شریکِ مطالعہ

577

نعیم الرحمن
سید کاشف رضاکی ادبی حلقوں اور دوستوں میں پہچان نثری نظم اور انگریزی ادب کا بے پناہ مطالعہ رہی ہے۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’’محبت کا محلِ وقوع‘‘ اور ’’ممنوع موسموں کی کتاب‘‘ شائع ہوکر قارئین کی بھرپور داد حاصل کرچکے ہیں۔ 1973ء میں پی اے ایف بیس سرگودھا میں پیدا ہونے والے سید کاشف رضا چوتھائی صدی سے کراچی میں مقیم ہیں۔ ان کا بچپن والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ پاک فضائیہ کے مختلف مراکز میں گزرا جہاں ان کے والد ملازم تھے۔ انہوں نے راولپنڈی سے بی اے کرنے کے بعدکراچی یونی ورسٹی سے پہلے انگریزی ادب اور پھر انگریزی لسانیات میں ایم اے کیا۔ وہ بطور صحافی دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہیں۔ سید کاشف رضا کا حلقہ احباب ان کے انگریزی ادب کے وسیع مطالعے سے واقف ہے، لیکن انہوں نے اردو میں منفرد ناول لکھ کر حیران کردیا۔
اوّلین ناول سے قبل سید کاشف رضا نے نوم چومسکی کی دو کتابوں کے تراجم ’’دہشت گردی کی صحافت‘‘ اور ’’گیارہ ستمبر‘‘ کے نام سے کیے، تاہم یہ اُن کے مزاج اور فکر سے ہم آہنگ موضوع تھے۔ وہ محمد حنیف کے مشہور ناول A case of Exploding Mangoes کا ترجمہ بھی کررہے ہیں۔ میلان کنڈیرا کے ناول The Joke کا ترجمہ بھی مکمل کررہے ہیں۔ دونوں تراجم کاکچھ حصہ ادبی جریدے ’’آج‘‘ میں شائع ہوچکا ہے۔ غرض بھرپور ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ پھر ’’آج‘‘ میں ان کی طویل سفری کہانیاں شائع ہوئیں اور قارئین کو سفرنامے کے ایک نئے لطف سے آشنا کیا۔
سید کاشف رضا کے پہلے ناول ’’چار درویش اور ایک کچھوا‘‘ نے ادبی جریدے ’’آج‘‘ میں شائع ہوکر دھوم مچائی۔ اسے کتابی شکل میں مکتبہ دانیال نے بہت خوب صورت انداز میں شائع کیا ہے۔ 330 صفحات کے ناول کی قیمت 595 روپے ہے۔ ناول کے لیے انہوں نے اردو ادب کی منفرد تیکنیک برتی ہے۔ اس اسٹائل کو بجا طور پر ’’اردو ادب میں جادوئی حقیقت نگاری‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ناول کے ابتدائیہ میں مصنف انوکھا سوال اٹھاتا ہے کہ ’’پتا نہیں کب انسانوں نے طے کیا تھا کہ کہانی کو بیان کرنے کے لیے کسی نہ کسی راوی کی موجودگی ضروری ہے۔ مگر ایک کہانی کو ایک راوی کیسے بیان کرسکتا ہے؟ کہانی تو ہر سمت سے دکھائی دیتی ہے، تو پھر اس کے بیان کے لیے ایک عدد راوی کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ میرے سامنے میرے کردار اپنی اپنی کہانیوں کی پوٹلیاں اٹھائے موجود ہیں۔ میرے ذرا سے اشارے کے منتظرکہ میں ان پوٹلیوں میں سے زندگی کے رنگ برنگے ٹکڑے نکال کر انہیں دیکھنا دکھانا شروع کروں۔ لیکن کردار آپ کے سامنے بھی تو موجود ہیں، تو چلیے ان کی کہانی کو ایک ایسا دسترخوان سمجھیے جس پر میں آپ کو بھی دعوت اڑانے کی پیش کش کررہا ہوں۔ میں ان پوٹلیوں میں سے زندگی کے جو رنگ برنگے ٹکڑے نکالوں اُن میں سے کچھ کو منظورکیجیے اور کچھ کو مسترد۔ اور منظور شدہ ٹکڑوں کو توڑ، موڑ اور جوڑ کر ہر کہانی کو خود ترتیب دینے اور اپنے طور پر دیکھنے دکھانے کی کوشش کر دیکھیے۔ میں خود ایک سامع بھی رہا ہوں جسے یہ جاننے کی جستجو رہی ہے کہ شہرزاد کے ساتھ ایک ہزار دوسری رات کو کیا ہوا۔ مجھے ایک حریص راوی بھی سمجھ لیجیے جس نے بیان کے ہر ہر طریقے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا ہو۔ ایک حریص راوی کو کسی حریص سامع سے زیادہ کسی کی تلاش نہیں ہوتی۔ سو میری اس حرص میں آپ بھی شریک ہوجائیں تو مل جل کر دعوت اڑانے کا سا مزا آجائے۔ اب آغاز قصے کا کرتا ہوں، ذرا کان دھر کر سنو اور منصفی کرو۔‘‘
