دو بچے، دیسی انڈے اور کٹوں کا سوشل میڈیا آپریشن

803

دیکھیں بھائی آپ کچھ بھی کہیں اس وقت ملک خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سماجی میڈیا بلکہ تمام تر میڈیا پر ہمارے تمام ریاستی ستون ہی چھائے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
محترم چیف جسٹس آف سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار عدلیہ کی جانب سے، پارلیمنٹ کی جانب سے خود وزیر اعظم لیڈ کر رہے ہیں، ماشاء اللہ سے پاک فوج بھی کسی نہ کسی شکل میں جبکہ صحافت بھی اپنے اوپر سخت حالات کی وجہ سے اس وقت زیر بحث آئی ہوئی ہے ۔
آغاز کرتے ہیں عدلیہ کی نمائندگی کرنے والے ہمارے محترم چیف جسٹس آف سپریم کورٹ ثاقب نثار کے حالیہ دورہ برطانیہ سے۔ اس دورے کی خاص بات یہ تھی کہ خود پاکستان کے ایک موقر نیوز چینل کو ہیڈ لائن میں یہ خبر دینی پڑ گئی کہ ’چیف جسٹس سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کی زد میں‘۔ اصل میں تو چیف جسٹس آف پاکستان ملک میں پانی کی قلت کے خاتمے کے لیے سو موٹو ایکشن کے تناظر میں ڈیم کی تعمیرکے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے گئے تھے۔ اس چندہ مہم میں حکومتِ پاکستان کی بھی مکمل سپورٹ تھی اس لیے برطانیہ میں مقیم وزیراعظم عمران خان کے چند قریبی پاکستانی دوستوں نے بھی چیف جسٹس سے مبینہ ملاقات کی، جس کی کچھ تصاویر سوشل میڈیا پر جاری ہوئیں۔ اس دوران وقار ذکاء نے محترم ثاقب نثار سے اپنے سوشل میڈیا پیج پر ایک گفتگو شیئر کی جس میں انہوں نے بتایا کہ یہ سب بھارت کے پاک دشمن عزائم کو شکست دینے کے لیے بھی کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد پھر ایک تنقیدی سلسلہ اس بیانیے پر شروع ہوا کہ وہ افراد جو پاکستان کے ڈیم فنڈ میں تعاون کر رہے ہیں اُن کا کیا پس منظر ہے۔ اسی طرح لندن میں قیام و طعام کے اخراجات پر خوب سوالات اٹھے جن کا جواب بھی دیا گیا، تاہم دوسری جانب پاکستان میں اسی دوران گجرانوالہ، فیصل آباد اور سرگودھا جیسے بڑے شہروں میں انتظامیہ سمیت عدالتیں بند رہیں جو کہ خود ایک نیا سوال اٹھارہی تھیں۔اب مزید یہ ہوا کہ جہاں جہاں چیف جسٹس صاحب نے خطابات کیے وہاں وہاں مبینہ طور پر غیر ضروری موضوعات کو چھیڑ کر سوشل میڈیا پر تبصروں کے مواقع فراہم کرتے چلے گئے ۔آسیہ کیس کے حوالے سے جارحانہ بیان یہ جانتے ہوئے بھی کہ مذکورہ کیس کتنی حساس نوعیت کا بن چکا تھا۔ایسے میں فنڈ کی ایک تقریب کی ایک ویڈیو بھی خوب وائرل ہوئی جس سے یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ فنڈ تقریب میں شراب نوشی بھی جاری تھی ، کیونکہ وہیں کے شرکاء نشہ میں دھت ہو کر باہم دست و گریباں ہو گئے تھے۔اسی طرح ترجمان و معاون خصوصی چیف جسٹس پاکستان ظفر اقبال صاحب کی تقریر کا ایک کلپ بھی وائرل رہا جس میں انہوں نے بہت سارے انکشافات بھی کر دیئے۔اسی طرح موبائل فون پر ٹیکس کو ڈیم فنڈ میں لگانے کے حوالے سے چیف جسٹس کابیان بھی زیر بحث آیا ۔اب باری آئی جاتے جاتے نئے شوشے کی اور وہ تھا چیف جسٹس کی جانب سے پاکستان میں آبادی میں تیز ترین اضافے پر قابو پانے کے لیے ( ماضی کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان کی ناکام ترین مہم) ’’دو بچے ہی اچھے ‘‘کا اعلان ۔اس پر خوب دلچسپ ، کری ایٹیو میمز، نت نئے پر مزاح تبصرے اورکارٹون وائرل ہوئے ۔چند جملے پیش ہیں ، ’’ بچے دو ہی اچھے ۔باقی ڈیم فنڈ میں جمع کرا دیں۔‘‘’’ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ …بچے دو ہی اچھے بیویاں چاہے چار رکھ‘‘۔ ایک اور پوسٹ وائرل رہی جس میں اس جانب متوجہ کیا گیا کہ ،’’ پاکستان کی عدالتوں میں 18لاکھ10ہزار 745کیسز التواء کا شکار ہیں اور عدلیہ کا سربراہ برطانیہ سے واپسی پر بہبود آبادی کی مہم چلانے کی بات کر رہے ہیں۔‘‘
