پرائیویٹ اسکول کے اساتذہ کی مشکلات

654

مریم وزیر
اس مظاہرے میں کئی سو افراد شامل تھے۔ تقریباً ہر ایک نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر کچھ نہ کچھ لکھا تھا۔ ٹی شرٹس پر بھی ہیش ٹیگ کرکے نعرے درج تھے۔ یہ منظر کسی تیسری دنیا کی سڑک کا نہیں بلکہ سپر پاور ہونے کے دعوے دار امریکا کے شہر فلوریڈا کا تھا۔ اور یہ سب احتجاج کرنے والے ٹیچرز تھے جو اپنی خراب معاشی صورت حال سے تنگ آکر احتجاج پر نکل آئے تھے۔
ٹیچرز کا مؤقف جاننے کے لیے کیے گئے ایک انٹرویو میں ایک ٹیچر بتاتی ہیں کہ میں اتنے سال کے تجربے اور محنت کے باوجود اس جاب سے اتنا کما نہیں پاتی جتنا میری بیٹی بے بی سیٹنگ کے ذریعے کما لیتی ہے، اور میرے لیے بلز اور دیگر ضروریات کے لیے ایک اور جاب کرنا ناگزیر ہے۔
دوسرا منظر پاکستان کی سڑکوں کا ہے جہاں سرکاری ٹیچرز کئی ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے پر احتجاج کررہے ہیں، اور کہیں شنوائی ہوتی ہے اور کہیں نہیں۔
دنیا میں بہت بڑی تعداد میں اساتذہ کام کررہے ہیں۔ مختلف ممالک میں کام کرنے کے اوقاتِ کار الگ الگ ہیں، مگر ذمے داریاں تقریباً ایک جیسی ہیں۔ ٹیچنگ وہ کام ہے جس کو بہت دل کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ مختلف مضامین، درجوں، قومیتوں، علاقوں، زبانوں کے بچوں کو پڑھانا ایک کٹھن کام ہے۔ اس میں مختلف طرح کی ذہانتوں کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔ طلبہ کے مسائل کو سمجھنا، ان کو حل کرنا، نصاب کو مکمل کروانا، ورک پلیس کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنا، والدین کو مطمئن کرنا اور دیگر بے شمار کام ہیں جو اساتذہ کو کرنے ہوتے ہیں اور وہ کرتے ہیں۔
اس کام کی انہیں تنخواہ درکار ہوتی ہے تاکہ ان کی ضرورتیں پوری ہوسکیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ تنخواہ ان کی تمام ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ ایک پاکستانی استاد کو معاشرے کے دیگر لوازمات بھی ادا کرنا ہوتے ہیں جن میں بل، کرایہ، قرض، شادی بیاہ، دعوت، فیس، دوائیوں کا خرچ سب اسی جاب سے ادا کرنا۔ یعنی اگر کوئی شخص ٹیچر ہے تو اسے روٹی، کپڑا اور مکان کے علاوہ بھی بہت کچھ اسی تنخواہ سے کرنا ہوگا۔
پاکستان میں ٹیچنگ واحد ایسا شعبہ ہے جس سے ان تمام ضرورتوں کو پورا کرنا مشکل ہے (خاص کر اسکول جاب)۔ اس کے لیے دوسری جاب ضروری ہے۔ یا تو دوسری جگہ پڑھانا پڑتا ہے جیسے ٹیوشن، کوچنگ، یا کوئی بھی دوسرا کام کرنا ہی ہوتا ہے تاکہ گھر چلایا جاسکے۔ تنخواہوں کے بڑھنے کا معیار بھی بڑا مضحکہ خیز ہے۔کہیں 2 فیصد، کہیں 5، اور زیادہ سے زیادہ کہیں 10فیصد۔
جو لوگ اس شعبے سے وابستہ نہیں ہیں انہیں لگتا ہے کہ یہاں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں، آدھے دن کی جاب، سردیوں کی چھٹیاں، دیگر چھٹیاں، پھر اوپر سے دو ماہ کی گرمیوں کی چھٹیاں! ان کا بار بار تذکرہ کیا جاتا ہے، ساتھ ہی احساس دلایا جاتا ہے کہ دنیا کا سب سے آسان کام کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ٹیچنگ وہ جاب ہے جس میں انسانی دماغ سب سے زیادہ سوچنے کے عمل کا شکار رہتا ہے۔ رات میں بھی ایک ٹیچر اپنی جاب کے حوالے سے ہی سوچتے ہوئے سوتا ہے۔ کسی ٹیچر ہی نے یہ بات مذاقاً کہی تھی کہ اسے تو خواب میں بھی اسکول اور کلاس روم نظر آتے ہیں۔
یہی وہ جاب ہے جس میں پبلک ڈیلنگ سب سے زیادہ ہے۔ بچے، ساتھی اساتذہ، مینجمنٹ، والدین اور دیگر اسٹاف کے ساتھ ساتھ ایک ٹیچر کو مختلف مزاجوں، عادات کے ساتھ معاملات کرنے ہوتے ہیں۔ جہاں تک چھٹیوں کی بات ہے تو اس کی مثال کام کے لحاظ سے اونٹ کے منہ میں زیرہ کی طرح ہے۔ اب تو زیادہ تر تعلیمی ادارے چھٹیوں کو استعمال کرتے ہیں اور کہیں ٹریننگ ورک شاپس ہوتی ہیں، کہیں سالانہ، ماہانہ منصوبہ بندی کے حوالے سے کام لیا اور کیا جاتا ہے، کہیں کچھ اور کرنا ہوتا ہے۔
یہ وہ شعبہ ہے جو کسی بھی معاشرے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہی شعبہ ہے جہاں کے بیشتر افراد لکھاری، صحافی، شاعر، مقرر، اسکالر، تحقیق کار ہیں، یہی نہیں بلکہ اور بھی دیگر شعبوں سے وابستہ ہیں۔
پاکستان میں سرکاری ٹیچرز کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، مگر یہاں دونوں طرح کی صورت حال موجود ہے۔ گھوسٹ اساتذہ بھی موجود ہیں اور اچھے بھی۔ وہ ناانصافیوں کے حوالے سے احتجاج کر بھی سکتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں۔
مگر پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کا مسئلہ بہت گمبھیر ہے۔ نہ انہیں وہ مراعات حاصل ہیں جو حکومتی ملازمین کو حاصل ہیں، نہ ہی ان کو کوئی پلیٹ فارم میسر ہے جہاں ان کے مسائل حل ہوسکیں۔ جو چند ایک این جی اوز ہیں اساتذہ کے حقوق کی دعوے دار، ان کے منتظمین اسکولوں کے منتظم ہیں۔ تو اساتذہ جائیں تو کہاں جائیں؟ اساتذہ کی ان پلیٹ فارمز پر شنوائی نہیں ہوتی اور مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔

حصہ