سیدہ عنبرین عالم
انیلا کی شادی کو ایک مہینہ ہوچکا تھا، امی نے کہہ کر بھیجا تھا کہ ساس کے رنگ ڈھنگ اختیار کرلو گی تو سُکھی رہو گی، ورنہ وہ تمہارے ہر کام میں کیڑے نکالیں گی۔ اس لیے انیلا نے ساس کو نظر میں رکھا اور اُن کے انداز و اطوار نوٹ کرتی رہی۔ اس نے دیکھا کہ ساس صاحبہ وظیفوں کی بہت شوقین ہیں، صبح فجر کی سنت پڑھ کر 41 بار سورۃ فاتحہ پڑھتیں اور پانی کے کولر کو دھوکر پانی بھر کر اس میں پھونک دیتیں، سارا دن اسی پانی میں خوب برف ڈالی جاتی اور سارا گھر یہی پانی سارا دن پیتا رہتا۔ ناشتے کے بعد سورۃ رحمن، سورۃ مزمل، سورۃ مُلک، سورۃ واقعہ باقاعدگی سے پڑھتیں اور گھر کے ہر فرد پر پھونکیں مارتی پھرتیں۔ کھانا پکانے کا طریقہ یہ تھا کہ انیلا اور اس کی نند سبزیاں کاٹ کر دیتیں۔ گوشت کاٹنا، دھونا، روٹی پکانا، میٹھا بنانا… مگر ہنڈیا ساس ہی چڑھاتیں، کیوں کہ گھر والوں کو کسی اور کے ہاتھ کا ذائقہ پسند نہیں تھا۔ ظہر تک کھانا پکا کر فارغ ہوجاتیں، پھر لاحول ولا قوۃ کی تسبیح، آیتِ کریمہ کی تسبیح اور نہ جانے کیا کیا دو بجے تک پڑھا جاتا۔ دو بجے دکان سے سب مرد آجاتے اور کھانا ہوتا۔ مرد واپس دکانوں کو گئے نہیں کہ انیلا اور اس کی نند صفائیوں میں لگ جاتیں، اور ساس صاحبہ کم از کم ایک پارہ ختم کرکے سو جاتیں۔ تمام خاندان میں بڑی نیک مشہور تھیں، محلے کی عورتیں بھی تعویذ اور وظیفے لے جاتی تھیں۔
’’نجمہ! تم یاودود کو 1100 بار پڑھ کر پانی پر پھونک دیا کرو، وہی پانی گھر کے سب لوگ سارا دن پئیں گے تو لڑائی جھگڑے گھر سے ختم ہوجائیں گے۔‘‘ انیلا کی ساس نے اپنی پڑوسن کو مشورہ دیا اور پڑوسن نے فوراً لکھ لیا۔
’’آپا! آپ نے شادی کے لیے جو 22 رمضان کے وظیفے دیے تھے، وہ تین سال سے کررہی ہوں، اب تک میری چاروں بچیاں بیٹھی ہوئی ہیں، کیا کروں؟‘‘ پڑوسن نے شکوہ کیا۔
’’ایسا کرو ایک اور وظیفہ بتاتی ہوں، عصر کے بعد روز تین بار سورۃ مریم پڑھو، پڑھ کر چاروں بچیوں پر دَم کرو بلکہ پانی میں پھونک مارکر وہ پانی بچیوں پر چھڑکو، اور بچیوں سے کہنا کہ نماز کی پابندی کریں اور نماز کے بعد دعا ضرور کریں‘‘۔ ساس نے کہا۔
’’بہت شکریہ آپا جی! قسم سے بڑی پریشان ہوں میں‘‘۔ پڑوسن نے اٹھتے ہوئے کہا۔
انیلا ساری گفتگو سن رہی تھی، وہ پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ پڑوسن کے جانے کے بعد ساس صاحبہ فارغ ہوئیں تو انیلا نے پوچھا ’’اماں! اگر یاودود کی تعداد 1300 کرلیں یا 900 کرلیں تو کیا کوئی فرق پڑے گا؟ آپ کو 1100 کی تعداد کس نے بتائی؟‘‘
’’میں نے تو وظیفوں کی کتاب میں پڑھا تھا، بتا دیا، میرا کیا فائدہ!‘‘ انیلا کی ساس نے کہا۔
