محمد انور
اطمینان کی بات یہ ہے کہ ملک میں کچھ تو مثبت ہورہا ہے۔ مثلاً طویل عرصے بعد عدلیہ، فوج اور جمہوری حکومت میں ہم آہنگی نظر آرہی ہے۔ ان تینوں میں اس قدر اتفاق پایا جاتا ہے کہ اب ایک پیج پر کیا، ایک نشست میں بھی ساتھ ہونے لگے ہیں۔
ویسے تو ہمارے اسلامی ملک میں اللہ کے حکم سے بچے ہی تھے جو بلا رکاوٹ پیدا ہورہے تھے۔ بندہ تو صرف اپنے حقوق ادا کرتا ہے۔ انسان کیا، ہر دیگر مخلوق کے بچوں کی پیدائش نظامِ قدرت کے تحت ہی ہوتی ہے۔ مگر ہمارے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار پانی کی کمی دور کرنے کے لیے ڈیم فنڈز قائم کرنے کے ساتھ بچوں کی پیدائش کم کرنے کے حوالے سے بھی قوم کی توجہ مبذول کرانے میں مصروف ہوگئے۔ حالاں کہ اللہ نے اشرف المخلوقات کی ضروریات پوری کرنے کا نہ صرف وعدہ کیا ہے بلکہ وہ پوری کرتا بھی ہے۔ اللہ تو انسانوں سے اس قدر پیار کرتا ہے کہ پہلے انسانی جوڑے کی پیدائش سے قبل ہی ان کی ضروریات کی تمام چیزیں تخلیق کردی تھیں۔ مگر ہم آج تک اپنی اوقات سے زائد حاصل کرنے کے باوجود اس کے نظام پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ نہ صرف سانس لے رہے ہیں بلکہ ہر خواہشات بھی پوری کرتے ہیں۔
ملک کی آبادی کم کرنے کے لیے چیف جسٹس پاکستان قدر سنجیدہ نظر آرہے ہیں وہ بھی ان ہی کی تاریخی بات ہوگی۔ کم بچے یا بچوں کی پیدائش کے سلسلے کو کنٹرول کرنے کے لیے عدالتِ عظمیٰ میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ ’’پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی پر فوری توجہ‘‘ کے موضوع پر اس ایک روزہ سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا کہ بڑھتی ہوئی آبادی سے متعلق معاملے پر بدقسمتی سے ملک میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ شہروں کی وسعت بھی افزائشِ آبادی کی شرح پر اثرانداز ہورہی ہے۔ حکومتی ترجیحات میں بڑھتی ہوئی آبادی سے متعلق مسئلہ بہت پیچھے تھا، تاہم چیف جسٹس کا اس مسئلے کو اجاگر کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہیں، جبکہ حکومت نے اس معاملے میں ٹاسک فورس بھی تشکیل دے دی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی قومی نوعیت کا مسئلہ ہے جس میں سیاسی قیادت، سول سوسائٹی اور علما کو مرکزی کردار ادا کرنا پڑے گا۔
سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پاکستان میں دستیاب وسائل بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ 60 برس کے دوران آبادی کو محدود کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔
مذکورہ سمپوزیم میں ممتاز عالم دین طارق جمیل نے بھی خصوصی درخواست پر شرکت کی تھی۔ انہوں نے اس حوالے سے شرعی نکتہ نظر سے بات کرتے ہوئے آبادی کو کنٹرول کرنے کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ اس تجویز پر شدید تنقید بھی کی۔ عام خیال یہ ہے کہ مولانا طارق جمیل کو اس تجویز پر مثبت اور اس کی حمایت میں رائے دینے کے لیے تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔ انہیں اس مقصد کے لیے سمپوزیم میں بلانے کی تجویز کس کی تھی یہ نہیں معلوم، لیکن پورا یقین ہے کہ جس نے بھی منتظمین پر انہیں تقریب میں مدعو کرنے کے لیے زور ڈالا وہ نہ تو عام ہوگا اور نہ ہی لبرل سوچ کا حامل، بلکہ وہ شخص دین دار ہونے کے ساتھ محبِ وطن پاکستانی بھی ہوگا۔
