مرسلہ: عزیر مرزا
ایک ان پڑھ دیہاتی اپنے گدھے پر سوار کسی مدرسے کے پاس سے گزرا تو اس نے دیکھا کہ ایک مولوی صاحب بچوں کو پڑھاتے ہوئے کہہ رہے ہیں: ’’شکر کرو کہ میں نے تم گدھوں کو انسان بنا دیا ہے ورنہ عمر بھر تم کہیں بوجھ اٹھاتے پھرتے‘‘۔ دیہاتی یہ سن کر مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا: ’’حضور، یہ میرا گدھا ہے اس کو بھی انسان بنا دیں۔‘‘ مولوی صاحب سمجھ گئے کہ یہ ان پڑھ احمق شخص ہے، اس کا گدھا مفت ہاتھ آئے تو کیا برا ہے۔ فوراً بولے: ’’ٹھیک ہے، گدھے کو یہیں چھوڑ جائو، دو سال بعد آکر خبر لینا۔‘‘ دو سال بعد جب دیہاتی آیا، تو مولوی صاحب بول اٹھے: مبارک ہو، تمہارا گدھا تو بہت لائق نکلا، وہ انسان ہی نہیں، پڑھ لکھ کر جونپور کا قاضی بھی بن گیا ہے۔ جائو، جونپور جا کر اس سے مل لو۔‘‘ جونپور کے قاضی سے مولوی صاحب کی ان بن تھی۔ ان کو موقع مل گیا کہ دیہاتی کے ذریعے ان کی تضحیک کریں۔
دیہاتی جب جونپور پہنچا تو ایک جگہ عدالت میں قاضی کو بیٹھا دیکھا۔ مارے خوشی کے اس نے بازار سے گھاس کا گٹھا خریدا اور اس کو لے کر عدالت کے دروازے میں کھڑا ہو گیا اور گھاس کے گٹھے کی طرف اشارے کرکے قاضی کو چمکارتے، پچکارتے اپنی جانب بلانے لگا۔ قاضی نے حیران ہو کر پوچھا: ’’بدتمیز، یہ کیا کرتا ہے؟ یہ عدالت ہے، دھوبی گھاٹ نہیں۔‘‘ جواب میں دیہاتی چیخ کر بولا: ’’واہ رے، کل تک تو ہمارا گدھا تھا: آج قاضی بنا بیٹھا ہے تو ہم کو پہچانتا بھی نہیں۔ گھر چل، تجھ کو سیدھا کروں گا۔‘‘ لغت میں جونپور کے قاضی احمق شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے حالانکہ قاضی سے کسی حماقت کا صدور نہیں ہوا۔