’’جس نے وظیفے کی کتاب لکھی اُس کو کس نے بتایا؟ کیا قرآن یا حدیث میں حکم ہے؟‘‘ انیلا نے پوچھا۔
’’ارے! قرآن و حدیث میں کہاں اتنے وظیفے ہوسکتے ہیں! آج کل تو ہر کام کے لیے، ہر بیماری کے لیے، ہر پریشانی کے لیے نیا وظیفہ دستیاب ہے، اسے روحانی علاج کہا جاتا ہے، اور دھڑادھڑ مولویوں، پیروں، فقیروں کے ہاں سے وظیفے اور تعویذ تجویز کیے جاتے ہیں۔ اب تو ٹی وی پر بھی وظیفوں والے مولوی بیٹھنے لگے ہیں‘‘۔ انیلا کی ساس نے تجزیہ پیش کیا۔
’’تو یہ وظیفے کون بنا رہا ہے کہ یاودود سے صرف اسی وقت فائدہ ہوگا جب وہ 1100 کی تعداد ہی میں پڑھا جائے اور پانی پر پھونک کر ہی پیا جائے۔ اگر ایک شخص اٹھتے بیٹھتے اس اسم مبارک کا ورد رکھے، اللہ کو یاد کرتا رہے تو کیا اس کا دل نرم نہیں ہوگا؟‘‘ انیلا نے پوچھا۔
’’کیا پتا کس چیز سے فائدہ ہو۔ اب دیکھو ناں ایسا تیر بہ ہدف وظیفہ ہے 21 اور 22 رمضان کی درمیانی شب کا شادی کے لیے، مگر نجمہ کی بیٹیوں کا کچھ نہیں ہوتا‘‘۔ انیلا کی ساس نے کہا۔
’’شادی کا یہ وظیفہ کیا ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے؟‘‘ انیلا نے پوچھا۔
’’نہیں… نہیں ایسی بات نہیں ہے، یہ وظیفہ تو علمائے کرام کی کوشش ہے‘‘۔ انیلا کی ساس بولی۔
’’کون سے علمائے کرام؟ کسی ایک کا نام بتادیں۔ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے یہ وظیفے پھیلائے گئے ہیں جن کی کوئی شرعی بنیاد نہیں، اور مخصوص سورتیں پڑھنا بھی وظیفوں کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ جہاں تک نجمہ آنٹی کی بیٹیوں کی شادی کا تعلق ہے، وہ جب تک یہ ضد نہیں چھوڑیں گی کہ لڑکے کا اپنا مکان ہو، ان کی بیٹیوں کی شادی نہیں ہوسکتی۔ آج کل اپنا مکان آسان بات نہیں، اس میں وظیفے کا کیا کام؟‘‘ انیلا نے اپنی رائے دی۔
’’بات تمہاری ٹھیک ہے بیٹا! نجمہ کی ضد سے کام بگڑا ہوا ہے۔ لیکن دیکھو ہم اگر مخصوص سورتیں روز پڑھ رہے ہیں یا اللہ کے نام اور آیتوں کا ورد کررہے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے! یہ سب تو عبادت میں ہی شمار ہوگا۔ اللہ کا ذکر ہی تو ہورہا ہے‘‘۔ انیلا کی ساس نے کہا۔
’’نہیں اماں! رشتے کے لیے 21 رمضان کی رات کو عبادت کرنا، شب قدر کی عبادت نہیں ہوگی۔ وہ رشتے کے لیے عبادت ہورہی ہے۔ یاودود 1100 بار پڑھنا، حساب کتاب کی ایسی مخصوص عبادت کا مقصد اپنے گھر کے حالات ٹھیک کرنا ہے۔ اللہ کی عبادت ہوتی تو بغیر حساب کتاب ہوتی، عشق کے ساتھ ہوتی۔ ذاتی مقاصد کے لیے خود سے یہ فیصلہ کرنا کہ یہ آیت اتنی بار پڑھ کر پھونک مارنی ہے یا پانی چھڑکنا ہے، تو یہ سب کس نے سکھایا؟‘‘ انیلا اپنی بات پر قائم تھی۔