اسی طرح ہمارے محترم وزیر اعظم عمران خان کے خطابات ہمیشہ کی طر ح خود اُن کی اپنی جماعت اور چاپنے والوں کی جانب سے اور مخالفین کی جانب سے موضوع بحث بنے رہے ۔ابھی بارہ ربیع الاول کے موقع پر سیرت کانفرنس والے خطاب کے کلپس کا شور جاری تھا کہ کرتار پور بارڈر افتتاح والا خطاب آ گیا اس کے فوراً بعد ہی حکومت کے سو دن مکمل ہونے پر تقریب سے خطاب نے پھر ہلچل مچا دی۔اس خطاب کے دلچسپ کلپس بھی خوب وائرل ہوئے ۔ جن میں پہلا تویہ والا کلپ تھا جس میں خود انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کی اتنی طویل سیاست کرنے کے نتیجے میں اب انہیں یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ وزیر اعظم بن چکے ہیں ، یہ بات انہیں اُن کی اہلیہ توجہ کی صورت بتاتی ہیں (جب وہ ٹی وی اسکرین پر عوام پر ہوتے مظالم کی خبریں دیکھ کر غصہ ہوتے ہیں)۔اب آپ اندازہ کر لیں وزیر اعظم نے تو انتہائی سادگی سے بات کہہ دی کیونکہ ویسے بھی وہ روز اول سے بغیر لکھی تقریر کے عادی ہیں لیکن اپوزیشن و مخالفین کے لیے اس ضمن میں کھیلنے کو اوپن گراؤنڈ مہیا کر دیا۔ویسے کچھ سروے ایسے بھی سوشل میڈیا پر سامنے آئے جن سے تحریک انصاف کی مقبولیت اور سو دن کی کار کردگی پر عوام کی اکثریت نے اظہار اطمینان کیا تھا۔اس تناظر میں ’’یو ٹرن‘‘ پر بھی بہت بات ہوئی ، کیونکہ ہمارے وزیر اعظم اس حوالے سے پہلے ہی ایک صفت برائے عظیم لیڈر کے طور پر پیش کر چکے ہیں۔
پھر سو دن کی تکمیل پر حکومت نے جو اشتہارات جاری کیے اُس پر تبصرہ کرتے ہوئے ثناء غوری لکھتی ہیں کہ ’’پی ٹی آئی کی حکومت کے سو دن مکمل ہونے پریہ اشتہار اخبارات میں چھپوایا گیا ہے۔ پہلے صفحے پر ”ہم مصروف تھے” لکھا گیا ہے نیچے نیاپاکستان دیکھنے کے لیے صفحہ پلٹنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اگلے صفحے پر نظر دوڑائیں تو سو دن میں اخبارات میں چھپنے والی حکومتی کارکردگی سے متعلق کٹنگز کو ڈیزائن کیا گیا ہے۔اکثر خبروں میں بیانات ہیں جنھیں عملی صورت دینے کے لئے ابھی تک کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی۔خیر امید ہے ہمیں ”سب اچھا ہے” انھوں نے اشتہار چھاپا ”وہ مصروف تھے” اب ہم بھی ”صرف” پڑھنے میں مصروف ہیں۔ایک بات اچھی ہوگئی اسی بہانے اخبارات کو حکومت کی طرف سے بڑے اشتہار کے بڑے دام مل گئے۔‘‘ اس طرح تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے اشتہار میں جو ٹیگ لائن استعمال کی ’’ ہم مصروف تھے ‘‘ یہ بھی خاصی تنقید کا نشانہ بنی ۔
عامر ملک لاہور سے لکھتے ہیں کہ ’’ہم_مصروف_تھے جھوٹ بولنے بھیک مانگنے، دنیا کے سامنے پاکستانیو کو شرمندہ کروانے، پروٹوکول لینے اپنے دوستوں کو نوازنے اور U Turns لینے میں۔جی ہاں یہ مصروف تھے پچھلی ساری حکومتوں کے ریکارڈ توڑتے ہوئے عوام پر مہنگائی کے بمب گرانے،غریب کے گھر گرا کر ان کی روزی چھیننے میں ۔جی یہ بہت مصروف تھے ۔‘‘
ایسا نہیں کہ ایک جانب صرف تنقید ہوتی رہی ہو بلکہ تحریک انصاف کی جانب سے اور حکومتی مشینری کی جانب سے بھی اقدامات اور آئندہ پالیسیز کی خوب تشہیر کی گئی ۔
اسی طرح تقریر میں دیہی خواتین کومعاشی طور پر مستحکم کر نے کے لیے پیش کردہ پلان پر بھی خوب مذاق بنا،’’ایٹمی پاور ملک کے ویژنری وزیراعظم کپتان صاحب سو دن سوچنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب تک مرغیاں زیادہ انڈے نہ دیں گی، چوزوں کو ٹیکیں نہ لگے گے اور بھینس اپنے کٹے کو بھی دودھ پلانا شروع نہ کرے گی ملکی معیشت ٹھیک نہ ہو گی۔
کاش اسی ویژن کو سامنے رکھتے ہوئے کپتان ایک اووئے کہہ کر دھمکی بھی لگا دیتے کہ اگر مرغیوں نے زیادہ انڈے نہ دئیے اور بھینس نے کٹے کو دودھ نہ پلایا تو دونوں کو کرپشن میں نیب کے حوالے کر دیں گے، اس طرح شائد ڈر کر دونوں ویژن پر تیزی سے عمل شروع کر دیتے۔ا ف ف ف۔۔ لیٹرینیں بنوانے سے شروع ہونے والا ویژن کٹے تک آن پہنچا ہے،آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا؟‘‘
اسلام آباد سے طارق حبیب لکھتے ہیں کہ ’’میرے وزیر اعظم کا وژن ہم کٹوں کو سبسڈائیز کریں گے۔کروڑوں مرغیاں۔۔۔اربوں انڈے۔بس میرا کپتان کھربوں آملیٹ کہنا بھول گیا۔جلد نئی وزارتیں قائم ہونگی۔وفاقی وزیر برائے بہبودِ کٹاجات ۔وزیرِ مملکت برائے ترویجِ انڈا اسکیم ۔‘‘

حصہ