تنویر اللہ خان
۔16 دسمبر 1971ء کو پاکستان کا نقشہ تبدیل کردیا گیا، جو اَب بدلا نہیں جاسکتا، اور نہ ہی گزرے وقت کو پلٹایا جاسکتا ہے۔ اب یہ ہماری تاریخ ہے۔ لیکن اس تاریخ کو درست کیا جانا ضروری ہے۔ پھر بات اتنی بھی پرانی نہیں کہ اس کے عینی شاہدین موجود نہ ہوں جن کی مدد سے ماضی کے حقائق دریافت نہ کیے جاسکتے ہوں۔
چلیے بنگلہ دیشی تو خود رحمی کے عارضے کی وجہ سے ہم سے شاکی تھے اور اب بھی ہیں، لہٰذا اُن کے اپنے حقائق ہیں، اُن کی اپنی سچائیاں ہیں، اُن کے اپنے خود تراشیدہ واقعات ہیں، اُن کے اپنے ہیروز ہیں… لیکن باقی رہ جانے والے پاکستان کے عوام اور خواص کو کیا ہوگیا ہے؟ سقوطِ ڈھاکا کے حوالے سے پاکستان کے عام آدمی، لکھاریوں، اخبارنویسوں، افواج کسی نے بھی دوستوں، دشمنوں، وفاداروں، غداروں کا درست تعین ہی نہیں کیا ہے۔ جو ملک توڑنے والوں کے ہیرو تھے وہی رہ جانے والے پاکستانیوں کے ہیرو ہیں۔ اسی لیے ہمارے صحافیوں، دانش وروں نے پاکستان توڑنے والوں کی یادگاروں پر تو پھول چڑھائے، مکتی باہنی کے جنگجوئوں کو خراجِ عقیدت بھی پیش کیا، بنگلہ دیش بنانے والوں اور بھارت کا ساتھ دینے والوں کی اولادوں سے تمغات بھی وصول کیے، لیکن وہ پاکستان کے لیے جانیں دینے والوں کا ذکر تک نہیںکرتے۔
روزنامہ ’دنیا‘ کے ایک نامور لکھاری جناب رئوف کلاسرا نے 23 نومبر 2018ء کو ’’چٹاگانگ کا چودھری‘‘کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا ہے، اس میں متحدہ پاکستان کے ایک حامی کا ذکر کیا گیا ہے۔ مضمون کے چند اقتباس بطور نمونہ نقل کررہا ہوں۔ جو رویہ اس مضمون میں صلاح الدین چودھری کے خیالات، اُن کی سیاسی وابستگی، ان میں جرأت و ہمت بھر دینے والے لٹریچر اور جماعت کے لیے اختیار کیا گیا ہے وہی رویہ بحیثیتِ مجموعی پوری قوم اور اداروں نے بنگلہ دیش میں متحدہ پاکستان کے حامیوں اور آج کے محب وطن پاکستانیوں کے ساتھ اختیار کیا ہوا ہے۔
جناب رئوف کلاسرا لکھتے ہیں: ’’یہ ٹویٹ بنگلہ دیش کے سیاسی لیڈر صلاح الدین قادر چودھری کے بارے میں تھا، وہ جنرل ایوب کی متحدہ پاکستان کی آخری اسمبلی کے اسپیکر فضل قادر چودھری کے بیٹے تھے۔ صلاح الدین چھ دفعہ بنگلہ دیش پارلیمنٹ کے رکن بنے، بہاولپور میں صادق پبلک اسکول میں پڑھے، دوستوں میں نمایاں نام اسحاق خاکوانی اور محمد میاں سومرو کے تھے‘‘۔
’’میرا واپسی کا پلان بن رہا تھا کہ ان کا فون آیا، بولے: گھر آجائو، رات کا کھانا اکٹھے کھاتے ہیں۔ گھر پہنچا تو اُن کی بیگم صاحبہ نے کھانا بنایا ہوا تھا۔ پاکستان میں بنگلہ دیش کی خاتون سفیر بھی موجود تھیں۔ لمبی گپ شپ لگی۔ صلاح الدین کی پارٹی الیکشن ہار چکی تھی اور حسینہ واجد وزیراعظم بننے جارہی تھیں، وہ خاصے پریشان نظر آئے، کہنے لگے: واپس جاکر اپنے فارن آفس کو بتائیں کہ اب بنگہ دیش وہ نہیں رہے گا جو پہلے تھا، اب بھارت نواز لابی کا اثررسوخ بڑھے گا اور ان جیسے سیاست دانوں کے لیے مشکلات بڑھیں گی جنہیں پاکستان نواز سمجھا جاتا ہے‘‘۔
