شریکِ مطالعہ

628

نعیم الرحمن
اشرف شاد پاکستان کے سینئر صحافی اور اردوکے منفرد سیاسی اور سماجی ناول نگار ہیں۔ وہ تین دہائیوں سے بیرون ملک مقیم ہیں لیکن اردو ادب کے ذریعے ان کا ملک سے رابطہ برقرار ہے۔ ان کے پانچ ناول شائع ہوچکے ہیں۔ 1997ء میں ان کا پہلا ناول ’’بے وطن‘‘ شائع ہوا جو بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل پر مبنی ایک سماجی ناول تھا جس میں کسی حد تک آپ بیتی کا بھی گمان ہوتا ہے ۔ 1999ء میں ان کا پہلا سیاسی ناول ’’وزیراعظم‘‘ شائع ہوا جو 90 کی دہائی میں پاکستانی سیاست اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے تناظر میں انتہائی دل چسپ ناول ہے۔ 2004ء میں اشرف شاد کا دوسرا سیاسی ناول ’’صدرِمحترم‘‘ اور 2017ء میں’’جج صاحب‘‘ شائع ہوا۔ ان ناولوں کے ذریعے مصنف نے پاکستانی سیاست کی نیرنگیوں کو اجاگر کیا ہے۔ سیاسی جوڑتوڑ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں اور ٹانگ کھینچنے کا عمل بہ خوبی ان ناولوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اشرف شاد کے ناولوں کی ایک اہم بات تمام ناولوں کے کچھ مشترکہ کردار ہیں جن کا ایک دوسرے سے تسلسل قائم ہے، جو ہر ناول مکمل ہونے کے باوجود قاری کو دیگر ناول بھی پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اشرف شاد کی کردار نگاری بے مثال ہے۔ انہیں جزئیات نگاری میں بھی مہارت حاصل ہے۔ ’’جلا وطن‘‘ سے لے کر ’’جج صاحب‘‘ تک تمام ناولوں میں ایک ایک کردار کو بھرپور انداز میں ڈویلپ کیا گیا ہے۔ ہر کردار کی شخصیت اور مزاج پوری طرح عیاں کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض کردار اگلے ناولوں میں بھی کسی نہ کسی صورت موجود ہیں۔ اس طرح یہ تمام ناول ایک دوسرے سے مربوط اور قاری کی دل چسپی میں اضافہ کرتے ہیں۔ ’’وزیراعظم‘‘ میں نوّے کی دہائی میں ملکی سیاست کی اکھاڑ پچھاڑ، حکومتوں کے بننے اور ٹوٹنے کے عوامل کو موضوع بنایا گیا ہے جس میں قاری ہر کردار میں چھپے حقیقی سیاست دان کو بہ خوبی پہچان سکتا ہے۔ یہی صورت حال ’’صدرِ محترم‘‘ اور ’’جج صاحب‘‘ کی بھی ہے۔ اردو میں اس نوعیت کا ایک ناول محمود شام نے ’’شب بخیر‘‘ کے نام سے لکھا ہے جس میں پاکستان کے معروف اور سرگرم سیاست دانوں کو ہر قاری بہ خوبی دیکھ اور پہچان سکتا ہے۔ جب کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ عبداللہ حسین کے ’’اداس نسلیں‘‘ اور ’’نادار لوگ‘‘، شوکت صدیقی کے ’’خدا کی بستی‘‘ اور’’جانگلوس‘‘ سمیت بہت سے ناولوں میں موجود ہے۔
