کانفرنس آف اسلامک یوتھ آرگنائزیشن

486

عائشہ مرتضیٰ
سیکرٹری اطلاعات اسلامی جمعیت طالبات پاکستان
بلاشبہ ہمارے ملک میں دینی رجحان رکھنے والی بہت سی نوعمر طالبات موجود ہیں جو کسی نہ کسی دینی اجتماعیت یا ادارے سے وابستہ ہیں۔ ان کا اشاعتِ دین کا مقصد بھی مشترکہ ہے اور نظریہ بھی… مگر ان کو باہم مل بیٹھ کر اختلافات کو نظرانداز کرکے مشترکہ نظریات کی بنیاد پر کبھی تبادلہ خیال کا موقع نہیں ملا۔ موجودہ دور کی اہم ضرورت کے پیش نظر اسلامی جمعیت طالبات پاکستان کے زیر اہتمام ہوٹل ریجنٹ پلازہ میں بروز اتوار 25 نومبر 2018ء کو پاکستان میں پہلی بار طالبات کے لیے کام کرنے والی تمام تنظیموں کی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں طالبات کی 10 بڑی تنظیموں نے شرکت کی جن میں الہدیٰ انسٹی ٹیوٹ، العلم انسٹی ٹیوٹ، زینب اکیڈمی، بروج انسٹی ٹیوٹ، اذان انسٹی ٹیوٹ، یوتھ کلب، جے آئی یوتھ، رائزنگ یوتھ، یوتھ امپیکٹ، اور النساء انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔
یہ دنیا جہاں تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں وہیں تمام شعبہ ہائے زندگی میں مسائل اور کنفیوژن کی بھرمار ہوتی جارہی ہے۔ تمام دینی ادارے طالبات کے مسائل اور ان کی کنفیوژن دور کرنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ یہ کانفرنس بھی اسی مقصد کے لیے منعقد کی گئی تاکہ ان اداروں کی محنت و جدوجہد کو سراہا جاسکے، نیز اُن مسائل کا حل ایک مشترکہ فورم پر تمام ادارے مل کر نکال سکیں جو نوجوان نسل کو درپیش ہیں۔
’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو‘‘۔ (القرآن 2:5)
یہ کانفرنس اُن تمام افراد کے لیے تھی جو طالبات میں دعوتِ دین کا کام کرتے ہیں تاکہ وہ ایک فورم پر باہم اپنی صلاحیتیں دین کے فروغ میں لگا سکیں اور دین کی اشاعت میں ایک دوسرے کو مثبت تعاون دے سکیں۔
ہوٹل ریجنٹ پلازہ میں ہونے والی اس کانفرنس کی تزئین و آرائش خاصی پُرکشش اور نفیس تھی۔ کانفرنس ہال میں داخلے کے ساتھ ہی استقبالیہ پر گرے اسکارف اور سیاہ عبائے میں ملبوس رضاکار طالبات شرکت کے لیے آنے والی مہمانوں کی رجسٹریشن کرنے میں مصروف تھیں۔
اسٹیج کے عقب میں کانفرنس آف اسلامک یوتھ آرگنائزیشن کا بینر تھا جس پر ’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو‘‘ آیت درج تھی۔ مہمانِ خصوصی اور اسپیکرز اسٹیج پر سربراہی کرسیوں پر براجمان تھے۔ کانفرنس کی میزبانی محترمہ علوینہ عروج نے کی۔
ہال میں شرکاء کے لیے نشستوں کی ترتیب بہترین تھی۔ تمام اداروں سے آئے شرکاء کے لیے علیحدہ نشستوں کا اہتمام تھا۔ گلاب کی پتیوں کے درمیان ہر میز پر لگے نارنجی بورڈ پر متعلقہ ادارے کا نام درج تھا۔ سنہری پتھر پر جمعیت طالبات کا لوگو سب سے خوبصورت اور نمایاں لگ رہا تھا۔ جگہ جگہ گلاس کے اندر شمعیں جگمگا رہی تھیں۔ ہر میز پر ایک ایسا بورڈ بھی رکھا ہوا تھا جس پر کوئی آیت لکھی ہوئی تھی اور کسی پر خوبصورت اقوال۔ نظم وضبط قائم رکھنے کے لیے تمام اداروں سے وابستہ افراد نے رضاکارانہ طور پر اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ بائیں طرف جمعیت طالبات کے دو اسٹال موجود تھے۔ ایک اسٹال پر طالبات کی دلچسپی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نت نئے اور دیدہ زیب پُروقار عبایا، اسکارف و دیگر استعمال کی اشیاء موجود تھیں، اور دوسری جانب روایتی اور سب کا پسندیدہ کتابوں کا اسٹال تھا۔ نیز میڈیا ڈیسک بھی موجود تھی اور صحافیوں کے لیے بھی ایک میز مختص تھی۔
کانفرنس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، جس کے بعد پہلے سیشن کی ابتدا ہوئی۔ زینب اکیڈمی کراچی کی طرف سے محترمہ ندا فیصل نے سیمینار سے ’اینگزائٹی‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔ انہوں نے نوجوانوں کو درپیش مسائل کے بارے میں مؤثر انداز میں تفصیلی گفتگو کی اور بتایا کہ معاشرتی دباؤ نوجوان نسل کے اسٹریس اور اینگزائٹی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
اس کے بعد محترمہ ماریہ عندلیب ’رائزنگ یوتھ‘ کے ادارے کی نمائندہ کی حیثیت سے اسٹیج پر تشریف لائیں اور ’’تعلیمی اداروں کا ایمان کی حفاظت میں کردار‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ تعلیمی اداروں کا انسان کی شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحابِ صفہ کی تعلیم وتربیت جس بہترین انداز میں کی، وہ ہمارے لیے تعلیم و تربیت کا کامل نمونہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا تعلیمی نظام ہمارے ایمان کی حفاظت اور اس کی پختگی میں کردار ادا کرنے کے بجائے ہمارے ایمان کو ڈگمگانے کا سامان مہیا کررہا ہے۔نصابِ تعلیم میں اسلام مخالف اور مغربی لٹریچر پڑھایا جارہا۔

