جینا تھا محبت میں محال

730

جگر مراد آبادی
چلتے چلتے جگر کے جوتے گھس گئے تو انہوں نے سوچا، ایک جوتا ہی بنوا لیا جائے۔ سرائے کے قریب ہی جوتے کی دکان تھی، وہ اُس دکان پر پہنچے اور پاؤں کا ناپ د ے آئے، دکان کا مالک انہیں دلچسپ معلوم ہوا، وہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں تھے، تھوڑی دیر میں دونوں خوب گھل مل گئے۔ یہ شخص بجنور کا رہنے والا تھا، اُس کا خاندان تجارت پیشہ تھا، کبھی اچھے دن دیکھے تھے لیکن اُن دنوں معاشی بدحالی کا شکار تھا، اس چھوٹی سی دکان پر گزارہ تھا۔
اب یہ دکان جگر کا مستقل ٹھکانہ بن گئی، وہ شہر کا چکر لگا کر لوٹتے یا کسی شہر کی یاترا کے بعد واپس آتے تو اسی دکان پر بسرا کرتے۔
دوستی اتنی بڑھی کہ جگر اُس کے گھر بھی جانے لگے۔ کچھ دن بعد گھر کی عورتوں سے اُن کا پردہ رسمی سا رہ گیا۔ کچھ دن اُن کی مترنم غزلیں پرد ے کے پیچھے سنی جاتی رہیں، پھر سب سامنے آگئے۔
اُن میں وحیدن بھی تھی۔ وحیدن کو اُس کے شوہر نے چھوڑ دیا تھا اور وہ باپ کے گھر بیٹھی ہوئی تھی۔
وحیدن کو حسین کہا جا سکتا تھا، اُس کے حسین چہرے، اُداس ہنسی اور نیچی نگاہوں نے جگر کو ایک اور ٹھوکر کھانے پر مجبور کردیا۔
کچھ بات بن پڑی نہ دلِ داد خواہ سے
کیا جانے کیا وہ کہہ گئی نیچی نگاہ سے
کوئی نہ بچ سکا تری قاتل نگاہ سے
ذرے بھی صدقے ہو گئے اُٹھ اُٹھ کے راہ سے
یہ جانتا ہوں جانتے ہو میرا حالِ دل
یہ دیکھتا ہوں دیکھتے ہو کس نگاہ سے
ایک دن اُنہوں نے یہ اشعار سنائے تو وحیدن کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ ان اشعار کا مخاطب کون ہے۔ وہ بہت دن سے جگر کی آنکھوں کو پڑھ رہی تھی اور اب اُسے یقین ہوگیا تھا کہ اُن کی آنکھوں میں وہ بسی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ میں ہی وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔
کچھ عرصہ بعد وحیدن بیمار ہوگئی۔ وہ ایک مشرقی عورت کی طرح سب کچھ برداشت کررہی تھی، لیکن اندر ہی اندر گھٹتی جارہی تھی۔ جگر جب ہوش میں ہوتے تو اُس کی یہ حالت دیکھ کر کڑھتے، لیکن مدہوش ہوتے ہی انہیں کچھ یاد نہ رہتا۔
بیماری طول پکڑتی گئی، ڈاکٹروں نے اسے ٹی بی بتائی تھی، معقول علاج نہ ہوسکا اور وہ گور کنارے پہنچ گئی، جگر کو اب ہوش آیا لیکن وہ نا اُمید نہیں تھے:
چشمِ اُمید میں ہے جان ابھی تھوڑی سی
ابھی دھندلا سا نظر آتا ہے اُجالا مجھے
امید کی یہ روشنی روز بہ روز کم ہوتی جا رہی تھی۔ انہیں وہ زمانہ یاد آرہا تھا جب وحیدن سے اُن کی ملاقات ہوئی تھی، اُس بے چاری نے مجھ سے کیسی کیسی توقعات وابستہ کی ہوں گی…
افسوس! میں اُس کی کسی توقع پر بھی پورا نہیں اتر سکا…
’’سنیے‘‘ وحیدن کی کمزور آواز ابھری۔
’’کیا پانی چاہیے؟‘‘ جگر نے پوچھا۔
’’یاد ہے؟ جب آپ ہمار ے گھر آئے تھے تو میں ضد کرکے آپ سے غزل سنا کرتی تھی‘‘۔
’’یاد تو ہے‘‘۔
’’آج بھی کوئی غزل سنائیے‘‘۔
’’تم سو جاؤ، تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘‘۔
’’اسی لیے تو کہہ رہی ہوں۔ کیا خبر پھر موقع ملے نہ ملے‘‘۔
جگر کے آنسو اُن کے دل میں اُترنے لگے، انہوں نے گھبرا کر غزل شروع کر دی۔
’’ایسے نہیں، ترنم سے سنائیے، آپ کے ترنم ہی نے تو مجھے خریدا تھا‘‘۔
جگر نے اپنے ترنم کی قیمت کو آج محسوس کیا تھا۔ انہوں نے دل کا حال لفظوں میں کہہ دیا:
صبر کے ساتھ مرا دل بھی لے جائیں آپ
اس قدر رحم مرے حال پہ فرمائیں آپ
مری رگ رگ میں سما کر بھی یہ پردہ مجھ سے؟
ظلم ہے ظلم ہے، آئینے سے شرمائیں آپ
کر دیا دردِ محبت نے مرا کام تمام
اب کسی طرح کی تکلیف نہ فرمائیں آپ
نالے کرتے ہوئے رہ رہ کے یہ آتا ہے خیال
کہ مری طرح نہ دل تھام کے رہ جائیں آپ
اور جب وہ اس شعر پر پہنچے تو ایک ساتھ دونوں کی ہچکیاں بندھ گئیں:
دیکھیے میری تمناؤں کا احساس رہے
باغِ فردوس میں تنہا نہ چلے جائیں آپ
’’آپ کیوں روتے ہیں؟ بدنصیب تو میں ہوں کہ آپ کی شہرت کو کمال تک پہنچتے ہوئے نہیں دیکھ سکی‘‘۔
’’تم زندہ رہو اسی میں میری شہرت ہے‘‘۔
’’اب وقت آگیا ہے، شاید یہیں تک آپ کا میرا ساتھ تھا‘‘۔
وحیدن نے جگر کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب انہوں نے رونا چاہا مگر ان کے آنسو خشک ہوگئے…
آنکھ سے آنسو نہ بہے لیکن دل میں تو دریا ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ وہ لہریں گنتے رہے اور قدم گن گن کر قبرستان تک پہنچ گئے، سب لوٹ آئے مگر وہ وہیں کھڑے رہے، دم بخود، حیراں حیراں… پھر وہ دو زانو بیٹھ گئے، قبر کے پھولوں میں ترنم کے پھول شامل کرنے کے لیے، قبرستان اُن کی درد بھری آواز سے سسکیاں لے رہا تھا:

کسی صورت نمودِ سوز پنہانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی
جسے رونق ترے قدموں نے دے کر چھین لی رونق
وہ لاکھ آباد ہو، اُس گھر کی ویرانی نہیں جاتی
صداقت ہو تو دل سینے سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
مجھے تو کر دیا سیراب ساقی نے مرے لیکن
مری سیرابیوں کی تشنہ سامانی نہیں جاتی
جلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہیں گر گر کر
حضورِ شمع پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
جگر وہ بھی ز سر تا پا محبت ہی محبت ہیں
مگر اُن کی محبت صاف پہچانی نہیں جاتی

حصہ