اشرف شاد کی شاعری کے تین مجموعے ’’نصاب‘‘، ’’آ مرے قریب‘‘ اور ’’اخبار ِعشق‘‘ بھی شائع ہوچکے ہیں۔ ایک افسانوی مجموعہ ’’پیلی لکیر‘‘ اور سیاست دانوں کے انٹرویوز پر مبنی ’’سیاستیں کیا کیا‘‘ کے علاوہ ’’احمد فراز بقلم خود‘‘ بھی شائع ہوچکی ہیں، جن سے اشرف شاد کے قلم کے مختلف روپ سامنے آتے ہیں۔ حال ہی میں اشرف شاد کا نیا ناول ’’بی اے۔ رستم، ٹی وی اینکر‘‘ شائع ہوا ہے۔ یہ اشرف شاد کا ایک یکسر مختلف قسم کا ناول ہے جس کا موضوع الیکٹرانک میڈیا اور اس کی بوالعجبیوں کو بنایا گیا ہے کہ کس طرح ٹی وی چینل کام کرتے ہیں۔ وہاں مفادات کا سودا کس طرح کیا جاتا ہے۔ اداروں کی سیاست کا اثر کارکنوں اور دیگر افراد پرکس طرح پڑتا ہے۔ یہ سب بے حد دل چسپ کہانی ہے۔ دوست پبلشرز کی روایتی عمدہ طباعت میں شائع تین سو صفحات کے ناول کی قیمت 650 روپے ہے۔
شاعر، ڈراما نگار اور استاد امجد اسلام امجد مصنف کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’اشرف شاد جہاں گرد آدمی ہیں، صحافیانہ بے باکی اور حق گوئی کی وجہ سے جب ان پر70 کی دہائی میں وطن کی زمین تنگ ہوئی تو وہ امن اور رزق کی تلاش میں رضاکارانہ طور پر ایک ایسی نیم اختیاری جلا وطنی کا شکار ہوئے کہ تقریباً پینتالیس برس سے ان کا زیادہ وقت ملک سے باہر ہی گزرا ہے۔ اگرچہ اس دوران وہ کویت، یواے ای، برونائی، امریکا اور بحرین میں بھی مقیم رہے لیکن آسٹریلیاکی آب و ہوا ان کو زیادہ راس آئی، سو وہ گھوم گھام کر اب پچھلے کچھ برسوں سے آسٹریلیا میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ صحافت کی مشق، پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت، براڈ کاسٹنگ کے تجربے اور حقائق کو شاعرانہ نگاہ سے دیکھنے کی صلاحیت نے ان کے بیانیہ میں ایک مخصوص نوعیت کی گہرائی، وسعت اور تازگی پیدا کردی ہے کہ ان کے ناولوں کے کردار، واقعات اور نثر تینوں قاری کو ایک ساتھ اپنے گھیرے میں رکھتے ہیں۔ ان کے تینوں کرداری ناول وزیرِ اعظم، صدرِ محترم اور جج صاحب اپنے عنوان اور موضوعات کے حوالے سے بوجوہ ایک ایسے علامتی اندازِِ تحریرکے متقاضی تھے کہ بات کو حقیقت اور افسانے کے بین بین رکھا جائے، اور یہ کوئی آسان نہیں کہ آپ کسی اصلی اور دیکھے ہوئے کردار کی ایسی تصویر بنائیں کہ قاری ہمہ وقت غالب کے اس شعرکی پہیلی کو ہی کھولنے میں لگا رہے:

ہاں کھائیو مت فریبِ ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘

’’نیا پاکستان‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ میں اشرف شاد لکھتے ہیں کہ ’’وطنِ عزیز میں نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جارہی ہے۔ نئے پاکستان کی پہلی اینٹ میں نے اپنے دوسرے ناول ’’وزیراعظم‘‘ میں 1999ء میں رکھی تھی۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایمان علی تھا جس کا خاکہ کم و بیش عمران خان سے ملتا جلتا تھا۔ اس نئے پاکستان کی تکمیل میرے اگلے ناول ’’صدر محترم‘‘ میں ہوئی تھی جسے میں نے 2000ء میں لکھنا شروع کیا تھا اور جو 2004ء میں شائع ہوا تھا۔ ایمان علی فوج کی مدد سے ایک خودمختار صدر بن کر اقتدار میں آتا ہے۔ وہ ایوانِ صدر کو پاکستانی سیاست کا عجائب گھر اور وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنادیتا ہے اور کرائے کے مکان میں اپنا دفتر بناکر ملک کی تشکیل ِ نو کرتا ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان جو ’’نیا پاکستان‘‘ بنانا چاہتے ہیں وہ تقریباً ایسا ہی ہوگا جیسا کہ میرے تخلیق کردہ ایمان علی نے آج سے اٹھارہ سال پہلے بنایا تھا۔ یہ مماثلت حیرت انگیز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عمران خان اردو ناول نہیں پڑھتے اور انہوں نے اپنے نئے پاکستان کا خاکہ ایمان علی سے مستعار نہیں لیا ہوگا، لیکن میری مستقبل بینی اور تخلیقی قوت کو داد ضرور دی جاسکتی ہے۔ میرے اس نئے ناول ’’بی اے رستم، ٹی وی اینکر‘‘ کے باب نمبر سات ’’وزیرِاعظم‘‘ میں بھی ’’نیا پاکستان‘‘ سے ایسی ہی ایک حیرت انگیز مماثلت موجود ہے۔ یہ باب بھی آج سے تقریباً چھ سال پہلے ایک ٹی وی سیریل کی قسط کے طور پر لکھا گیا تھا اور کسی رد و بدل کے بغیر اس ناول کا حصہ ہے۔ میں اس مماثلت پر بھی اپنے پڑھنے والوں سے داد طلب کرسکتا ہوں۔ اس ناول کا آخری باب ’’خلائی مخلوق‘‘ میری شدید جھنجھلاہٹ اور ناامیدی کا نتیجہ ہے۔ میں نے اس باب میں فکشن سے گریز کرکے حقائق نامہ تحریر کردیا ہے۔ آخری باب لکھتے ہوئے میں بہت اذیت سے دوچار ہوا ہوں اور رستم کی طرح میرا دل بھی دیوار سے سر ٹکرانے کو چاہتا ہے۔ نیا پاکستان اسی ناامیدی سے امید تک کا سفرہے۔‘‘
پیش لفظ کے طویل اقتباس سے قاری پر اشرف شاد کی تحریروں اور خصوصاً اس ناول کی وجۂ تخلیق واضح ہوجاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر ناول مصنف کی آپ بیتی کا حصہ ہوتا ہے۔ ’’بی اے رستم، ٹی وی اینکر‘‘کے بارے میں بھی اشرف شاد کا کہنا ہے کہ اس کا اینکر میں ہوں۔ بالکل اسی طرح جلا وطن کا ’’بے وطن‘‘ بھی میں تھا۔ ’’وزیرِاعظم‘‘ اور’’صدر محترم‘‘ بھی میں، اور ’’جج صاحب‘‘ بھی میں تھا۔ ناول نگارکو اپنے تخلیق کردہ کردار میں ڈھلنا اور ہمہ وقت اپنی تخلیق کی ہوئی دنیا میں رہنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی زندگی میں ٹی وی اینکرز کا کردار بہت اہم ہے۔ اپنی اپنی سیاسی اور نظریاتی وابستگیوں کے حوالے سے سب کے اپنے اپنے فیورٹ اینکر ہیں۔ سب اینکرز اپنے وسائل، محدودات اور اہلیت کے مطابق بے شمار پابندیوں میں جکڑے مشکل حالات میں کام کررہے ہیں۔