’’بیٹا! ہماری تو اماں نے عادت ڈالی کہ یہ سورتیں ضرور پڑھنی ہیں‘‘۔ انیلا کی ساس نے بتایا۔
’’اچھی عادت ڈالی ہے۔ اب آپ بتایئے سورۃ الملک میں اللہ نے اپنی کن کن نعمتوں کا ذکر کیا اور کن کن باتوں سے روکنے کی کوشش کی؟‘‘ انیلا اچانک پوچھ بیٹھی۔
’’مجھے کیا پتا؟ مجھے کون سا عربی سمجھ میں آتی ہے، البتہ زبانی یاد ہے سورۃ الملک‘‘۔ ساس نے کہا۔
’’اماں! آپ 60 سال سے روز سورۃ الملک پڑھ رہی ہیں، آپ اسے عبادت بھی سمجھتی ہیں، مگر آپ کو یہی نہیں معلوم کہ اس سورۃ میں اللہ پیغام کیا دے رہا ہے۔ یعنی آپ کا اور اللہ کا تو رابطہ ہی نہیں ہوا۔ یہ کیسی عبادت ہے، صرف رٹّا… ایک عادت… خانہ پُری؟‘‘ انیلا نے کہا۔
’’بیٹا! تم تو میری عمر بھر کی عبادت کو خاک کیے دیتی ہو‘‘۔ اس کی ساس تاسف سے بولیں۔
’’اماں وہ عبادت تھی ہی نہیں، مطلب پرستی تھی۔ آپ فجر میں سورۃ فاتحہ اپنے گھر والوں کی صحت کے لیے پڑھتی ہیں اللہ کو راضی کرنے کے لیے نہیں، آپ سارے وظیفے کسی نہ کسی مقصد کے لیے پڑھتی ہیں، آپ کی طلب میں اللہ شامل نہیں ہے، دنیاوی حاجتیں ہیں‘‘۔ انیلا نے جواب دیا۔
’’بیٹا! پھر کیا دنیاوی حاجتوں کے لیے کسی بت کو آرتی چڑھائوں؟ میں مسلمان ہوں، اللہ کے کلام سے ہی تو دنیاوی حاجتیں پوری کروں گی، مزاروں پر بھی نہیں جاتی؟‘‘ انیلا کی ساس نے کہا۔
’’بالکل درست فرمایا آپ نے، دنیاوی حاجتیں اللہ ہی سے مانگی جائیں گی، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے دعا کا طریقہ تجویز فرمایا ہے، قرآن میں لکھا ہے کہ تم مانگو، میں دوں گا، لیکن عبادت خالص اللہ کے لیے ہوگی۔ دنیاوی حاجات مانگنے کے لیے عبادات کا، اذکار کا مقصد تبدیل کردینا نہ قرآن نے سکھایا، نہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ یہ گنتیاں، حساب کتاب کی عبادت، کام نہ ہو تو وظیفے سے بھی ناراض، وظیفے بتانے والے سے بھی ناراض، اللہ سے بھی ناراض… پھر نئے نئے وقت پر وظیفے کے لیے ایجاد، نئے نئے طریقے پر وظیفے کے لیے ایجاد، یوں پھونکنا، یوں پانی چھڑکنا… یہ سب کب دین میں داخل ہوگیا!‘‘ انیلا نے کہا۔
’’مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قرآن پڑھنے کے ایک ایک حرف کے بدلے دس دس نیکیاں ملیں گی، اس لیے ہم قرآن پڑھتے رہتے ہیں، ترجمہ، تفسیر پڑھ کر کیا ملے گا؟‘‘ انیلا کی ساس نے عجیب بات کہی۔