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

انہوں نے اس کا حل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم پر علم حاصل کرنا فرض کیا گیا ہے، لہٰذا ہمیں ایسا تعلیمی نظام تشکیل دینا چاہیے جس میں توازن کے ساتھ دینی و دنیاوی تعلیم کی تدریس کی جائے۔
اس کے بعد النساء انسٹی ٹیوٹ کی ڈاکٹر ثوبیہ الطاف نے اس موضوع پر بات کی کہ ’’معاشرتی دباؤ کس طرح ہمارے ایمان کو متاثر کرتا ہے‘‘۔ انہوں نے اس حساس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گلوبلائزیشن کے نام پر اور کثیر ثقافتوں کے زیراثر اسلامی تہذیب کو مسخ کردیا گیا ہے، اس وجہ سے ذہنی دباؤ اور لوگوں کا ضرورت سے زیادہ برانڈ کانشیس ہوجانا عصر حاضر کا اہم ترین مسئلہ بن گیا ہے۔
پہلے سیشن کا آخری پروگرام کروانے محترمہ فوزیہ سرفراز العلم انسٹی ٹیوٹ کی نمائندہ کی حیثیت سے تشریف لائیں اور تعلیمی اداروں میں ہونے والی خرابیوں (شراب نوشی، ڈرگز لینا، جنسی طور پر ہراساں کرنا) وغیرہ کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی اور اس کا مؤِثر حل تجویز کیا۔
پہلے سیشن کے اختتام پر شرکاء کی رول اور چائے سے تواضع کی گئی۔
……
چائے کے وقفے کے بعد شرکاء واپس اپنی نشستوں پر براجمان ہوگئے اور پھر دوسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ اس سیشن کا پہلا پروگرام ’’معاشرے میں تیزی سے پھیلتی الحاد کی وبا‘‘ جیسے نہایت حساس موضوع پر تھا۔ یوتھ کلب کی ممبر محترمہ ماہم صاحبہ نے الحاد (ایتھیزم) پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کائنات کی تخلیق دراصل خالق کی موجودگی ظاہر کرتی ہے، اور اگر زندگی بعدالموت کا تصور نہ ہو تو یہ انصاف کی بے بنیادی کو ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے خالق کی موجودگی کو سائنسی و عقلی دلائل سے ثابت کیا۔کائنات کے نظام کا اس قدر منظم انداز میں چلنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کا وجود میں آنا محض کوئی اتفاق نہیں ہے، بلکہ کوئی عظیم ذات موجود ہے جو یہ نظام احسن انداز سے چلارہی ہے۔
اس کے بعد جے آئی یوتھ کی اسپیکر محترمہ ماہ رخ اختر (ماہر نفسیات) نے اپنی گفتگو کے دوران نوجوان نسل کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیتے ہوئے کہا کہ اپنی زندگی کے مختلف شعبوں میں توازن پیدا کرنے اور ترجیحات کے درست تعین سے بہت سے مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔
کھانے کے وقفے سے پہلے بروج انسٹی ٹیوٹ کی نمائندہ محترمہ نیہا مبین نے ایک ہی مذہب میں مختلف فرقوں، مختلف فقہی نظریات اور جداگانہ رائے کے اسباب بیان کیے جن کی وجہ سے ہمارے دلائل کمزور اور مبہم بن جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی جداگانہ رائے اور مختلف نظریات کو نہ صرف حکمت کے ساتھ برداشت کریں بلکہ ایک دوسرے کی رائے کا احترام بھی کریں۔
اس پروگرام کے اختتام کے ساتھ کھانے اور ظہر کی نماز کا وقفہ ہوا۔ اس دوران مختلف اداروں کی طرف سے شرکت کرنے والے افراد کو آپس میں ملاقات کے دوران ایک دوسرے کو جاننے کا موقع ملا۔
……