تقریب میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے مولانا طارق جمیل نے بہت حکیمانہ بات کی، انہوں نے کہا کہ ’’آبادی سے بڑا مسئلہ کم علمی ہے، یہ تقریب اسلام آباد میں ہورہی ہے جبکہ یہ مسئلہ پاکستان کے دیہاتوں کا ہے، وہاں آبادی کنٹرول پروگرام سے زیادہ اہم مسئلہ علم کی روشنی کو عام کرنا ہے‘‘۔ انہوں نے فلاحی ریاست کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی روشنی میں تین نکاتی فارمولا پیش کیا، جو یہ ہے:
اول: امن و امان، دوم: رزق و معاش کی فراوانی، اور سوم: تعلیم و تربیت۔
مولانا طارق جمیل نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پروگرام کے منتظمین کی شرعی تقاضوں کے مطابق رہنمائی بھی کرنے کی کوشش کی، انہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں انسانی تخلیق کے ایک ایک مرحلے میں قدرت کی کارفرمائیوں کا ذکر کرکے شاید اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ جس انسان کی تخلیق قدرت کو مقصود ہو، اسے تم کیوں کر روک سکتے ہو۔
مولانا طارق جمیل نے اپنا مؤقف پیش کرکے ملک کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ’’آبادی کی روک تھام‘‘ کی تجویز کو یکسر مسترد کردیا ہے، جس کے بعد چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ ازخود اس معاملے پر خاموش ہوجائیں۔ کیونکہ اگر مولانا طارق جمیل کی تنقید کے بعد بھی حکومت آبادی کم کرنے کے حوالے سے اپنے پروگرام پر عمل درآمد کرے گی تو یہ ایک متنازع مسئلہ بن جائے گا۔
پاکستان میں آبادی کم کرنے کے مکروہ پروگرام پر عمل کیا گیا تو ملک کے مجموعی حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ خیال ہے کہ بچوں کی پیدائش کو روکنا اللہ کے نظام سے جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ جن ملکوں نے بچوں کی پیدائش کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی وہاں بے تحاشا مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ یورپ کے بیشتر ممالک میں ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ کا پروگرام کامیاب تو ہوا مگر وہاں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے بہت زیادہ ہوگئی، جس کی وجہ سے خطرناک معاشرتی مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔
جو لوگ بچوں کی پیدائش کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں اُن جوڑوں سے بھی رابطہ کرنا چاہیے جو اولاد نہ ہونے سے کس قدر پریشان رہتے ہیں۔
عزت مآب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار تو آئندہ سال فروری میں اپنی ملازمت مکمل کرکے گھر بیٹھ جائیں گے لیکن اگر ان کے اس منصوبے پر خدانخواستہ عمل درآمد کرلیا گیا تو ہمارے پورے معاشرے کو ایک ’’ریٹائرڈ سوسائٹی‘‘ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
بچوں کی پیدائش روکنے کا گناہ سود سے کم نہیں ہے، کیوں کہ سود کو بھی اللہ کے نظام سے جنگ قرار دیا گیا ہے اور بچوں کی پیدائش کو روکنا تو خود ’’جنگ‘‘ جیسا ہے اور فطرت کے اصولوں کے منافی بھی ہے۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے: (ترجمہ) ’’اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل بڑی خطا ہے۔‘‘ (آیت نمبر 31)
جی ہاں، یہ ایک ایسے بچے کا قتل ہے جسے دنیا میں آنے سے قبل ہی مار دیا جاتا ہے۔
کیا اسلام کے نام پر بننے والے پاک وطن کو اجتماعی طور پر اس گناہ کی دعوت دینا درست ہے؟