’’اماں! آپ دیکھ رہی ہیں کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہتے کیا تھے، یہ بھی تو دیکھیے کہ وہ کرتے کیا تھے۔ کیا وہؐ اور صحابہؓ سارا دن آپ کی طرح ہل ہل کر قرآن اور وظیفے پڑھتے رہتے تھے کہ ایک ایک حرف کا ثواب اٹھا لیں! یا وہ اس قرآن کو تمام عرب پر رائج کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ وہ لوگوں کو گھٹنے کے درد اور رشتوں کی دستیابی کے وظیفے بتاتے تھے؟ یا انہوں نے پورے عرب کی قسمت بدل دی۔ پیارے نبیؐ اپنے پاس آنے والوں کو تعویذ دیتے تھے؟ یا ان کے کردار تبدیل کردیتے تھے۔ درست ہے کہ ایک ایک حرف کا ثواب ملتا ہے، مگر سمجھ کر عمل کرنے سے‘‘۔ انیلا نے سمجھایا۔
’’واقعی ان باتوں پر تو میں نے آج تک غور ہی نہیں کیا‘‘۔ اس کی ساس بات سمجھ گئیں۔
’’آپ اتنے عرصے سے سورۃ فاتحہ پڑھ کر سب کو پلاتی ہیں، مگر گھر کا ہر فرد بیمار ہے کہ نہیں؟ آپ دوسروں کو رشتوں کے وظیفے بتاتی ہیں مگر آپ کی بیٹی بن بیاہی بیٹھی ہے۔ ابا اور ان کے سارے بھائی کاروبار کے لیے پریشان ہیں، حالانکہ آپ یقینا کاروبار کی بھلائی کے لیے بھی وظیفے کرتی ہوں گی۔ یہ سب عبادت ضائع گئی، کیوں کہ یہ اللہ کے لیے نہیں تھی، ذاتی مفادات کے لیے تھی۔ وہ ذاتی مفادات بھی حاصل نہیں ہوئے۔ یوں تو ہندو بھی مالا جپتے ہیں، طرح طرح کے جاپ کرتے ہیں، کئی ٹونے ٹوٹکے کرتے ہیں۔ کیا ہم میں اور اُن میں کوئی فرق نہیں!‘‘ انیلا نے کہا۔
’’ہاں جس دن عبادت خالص اللہ کے لیے ہوگی تو اللہ بھی ہماری دعائیں سننے لگے گا، ہمیں بھی رحمتیں اور برکتیں حاصل ہوں گی، ہمیں بھی اللہ کی رضا میں راضی ہونا آجائے گا‘‘۔ ساس نے کہا۔
’’اماں! چند تسبیحات وغیرہ ایسی ہیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم فرمائی ہیں، وہ ضرور پڑھنی چاہئیں جیسے تسبیح فاطمہ، نماز کے بعد یا سونے سے پہلے معوذتین، آیۃ الکرسی پڑھنا۔ لیکن وظیفوں کو دین بنا لینا اور اصل اسلامی نظام اور اخلاقیات کو نظرانداز کردینا کسی طور بھی میرے نبیؐ کی تعلیمات کا حصہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ انیلا نے مزید کہا۔
’’بیٹا! ہم تو چاہتے ہیں کہ کسی کا بھلا ہوجائے، اس لیے وظیفے بتا دیتے ہیں‘‘۔ انیلا کی ساس نے کہا۔
’’تو اماں! آپ باقاعدگی سے قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنا شروع کردیں، میں بھی آپ کی مدد کروں گی، پھر آپ وہی سب محلے کی عورتوں کو پڑھائیں، سب ماشاء اللہ آپ کی عزت کرتی ہیں، آپ پڑھائیں گی تو سب پڑھنے آئیں گی، آپ بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہماری خواتین کے کردار بدلیں، اسلامی طور طریقے سکھائیں، اللہ سے مخلوق کا رابطہ کرائیں۔ کوئی وظیفے کرے تو اتنا ثواب نہیں ملے گا جتنا ثواب آپ کو اللہ اور بندے کے بیچ میں تعلق استوار کروانے سے ملے گا۔ یہ سب سے زیادہ نیکی کا کام ہے اماں۔‘‘ انیلا نے ساس کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’اب اس عمر میں مجھے کیا سمجھ آئے گا، کیا پڑھوں گی اور کیا پڑھائوں گی!‘‘ انیلا کی ساس نے کہا۔
