مدیحہ صدیقی
میں بتاؤں لڑائی کل کیسے ہوئی
میں نے چمچہ اٹھایا وہ تھامی ڈوئی
مجھ پر برہم ہے شاید گماں یہ ہوا
اس نے مجھ کو جو دیکھا تو وہ بھی ڈری
وہ یہ سوچے کہ لڑنا ہے کس بات پر
میں یہ سوچوں کہ غلطی کہاں پر ہوئی
تب یہ آوازبابا کی ہم نے سنی
ہیں کہاں بیٹیاں،کیوں ہیں چپکی کھڑی
ماں نے بتلایا کھانا پکائیں گی وہ
اک کو چاول دیئے اک کو سونپی کڑی
سن کر دونوں کی باتیں پتہ یہ چلا
یہ لڑائی نہیں بلکہ
گڑ بڑ ہوئی
ہاں یہ سوچا تھا چاول پکاؤں گی میں
اس نے سوچا تھا وہ بھی پکائے کڑی
میں یہ سمجھی کہ لڑنے کو آئی تھی وہ
وہ یہ سمجھے کہ لڑنے کو میں تھی کھڑی
ہم تو ہنس ہنس کر دھرے ہوئے ساتھیو!
تھا پھر چمچہ کہیں اور کہیں تھی ڈوئی