ناول کا مرکزی کردار بی اے رستم ہے جسے آسٹریلیا میں نہیں، پاکستان میں ٹی وی اینکر بننا ہے۔ جمال بیگ پاکستان کے ایک بڑے چینل این ٹی این کا چیئرمین ہے جسے رستم کسی صورت قابلِ قبول نہیں، لیکن وہ اسی کے چینل میں موجود ہے۔ بلقیس جمال عرف بی جے جو باپ سے اصولی اختلاف کی وجہ سے آسٹریلیا میں تعلیم کا خرچ اور وطن واپسی پر اس کے چینل کے بجائے این جی او میں کام کرنا پسند کرتی ہے۔ علیمہ خان محبت اور نفرت کے درمیان پسنے والی این ٹی این کی چیف ایگزیکٹو آفیسر ہے۔ تہمینہ رحمانی موسم کا حال پڑھتی ہے لیکن اسے اینکر بننا ہے۔ آصف جاہ سینئر رپورٹر اور این ٹی این کا ڈائریکٹر نیوز ہے جسے رستم اپنا گرو مانتا ہے۔ ڈولی ناول کا ایک اور دل چسپ کردار ہے جو این ٹی این میں سیکرٹری ہے جسے ہر خبر پہلے سے معلوم ہوتی ہے۔ منصور خان منن جو اینکر بننے کے خواب دیکھتے دیکھتے رستم کا وفادار معاون بن گیا۔ سونیا بھی رستم کی وفادار معتمد ٹی وی پروڈیوسر ہے۔ پیرو چینل کا میک اَپ آرٹسٹ اور ادارے کا ہائیڈ پارک ہے۔ وزیراعظم کو ایک انوکھے کردار کے روپ میں اشرف شاد لائے ہیں جوصرف ایک سال کے لیے حکومت کرنا چاہتا ہے۔ داؤد شیخ ایک ایسا ٹی وی اینکر ہے جسے پچاس لاکھ مہینہ اور ایک مرسیڈیز کار چاہیے۔ معروف سیاست دان شہباز رانا، جسے اپنی شادی کا علم نہیں۔ اس کے علاوہ این ٹی این کے ڈائریکٹرز، رپورٹرز، کیمرہ مین، پروگرام میں آنے والے وزیر، سیاست دان، بیوروکریٹ، وکیل اور بے شمار دل چسپ کردار ناول ’’بی اے رستم، ٹی وی اینکر‘‘ کی کہکشاں میں جگمگا رہے ہیں اور اس کی دل چسپی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
جمال بیگ کی بیٹی بلقیس جمال آسٹریلیا میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران رستم سے متعارف ہوئی۔ بی جے کی ماں کا کینسر سے انتقال ہوچکا ہے۔ وہ اپنے باپ کی اکلوتی بیٹی ہے۔ ابتدا میں بی جے یہ سمجھ کر رستم سے دور رہتی ہے کہ وہ اس کے امیر باپ اور چینل کی ملکیت سے واقف ہونے کی وجہ سے اس سے قریب ہورہا ہے، لیکن یہ علم ہونے پرکہ رستم اس بات سے آگاہ نہیں اور وہ اس کے باپ کی دولت سے کوئی سروکار نہ رکھنے کی یقین دہانی کرا دیتا ہے، تب دونوں شادی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بی جے کے والد اسے دوران تعلیم بھاری رقوم بھیجتے ہیں لیکن وہ این جی او میں کام کرکے اپنے اخراجات پورے کرتی ہے۔ وطن واپسی پر جب وہ جمال بیگ کو رستم کے بارے میں بتاتی ہے تو وہ اُس سے رستم کا بیک گراؤنڈ پوچھتے ہیں۔ وہ بتاتی ہے کہ رستم نے میڈیا میں ماسٹر کیا ہے، اُسے آسٹریلیا میں بھی آفرز تھیں لیکن وہ پاکستان میں اپنا مستقبل بنانا چاہتا ہے۔ سڈنی میں وہ ٹیکسی چلاتا تھا، اس کے والد دبئی میں اکاؤنٹنٹ ہیں۔ جس پر جمال بیگ کہتے ہیں کہ تم چاہتی ہو کہ میں دبئی کی معمولی فرم کے اکاؤنٹنٹ کے ٹیکسی ڈرائیور بیٹے سے تمہاری شادی کر دوں! والد کے دوٹوک انکار کے بعد بی جے گھر چھوڑ دیتی ہے اور رستم کے ساتھ شادی کرلیتی ہے۔ جمال بیگ دامادکا نام بھی نہیں جاننا چاہتے۔
