نہیں ہو… شکر کرو… شکر کرو… بٹی ہوئی زندگی نہیںگزارتے… شکر کرو… شکر…‘‘ اس کی سانس اکھڑنے لگی… ثمر… ثمر… اور ثمر اپنے شوہر کی بانہوں میں بے دَم ہوگئی… ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ثمر کی موت برین ہیمبرج کا نتیجہ تھی۔

o…ٹوٹکے…o

ہتھیلی اور تلووں کی گرمی:
ہتھیلیوں اور تلووں کی گرمی ختم کرنے کے لیے خربوزے کے تازہ بیج اور گودا لے کر تلووں اور ہتھیلیوں پر مَلیں، اس سے ہتھیلیوں اور تلووں کی گرمی دور ہوجائے گی۔
پائوں کا ورم:
ایک بڑے سے برتن میں نیم گرم پانی ڈال کر اس میں دو عدد شلغم کاٹ کر تھوڑا سا نمک ڈال کر رکھ دیں۔ جب شلغم نرم ہوجائیں تو اس میں اپنے پائوں پانچ منٹ کے لیے ڈال کر بیٹھ جائیں، پھر پائوں باہر نکال کر کپڑے سے خشک کرلیں۔ آپ کے پائوں کا ورم ٹھیک ہوجائے گا۔
سرکہ سے علاج:
مسوڑھوں اور دانتوں کے شدید درد میں نیم گرم پانی میں سرکہ اور نمک ملاکر منہ بھر کے کلیاں کرنا فائدہ دیتا ہے۔ شدید بخار کی حالت میں جسم کی تپش اور حرارت کو کم کرنے کے لیے تازہ اور ٹھنڈے پانی میں سرکہ ملا کر کپڑے کی مدد سے مریض کے جسم پر پھیریے، بخار کی شدت میں کمی ہوجائے گی۔ ہر قسم کی بیرونی خارش اور دانوں پر خالص سرکہ میں کپڑا بھگو کر پھیرنا فائدہ دیتا ہے۔
دانت کے درد کا علاج
ایک گلاس نیم گرم پانی میں چٹکی بھر نمک اور ایک کھانے کا چمچ گنے کا سرکہ ڈال کر دن میں کم از کم دو مرتبہ اچھی طرح کلی کریں۔ دانت کا درد جاتا رہے گا۔
جلنے کے نشان دور کریں:
اکثر باورچی خانے میں کام کرتے ہوئے ہاتھ جل جاتا ہے، کبھی گرم تیل کی چھینٹ پڑ گئی یا کبھی بھاپ لگ جاتی ہے، ایسے میں جو حصہ جل گیا ہو وہاں آگ سے سکائی کرلیں۔ کسی بھی مربے کا شیرہ محفوظ کرلیں اور جلنے پر فوراً لگائیں۔ نہ ہی جلن ہوگی اور نہ ہی کوئی نشان باقی رہے گا۔

حصہ