’’پھانسی کی سزا سن کر صلاح الدین ایک لمحے کے لیے بھی نہ گھبرائے اور زور سے عدالت میں جج سے کہا: آپ نے کون سا نیا فیصلہ سنایا ہے! کل صبح سے آپ کا یہ فیصلہ، جو دراصل حسینہ واجد کی وزارتِ قانون نے لکھ کر آپ کو بھجوایا، انٹرنیٹ پر چل رہا ہے، آج آپ نے وہی پڑھ کر سنا دیا ہے‘‘۔
’’صلاح الدین کی پھانسی کے بعد ڈھاکا کے ایک اخبار میں یہ خبر چھپی: صلاح الدین نے حسینہ واجد سے معافی کی اپیل کی تھی جو وزیراعظم نے مسترد کردی تھی، اس پر صلاح الدین کے بیٹے نے اخباری بیان جاری کیا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے، اس کے باپ نے ہرگز رحم کی اپیل نہیں کی تھی بلکہ خاندان کو سختی سے منع کردیا تھا کہ اس زندگی کی بھیک حسینہ واجد سے نہیں مانگی جائے گی۔ بیٹے کے بقول جب اس کے باپ کے سامنے معافی کی درخواست رکھی گئی تو انھوں نے اٹھا کر پھینک دی اور کہا تھا: What rubbish۔‘‘
مضمون نگار نے بہاولپور، صادق پبلک اسکول، اسحاق خاکوانی، محمد میاں سومرو کا ذکر تو کیا لیکن انھوں نے شہید عبدالقادر کی سیاسی وابستگی کا ذکر ضروری نہ سمجھا۔ عبدالقادر نے فیصلہ سننے کے بعد جس ہمت سے جج کو مخاطب کیا، ہمت کے اس منبع کا ذکر مضمون نگار نے ضروری نہ سمجھا۔ معافی کی اپیل کے بارے میں جناب صلاح الدین نے جو مؤقف اختیار کیا تھا، وہی جماعت اسلامی کے پھانسی پانے والے ہر رہنما نے اپنایا تھا۔ جان دینے کی گواہی نہ جھوٹی ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس کے اخلاص پر شک کیا جاسکتا ہے۔ ایسے ایمان کا منبع کیا تھا، اور کن لوگوں اور جماعت کی ہمراہی ان پھانسی ملنے والوں کو حاصل تھی، یہ امر بھی مضمون نگار کے لیے اہم نہ تھا۔
جناب بھٹو بڑا نام ہیں، اُن کے ساتھ عدالتی عدل ہوا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن قدرت نے ان کے ساتھ ضرور انصاف کیا تھا۔ بھٹو آج بھی پاکستان کے ہیرو ہیں، آج بھی ان کی پھانسی کا ذکر ایسے ہوتا ہے جیسے واقعہ کربلا بیان کیا جاتا ہے۔ جناب بھٹو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے پیروں پر چل کے تختۂ دار تک نہیں گئے بلکہ انھیں گھسیٹ کر لے جایا گیا، مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو گلے میں ڈالنا تو دور کی بات ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے پھانسی پانے والے ہر رہنما نے نہ صرف رحم کی اپیل کے آپشن کو اختیار نہیں کیا بلکہ مسکراتے ہوئے اپنی جان اللہ کے سپرد کی ہے۔ پھانسی پانے والوں کا اپنے اہلِ خاندان سے آخری ملاقات کرنا، اپنے ایک ایک عزیز کو مخاطب کرکے نصحیت کرنا، چھوٹے بچوں کو گود میں لے کر پیار کرنا ہمت و استقامت کا ایسا عظیم منظر ہے کہ اس پر فلمیں بنائی جانی چاہئیں۔ لیکن ہمارے عوام، حاکم، لکھاری، دانش ور، سپہ سالار، ان کے ترجمان… کوئی بھی ان قربانیوں کو قابلِ ذکر نہیں سمجھتا۔
جماعت اسلامی کے سولی چڑھائے جانے والے صرف جماعت اسلامی کے ہی ہیرو نہیں ہیں، بلکہ انھیں پاکستانی عوام اور اُس سے بڑھ کر افواجِ پاکستان کا ہیروہونا چاہیے تھا۔
محسن کُشی کی ایسی مثال بھی یقیناً تاریخی ہے۔