رستم این ٹی این کے ڈائریکٹر نیوز آصف جاہ کی مدد سے چینل کا اینکر بن جاتا ہے۔ اس کا منفرد نوعیت کا پروگرام پہلے ہی پروگرام سے ہٹ ہوجاتا ہے۔ تب وہ بی جے سے اپنی شادی کا اعلان کرتا ہے۔ لیکن جمال بیگ کسی صورت اسے داماد ماننے یا اپنے چینل میں رکھنے پر تیار نہیں۔ پروگرام کی مقبولیت اور اسپانسرکے اصرار اور دوسرے چینلز کی رستم میں دل چسپی کے باوجود وہ اسے اپنے چینل سے فارغ کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لیے نت نئے حربے استعمال کرتے ہیں۔ ادارے کی سی ای او علیمہ خان اور موسم کا حال سنانے والی سینئر رکن تہمینہ رحمانی کو رستم کو فارغ کرنے کا ٹاسک دیا جاتا ہے۔ ان کی پہلی کوشش بری طرح ناکام ہوتی ہے، کیوں کہ رستم نے پیش بندی کے لیے کچھ شرائط منوالی تھیں۔ انہی کی بنیاد پر وہ اپنا شو پریس کلب کے باہر کرتا ہے اور چینل اسے واپس بلانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس تمام کش مکش میں ٹی وی چینلز میں گروپ بندی، ایک دوسرے کے خلاف مختلف حربے اور سازشوں کا بیان بہت دل چسپ ہے۔ رستم کا اپنے شو کی ابتدا میں سچ بولنے کا حلف اٹھانا اور شو کے مہمانوںکے بارے میں بھرپور تحقیقات کے بعد سوالات سے بخیے ادھیڑنا بے حد مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں۔ لیکن مہمان اس کے شو میں آنے سے ڈرنے لگتے ہیں، جس کا توڑ رستم ایف بی آر چیف تحسین جاوید کے آنے سے گریز پر وہ اس طرح کرتا ہے کہ ایک کتے کو اس کے نام کی تختی کے ساتھ کرسی پر بٹھا دیتا ہے۔ یہ ترکیب کامیاب ہوتی ہے۔
کئی حکومتوں میں وزیر رہنے والا شہباز رانا اب مختلف چینلز پر سیاسی پیش گوئیاں کرتا ہے اور ہر چینل اس کی مقبولیت کوکیش کراتا ہے۔ رستم کا مہمان بننے پر وہ اس کی دوسری شادی کا بھانڈا پھوڑتا ہے، جس سے شہباز مسلسل انکار کرتا ہے اور رستم نکاح نامے سے لے کر نکاح خواں قاضی اور اس کی بیوی تک کو بلوا لیتا ہے اور پروگرام کے دوران ہی اس کی بیوی مطالبہ کرکے طلاق لے لیتی ہے۔ اس تمام صورت حال کے ذریعے مصنف نے پاکستانی چینلز پر کیا کچھ پیش کیا جاتا ہے اور اس کے کیا مقاصد ہیں، ان سے بہ خوبی پردہ اٹھایا ہے۔ یہ تمام چشم کشا تحریر قاری کی دلچسپی کے ساتھ معلومات میں بھی اضافے کاسبب بنتی ہے۔
