غزوۂ بدر…آہن پوش لشکر بہ مقابلہ آہنی عزم

521

سید مہرالدین افضل
سورَۃ الاَنفَال کے مَضامین کا خلاصہ
تاریخی پس منظر/ نواں حصہ
۔17 رمضان کو بدر کے مقام پر فریقین کا مقابلہ ہوا۔ جس وقت دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ تین کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان ہے‘ اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہیں ہے، تو خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے اور انتہائی خضوع و خشوع کے ساتھ عرض کرنا شروع کیا ’’خدایا! یہ ہیں قریش، اپنے سامانِ غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ خداوند! بس اب آجائے تیری وہ مدد جس کا تُو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ اے خدا! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہوگی۔‘‘
بندگی کا کامل نمونہ:
سوال یہ ہے کہ جب اللہ کا وعدہ تھا کہ فتح تمہارا مقدر ہوگی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اتنے مضطرب کیوں تھے؟ اور اس بڑھ کر یہ کہ آپؐ نے لشکر کی تربیت، میدانِ جنگ میں درست پوزیشن کا انتخاب اور دیگر ضروری فوجی اقدامات میں اتنی جاں فشانی کیوں کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے انسانوں کے لیے رول ماڈل ہیں… اور یہاں ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامل انسان اور کامل ترین بندے کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ آپؐ اپنے طرزِعمل سے قیامت تک کے لیے اللہ کے بندوں کو بتا گئے کہ بندگی کیسے ہوتی ہے۔
آداب ِبندگی:
بندگی کا پہلا ادب یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کو قادرِ مطلق مانتے ہوئے اس کی شانِ بے نیازی پر نظر رکھے اور وعدۂ برحق کے باوجود ڈرتا رہے، مانگتا رہے… اور اس کام کو پورا کرنے کے لیے اپنی کوششوں میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔ نہیں معلوم کہ رب کا وعدہ کچھ ایسے اسباب سے مشروط ہو جس کا بندے کو علم نہیں… جیسا کہ آیت الکرسی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفتِ ادراک میں نہیں آسکتی اِلّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔‘‘ اس ارشاد کی روشنی میں اللہ کا بندہ جانتا ہے کہ کوئی دوسرا، اللہ کے کام میں دخل نہیں دے سکتا، کیوں کہ کسی دُوسرے کے پاس وہ علم ہی نہیں ہے جس سے وہ نظامِ کائنات اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ سکتا ہو۔ انسان ہوں یا جن یا فرشتے یا دُوسری مخلوقات… سب کا عِلم ناقص اور محدود ہے۔ کائنات کی تمام حقیقتوں پر کسی کی نظر بھی محیط نہیں۔ پھر اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے جُز میں بھی کسی بندے کی آزادانہ مداخلت یا اٹل سفارش چل سکے تو سارا نظامِ عالم درہم برہم ہوجائے۔ نظامِ عالم تو رہا درکنار، بندے تو خود اپنی ذاتی مصلحتوں کو بھی سمجھنے کے اہل نہیں ہیں۔ ان کی مصلحتوں کو بھی خداوندِ عالم ہی پُوری طرح جانتا ہے (سورۃ البقرۃ حاشیہ نمبر:282) رب پر کوئی چیز واجب نہیں، جب کہ بندے پر دُعا اور کوشش واجب ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی حکمت:
کانسٹنٹ ورجل جورجیو نے اپنی کتاب ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبرِ اسلام‘‘ میں غزوۂ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: اس جگہ (مقامِ بدر) محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے ایک بار پھر خطاب کیا اور فرمایا: آج تک عرب، جنگوں میں انفرادی طور پر لڑا کرتے تھے اور تن بہ تن لڑائی کو ترجیح دیتے تھے۔ ہر دشمن کوشش کرتا تھا کہ تنہا شجاعت کا مظاہرہ کرے تاکہ اس کی دھاک بیٹھ جائے اور دوسرے اسے رستم مان لیں۔ لیکن ہماری یہ جنگ خدا کی راہ میں ہے، نہ کہ اپنی ذات کے لیے۔ خداوند ہماری دلیری اور جاں فشانی کو دیکھ رہا ہوگا۔ اگر خدا کی راہ میں جان فدا ہوئی، اس کے صلے میں ہمیں خدا جنت میں لے جائے گا۔ دوسرے ہماری تعداد مکے کی سپاہ کا ایک تہائی ہے۔ اگر انفرادی جنگ اپنائیں گے تو نابود کردیے جائیں گے اور اگر ہم مل کر مصروفِ پیکار ہوں گے تو ہمیں فتح کی امید ہوگی۔ اس کے بعد محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہ جنگی تکنیک مسلمانوں کو سمجھائی جوکہ اس تاریخ سے تقریباً ایک ہزار سال قبل سکندر اعظم کے باپ فلپ نے آغاز کی اور اسے یونانی زبان میں فالٹز کہتے ہیں۔ فالٹز یعنی صف بندی عبارت ہے اُس ترتیب سے، جس میں سپاہی اس طرح شانہ بہ شانہ کھڑے ہوتے ہیں کہ ایک کی جگہ خالی ہونے پر دوسرا اس کی جگہ لے سکتا ہے۔ اس صف بندی کو خم دے کر حالات کے مطابق مختلف اشکال یعنی مثلث، مربع یا دائرہ بنا لیا جاتا ہے۔ اس مثلث، مربع یا دائرے کے تمام سپاہیوں کا رخ دشمن کی طرف ہوتا ہے اور پشت مثلث، مربع یا دائرے کے اندرونی طرف ہوتی ہے۔ نتیجتاً دشمن عقب سے حملہ نہیں کر پاتا تھا، اس لیے کہ جس طرف سے بھی دشمن حملہ کرتا مقابل سپاہیوں کے رُخ ہوتا۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار جزیرہ نماے عرب کی تاریخ میں ان جنگی چالوں کو استعمال کیا اور جنگِ بدر میں ان سے فائدہ اٹھایا۔ مسلمانوں کی دلیری وشجاعت اپنی جگہ، مگر جنگِ بدر میں فتح کا سبب یہ چالیں بھی تھیں کہ عرب ان سے قطعی ناآشنا تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جنگی تکنیک سمجھانے کے بعد خطاب کیا۔ فرمایا: ’’تمہارا فرار قطعی بے سود ہوگا، نیز اگر فرار اختیار کرو گے تو کوئی راہ نہ پائو گے، بجز اس کے کہ مدینہ جائو۔ وہاں یہودی اور منافقین تمہیں پکڑ لیں گے اور قریش کے حوالے کردیں گے۔ پس تم قتل کردیے جائو گے۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الانفال کی پندرہویں اور سولہویں آیات بہ صدائے بلند تلاوت فرمائیں ’’اے ایمان والو، جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دوچار ہو تو اُن کے مقابلے میں پیٹھ نہ پھیرو۔ جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری… اِلّا یہ کہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے… تو وہ اللہ کے غضب میں گھِر جائے گا، اُس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اور وہ بہت بُری جائے بازگشت ہے۔‘‘
صف بندی کی شکل (ترتیب) جو اس دن لشکرِ اسلامی نے اختیار کی وہ مثلثی تھی، اور تین پرچم اس کی تینوں قطاروں میں دکھائی دیتے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن خود کو جزیرہ نماے عرب کا جنگی نابغہ (Genius) ثابت کیا۔ تین دستے بہ شکل مثلث ترتیب دیے کہ ہر ایک دوسرے کا پشتیبان تھا… اور دشمن کسی سمت سے بھی حملہ کرتا، کسی ایک دستے سے ٹکراتا۔ ہر دستے میں ایک علَم بردار بھی دکھائی دیتا تھا۔ مثلث کی صف‘ جو دشمن کے سامنے تھی، اس کے علَم بردار علیؓ تھے۔ اُن کا پرچم سفید تھا۔ مثلث کی دوسری قطار کا پرچم مصعبؓ بن عمیر کو دیا گیا کہ یہ مہاجر تھے۔ تیسری قطار کے علَم بردار ایک انصاری تھے۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جب لشکر کی ترتیب اور دوسری ہدایات سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اے مسلمانو! اگر تم فاتح ہوئے یا قتل ہوئے، دونوں حالتوں میں تمہارے لیے بہشت ہے۔ کوئی انسان جو جنت میں رہتا ہے، قطعاً آمادہ نہیں ہوتا کہ اس جہان میں واپس آئے، اور وہ جو اِس جہان میں درجۂ شہادت پاتے ہیں، آرزو کرتے ہیں کہ دوبارہ اس جہان میں آئیں اور دوسری مرتبہ خدا کی راہ میں شہادت کا درجہ پائیں، اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ خدا انہیں بہشت میں اس کے صلے میں کیا کیا دے گا۔ جب آفتاب غروب کے نزدیک تھا، مکہ کا لشکر ظاہر ہوا۔ تاریکی چھا رہی تھی، اس لیے طرفین جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ رات کے ہنگامے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کی جگہ کو تبدیل کیا، اس طرح کہ دوسرے دن آفتاب ان کی آنکھوں کے سامنے نہ چمکے، اور ان کی آنکھیں خیرہ نہ ہوں۔ یہ تمام اقدامات ثابت کرتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فنِ جنگ پر پورا عبور رکھتے تھے۔ اُس رات محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا: نگہبانوں کے سوا ہر شخص سو جائے، تاکہ صبح دم جنگ کے لیے پوری طرح تیار ہو۔ میں خدا سے دعا کروں گا کہ تمہارے قلوب کو اطمینان بخشے تاکہ تم سو سکو۔
(پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم… کانسٹنٹ ورجل جورجیو۔ ترجمہ مشتاق حسین میر۔ ناشر ادارہ ترقی فکر لاہور، صفحہ 239، 240)
شوقِ شہادت اور نظم و ضبط:
جب باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمان والی پوسٹ سے نیچے تشریف لائے۔ اپنی سپاہ کی ترتیب کے درمیان چلے گئے اور آیاتِ قرآنی کی تلاوت کی۔ ان آیات میں کہا گیا تھا کہ ایک مسلمان خدا کی راہ میں خواہ مارے یا مر جائے، اس کی جگہ بہشت میں ہے۔ تلاوتِ قرآن سننے کے بعد مسلمانوں کے جوش اور جذبے کی حالت یہ ہو گئی کہ ان میں سے ایک عمیر رضی اللہ عنہ نے بلند آواز میں کہا: میرے اور بہشت میں چند قدم کا فاصلہ ہی تو ہے… وہ صف سے نکل کر مکے کی سپا ہ پر حملہ آور ہوئے۔ لیکن اُسی لمحے اہلِ مکہ نے انہیں گھیرے میں لے کر شہید کردیا۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے پکارے: ’’میری ہدایات کو مت بھولنا اور بہشت کی تمنا میں صف سے خارج مت ہونا۔ اگر تم صف سے خارج ہوئے تو بُت پرست تم پر غالب آجائیں گے۔ (پیغمبر اسلام محمدصلی اللہ علیہ وسلم۔ صفحہ 245)
مہاجرین کا امتحان:
یوم ِبدر سے پہلے عرب میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ بھائی بھائی پر، باپ بیٹے پر اور چچا بھتیجے پر حملہ آور ہو۔ ایک قبیلے کے لوگ قریبی رشتے دار سمجھے جاتے تھے اور آپس میں جنگ نہیں کیا کرتے تھے۔ اس معرکۂ کارزار میں سب سے سخت امتحان مہاجرینِ مکہ کا تھا جن کے اپنے بھائی بند سامنے صف آرا تھے۔ کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا چچا، کسی کا ماموں، کسی کا بھائی اس کی تلوار کی زد میں آرہا تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کاٹنے پڑرہے تھے۔ اس کڑی آزمائش سے صرف وہی لوگ گزر سکتے تھے جنہوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا ہو اور باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کرڈالنے پر تُل گئے ہوں۔
انصار کا امتحان:
اور انصار کا امتحان بھی کچھ کم سخت نہ تھا۔ اب تک تو انہوں نے عرب کے طاقت ور ترین قبیلے قریش اور اس کے حلیف قبائل کی دشمنی صرف اسی حد تک مول لی تھی کہ ان کے علی الرغم مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دے دی تھی۔ لیکن اب تو وہ اسلام کی حمایت میں اُن کے خلاف لڑنے بھی جا رہے تھے، جس کے معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹی سی بستی جس کی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہے، سارے ملک عرب سے لڑائی مول لے رہی ہے۔ یہ جسارت صرف وہی لوگ کرسکتے تھے جو کسی صداقت پر ایسا ایمان لے آئے ہوں کہ اس کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کی انہیں ذرہ برابر پروا نہ رہی ہو۔
نتیجہ:
آخرکار اُن لوگوں کی صداقتِ ایمانی خدا کی طرف سے نصرت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور قریش اپنے سارے غرور اور طاقت کے باوجود اُن بے سرو سامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ ان کے 70 آدمی مارے گئے، 70 قید ہوئے اور اُن کا سروسامان غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار، جو اُن کے گل ہائے سرِسَبَد اور اسلام مخالف تحریک کے روحِ رواں تھے، اس معرکے میں ختم ہوگئے اور اس فیصلہ کن فتح نے عرب میں اسلام کو ایک قابلِ لحاظ طاقت بنا دیا۔ جیسا کہ ایک مغربی محقق نے لکھا ہے’’بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا، مگر بدر کے بعد وہ مذہب ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا۔‘‘
اللہ سبحانہُ و تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

حصہ