’’ارے اماں آپ کتنی قابل ہیں آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے، آپ یہ کرسکتی ہیں‘‘۔ انیلا نے کہا۔
ساس ہنس پڑھیں ’’اچھا یہ بتا، تُو نے کتنا ترجمہ تفسیر پڑھ رکھا ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’ہم تو بچپن سے پڑھ رہے ہیں، مودودیؒ صاحب کی تفاسیر تو ازبر ہیں، یسرالقرآن بھی بہت پڑھی، پھر جو درس ہوتے ہیں ان میں بھی باقاعدہ شرکت کرتی رہی ہوں، کئی بار تو اپنے کالج کے میلاد وغیرہ میں درس بھی دے چکی ہوں‘‘۔ انیلا نے بتایا۔
’’تو میری پیاری بیٹی! یہ کام شروع کیوں نہیں کرتی! میں بلائوں گی تو محلے کی سب عورتیں آجائیں گی، تم ہفتے میں ایک بار قرآن پڑھا دیا کرو‘‘۔ انیلا کی ساس نے پیار سے کہا۔
’’آپ کو برا نہیں لگے گا؟ میری امی تو کہہ رہی تھیں کہ آپ کے طریقے پر نہ چلی تو آپ میرے ہر کام میں نقص نکالیں گی اور مجھے بہت تنگ کریں گی‘‘۔ انیلا نے سادگی سے کہا۔
اس کی ساس نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہا ’’ہاں بھئی! اب تم روز میرے ساتھ وظیفے پڑھو گی تو تمہیں کھانا ملے گا، ورنہ بھوکی پڑی رہو، میں بہت ظالم ساس ہوں‘‘۔
’’نہیں اماں! آج کل کون بہو کی اتنی باتیں سنتا ہے، جو آپ نے سن لیں‘‘۔ انیلا نے جواب دیا۔
’’بیٹا! ہدایت کی طلب جن کے دلوں میں ہوتی ہے وہ سب کی سن لیتے ہیں، ہاں کوئی سوچ کے بیٹھ جائے کہ میرے سوا کوئی صحیح نہیں تو اصلاح ممکن نہیں رہتی‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’آپ بہت اچھی ہیں، ان شاء اللہ میں آپ کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑوں گی چاہے آپ کی ساری بہوئیں چلی جائیں، میں آپ کی بیٹی ہوں، آپ کے ساتھ رہوں گی‘‘۔ انیلا نے ملائمت سے کہا۔
’’بیٹی ہو تو بات مانو، اگلی جمعرات سے محلے کی عورتوں کو قرآن پڑھانا شروع کردو، مگر ایک دم انقلابی باتیں کرنا ٹھیک نہیں، گھریلو سادہ عورتیں ہیں، ان کی سطح کے مطابق ان کو لے کر چلو، ایسی باتیں نہ کرو جو انہیں غلط لگیں، ایک دم وظیفوں کو غلط نہ کہہ دینا، یہ عورتیں دانت کے درد سے لے کر نند کو ٹھکانے لگانے تک سارے کام وظیفوں سے ہی کرتی ہیں، ان کو آہستہ آہستہ لے کر چلو‘‘۔ ساس نے اسے پیار سے سمجھایا۔
’’جی امی! علم میرا اور سمجھ داری آپ کی، ان شاء اللہ ہمارا مشن ضرور پورا ہوگا، ہم لوگوں کو خالص عبادت کرنا سکھائیں گے، اللہ کے لیے خالص‘‘۔ انیلا نے کہا۔
’’ان شاء اللہ ضرور‘‘۔ اس کی ساس نے تائید کی۔