ناول کا ایک دلچسپ باب ’’وزیر اعظم‘‘ ہے، جو ایک عام آدمی ہے، جس کا انٹرویو رستم اپنے پروگرام میں پیش کرتا ہے۔ جس کے انٹرو میں رستم ناظرین کو بتاتا ہے کہ ’’پروگرام کے اس حصے میں ایک بہت اہم انٹرویو، پرائم منسٹر کا انٹرویوکرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے انٹرویو کی جو شرائط رکھیں، وہ ہمیں منظور نہیں تھیں۔ ہمارے پروگرام میں انٹرویو برائے انٹرویو نہیں ہوتے، سچ کی تلاش ہوتی ہے، سچ بولا جاتا ہے دلیری اور بے باکی کے ساتھ۔ اسی سچ کے لیے ہم نے ایک اور وزیراعظم تلاش کیا ہے۔ وزیرِاعظم نہیں، وزیرکے نیچے زیرلگائے بغیر صرف وزیراعظم۔ ان کا تعلق اوکاڑہ کے ایک کسان گھرانے سے ہے۔ انہوں نے محنت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، امریکا سے ایم بی اے کیا، اور اب ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔ فارغ وقت میں وہ ’’پراجیکٹ پاکستان‘‘ پرکام کرتے ہیں۔ اُن کاکہنا ہے کہ اُنہیں صرف ایک سال کے لیے حکومت دی جائے تو وہ ملک کو خوش حال بنا دیں گے۔‘‘
رستم پوچھتا ہے کہ آپ ناظرین کو اپنے وزیر اعظم ہونے کی وجہ بتائیں گے؟ جواب ہے: ویری سمپل، میرا نام وزیر ہے اور میرے مرحوم والد کا نام اعظم تھا اسی لیے میرا نام وزیر اعظم ہے۔ میرے شناختی کارڈ پر بھی آپ دیکھ سکتے ہیں، یہی نام ہے۔ میں ہمیشہ اور مستقل رہنے والا بقول آپ کے، بغیر زیر کے وزیراعظم ہوں۔
یہ ایک انتہائی دلچسپ باب ہے، جس میں ملک کی اقتصادی حالت میں بہتری، کرپشن کے خاتمے اور حکمرانوں کو عام گھروں میں رہنے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں، جن میں سے کئی پر وزیراعظم عمران خان عمل پیرا ہیں اور اس خاکے کو پیش کرنے پر اشرف شاد نے داد بھی طلب کی ہے۔
اشرف شادکے گزشتہ ناولوں کی طرح ’’بی اے رستم، ٹی وی اینکر‘‘ بھی انتہائی دلچسپ ہے جسے شروع کرکے ادھورا چھوڑنا قاری کے لیے سخت مشکل ہوگا۔ ناول میں پاکستانی سیاست کی رنگا رنگی کے ساتھ ساتھ ٹی وی چینلز کے حقائق بھی دلچسپ انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ اشرف شاد اپنے ہر ناول میں آئندہ ناول کی جھلکیاں بھی پیش کرتے ہیں۔ اس بار انہوں نے اپنے دو اگلے ناولوں کی جھلکیاں پیش کی ہیں۔ ’’بے وطن‘‘ کے بعد اشرف شاد کا ایک اور سماجی ناول ’’رونق آرا۔ پی آئی‘‘ ہے جس میں حسب سابق حیران اور اداس کرنے والی بے شمار کہانیاں ہیں۔ جب کہ دوسرا ناول اشرف شاد کے سیاسی ناولوں کی سیریزکا ایک اور اہم ناول ’’اقتدار مافیا‘‘ ہے جس میں وزیر ِاعظم، صدر محترم اورجج صاحب کے کئی اہم کردار جلوہ گر ہوں گے۔ ان دونوں ناولوں کی اشاعت 2020ء تک متوقع ہے، لیکن اشرف شاد کے مداح ان کا ابھی سے انتظارشروع کردیں گے۔ ایک اچھا ناول توکئی مصنف لکھ لیتے ہیں، اصل امتحان دوسراناول ہوتا ہے۔ اشرف شاد پانچ بہترین ناول پیش کرکے خود کو اردو کا صفِ اوّل کا ناول نگار ثابت کرچکے ہیں اور اب مداحوں کی توقعات پر پورا اترنا بھی ان کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔

حصہ