وقفے کے بعد آخری پروگرام کا آغاز ہوا، جو کہ الہدیٰ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ڈاکٹر کنول قیصر نے ’’ذہن سازی میں فیملی یونٹ کا کردار‘‘ کے موضوع پر کروایا۔ موجودہ دور میں جہاں خاندان تیزی سے ٹوٹ رہے ہیں، فیملی سسٹم بہت سی خرابیوں کا شکار ہوگیا ہے، وہاں ڈاکٹر کنول قیصر (چائلڈ اسپیشلسٹ) نے اسلام آباد سے کراچی آکر خصوصی طور پر یہ پروگرام کروایا اور ہماری فیملیز کے درمیان دوریوں اور اس کے نتائج پر بات کی۔ انہوں نے نوجوان طالبات سے خطاب کرتے ہوئے مینٹل امپاورمنٹ پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی کردار سازی میں فیملی کا اہم کردار ہوتا ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، نیز گھر والوں کو ان کے لیے ایسا ماحول فراہم کرنا چاہیے کہ وہ جدید دور میں درپیش اپنے مسائل پر ان سے بات کرسکیں۔
بلاشبہ یہ تمام پروگرام نہایت اہمیت کے حامل تھے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ دل چاہتا تھا کہ سننے اور سیکھنے کا یہ عمل جاری رہے، مگر وقت کب اور کس کے لیے رکتا ہے! تمام پروگرام ختم ہوچکے تھے۔ آخر میں پینل ڈسکشن رکھا گیا تھا جس میں محترمہ سنبل یوسف نے محترمہ ربیعہ اکبر، ڈاکٹر سعدیہ اعجاز اور ڈاکٹر کنول قیصر سے آج کے دور میں نوجوانوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لیے جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس پر سوالات کے۔
پروگرام کا اختتام ناظمہ اعلیٰ اسلامی جمعیت طالبات پاکستان عائشہ فہیم کے خطاب سے ہوا، جس میں انہوں نے تمام دعوتی اداروں کے بہترین مستقبل کے لیے اپنی نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ انہوں نے معاشرے میں مایوسی کو مٹاکر زندہ دلی اور امید کی ترویج پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے صرفِ نظر کریں جو ہمارے درمیان اختلاف کا سبب ہیں، اور اس کے بجائے ان مشترکہ اہداف و مقاصد پر فوکس کریں جو ہمارے درمیان مشترکہ ہیں، اور اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مشترکہ نکتہ نظر کی بنیاد پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کردے، آمین۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم معاشرے میں امید کی فضا پیدا کریں، کیونکہ قرآن میں امید کے پہلو کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ دورِ حاضر کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ سوچ اور ہدف کی ضرورت ہے، جس کی بدولت ہماری کوششیں رنگ لاسکیں۔
دعا کے بعدشام چھ بجے کانفرنس کے اختتام پر شرکاء کی تواضع مزیدار ناشتے (ہائی ٹی) سے کی گئی۔
اس کانفرنس کے انعقاد سے طالبات میں کام کرنے والے دینی حلقوں کو تقویت ملی اور اُن کے حوصلے مزید توانا ہوگئے۔ شرکاء کے تاثرات نہایت تحسین آمیز تھے۔ اس کانفرنس کے ذریعے ایک ہی مقصد کے تحت جداگانہ طریقوں سے فریضۂ اقامتِ دین ادا کرنے والے افراد کو آپس میں اپنے خیالات کے اشتراک کا بہترین موقع ملا اور مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ اشاعتِ دین کے فروغ کے لیے جدوجہد کرنے کا عزم کیا گیا۔ میڈیا ڈیسک نے اس کانفرنس کی بہترین انداز میں کوریج کی۔ پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر اس کانفرنس کو بہت سراہا گیا اور ان ہمہ جہت نوعمر طالبات کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا گی۔
اللہ پاک اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر اسلامی جمعیت طالبات پاکستان کے تمام ذمہ داران کو اجرِ عظیم عطا فرمائے اور تمام افراد کی کوششوں کو قبول فرما کر ہم سب کو اس کے مثبت اثرات سے مستفید کرے۔ (آمین)
شاباش ٹیم اسلامی جمعیت طالبات پاکستان

حصہ