کیا انوکھا اور قدیم داستانی انداز ہے۔ ناول اس ابتدائیہ کے ساتھ ہی قاری کی پوری توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ’’چار درویش اور ایک کچھوا‘‘ کے چھ ابواب ہیں جن میں سے پانچ روایتی قصہ چار درویش کی مانند ہیں۔ چار درویش جاوید اقبال، آفتاب اقبال، بالا دی ویجی گاٹ اور ان تینوں کے والد تحصیل دار اقبال محمد خان، اور پانچواں باب کچھوے ارشمیدس کے بارے میں ہے، جس کے متعلق سید کاشف رضا نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’میں نے زیادہ تر ناول انگریزی میں پڑھے ہیں، ان میں روسی، لاطینی، امریکن اور برٹش شامل ہیں۔ وہاں جنس کا بیانیہ اجنبی نہیں ہے۔ اردو میں جنس کا بیان خاصا ملفوف ہوتا ہے۔ مجھے لگا کہ مجھے ملفوف طرز سے ہٹ کر انگریزی ناولوں کے طرز کی پیروی کرنا چاہیے۔ میں نے اس مشکل کو ایسے حل کیا کہ ایک کردار کچھوا تخلیق کیا، وہ جنس کے بیان پر تنقید کرتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ اسے انگریزی میں ایسے بیان کیا جا سکتا تھا۔ ناول کی کئی سطحیں ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں آدمی کو سمجھنے کے لیے اس کی جنسیت کو بھی سمجھنا ضروری ہے، اور معاشرے کی نمائندگی بھی کرنی ہے، اور یہ معاشرے کے جنسی رجحانات کی عکاسی بھی کرتی ہے، بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ میں معاشرے کی جنسیت کے رجحانات جیسے دکھانا چاہتا تھا وہ ابھی تشنہ رہ گئے۔‘‘
سید کاشف رضا کی کردار نگاری بے مثال ہے۔ چار بنیادی کرداروں کی مکمل اور بھرپور شخصیت اور ان کی خامیاں اور خوبیاں انہوں نے بہت عمدگی سے پیش کی ہیں۔ ناول میں سیاسی، مذہبی، معاشرتی، طبقاتی، جنسی غرض ہر موضوع کو چند مخصوص کرداروں کے دائرے میں بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ خصوصاً متنازع موضوعات کا ذکر کاشف رضا نے بڑی خوبی اور بے باکی سے کیا ہے۔ ایک اچھے مصنف کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ جو کہنا چاہتا ہے کسی نہ کسی انداز میں کہہ گزرے۔ چھٹے باب ’’ستائیس دسمبر اور اس کے بعد‘‘ نے ناول کو بہت عمدگی سے اختتام تک پہنچایا ہے۔ بہت کم ناولوں اور ڈراموں میں اس طرح ہر کردار کا واضح اور منطقی انجام پیش کیا جاتا ہے جس طرح ’’چار درویش اور ایک کچھوا‘‘ میں پیش کیا گیا ہے۔ سید کاشف رضا کا وسیع مطالعہ، ہر باب کے آغاز میں ژاں بودریاغ کے جملے، مختلف ناولوں، فلمی سین اور مصنفین کا ذکرکمالِ مہارت سے کہانی کو بیان کرنے یا آگے بڑھانے میں استعمال کیا گیا ہے۔ ہرکردار اپنی جگہ مکمل ہے اور اس کے حوالے سے آنے والی تفصیلات اس کی شخصیت کے خدوخال قارئین پر واضح کردیتی ہیں۔ جاوید، آفتاب دو مختلف ماؤں سے اقبال محمد خان کے بیٹے، جبکہ بالا اس کی غلط کاریوں کا نتیجہ ہے۔ چاروں کردار، کچھوا، ارشمیدس اور راوی بھی ایک کردار کی صورت پورے ناول میں موجود ہیں اور اسے قدیم داستان گوئی خصوصاً قصہ چار درویش سے منسلک کرکے اس کی دل چسپی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس قسم کے کردار حقیقی زندگی میں ہمارے اردگرد ہی موجود ہیں، بس دیکھنے والی آنکھ ہونی چاہیے۔ واقعات بھی ہمارے جانے پہچانے سے ہیں۔ بقول سیف الدین سیف ’’سیف اندازِ بیان رنگ بدل دیتا ہے، ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں‘‘۔
ناول کا پہلا باب ’’جاویداقبال‘‘ کے بارے میں ہے، جو ٹی وی چینل میں رپورٹر ہے اور کرینہ کپورکا شیدائی ہے جس کی تصاویر اس کے پورے فلیٹ میں لگی ہیں، جہاں وہ تنہا رہتا ہے۔ صادق بھائی ناول کا عجیب وغریب کردار ہے، جس کے خواب حقیقت میں ڈھل جاتے ہیں۔ اپنے متعلق صادق کا خواب اسے حیران کر دیتا ہے۔ جاوید کو ٹی وی چینل میں ساتھی مشعال بے حد پسند ہے اور اس کے مثبت ردِعمل سے وہ بے حد خوش ہے۔ مشعال کو اینکر بننے کا موقع ملتا ہے تو اس کے عزائم میں اضافہ ہوجاتا ہے، لیکن وہ اپنے ظاہرکے برعکس پختہ کردار کی مالک ہے۔ جاوید اقبال کے حوالے سے ان کی والدہ سلطانہ بیگم کا ایک دل چسپ پیرا بھی چشم کشا ہے۔ والدہ جاوید سے دور رہتی تھیں، لیکن انہیں بیٹے کی لڑکیوں سے دل چسپی کا علم ضرور تھا، جس نے اپنے کارناموں کا آغاز اسکول سے ہی کردیا تھا۔ ان دنوں وہ اپنے شوہر سے الگ ہوکر اپنی امی کے ہاں رہ رہی تھیں۔ علیحدگی کا سبب گھر ہی میں شوہر کو ایک عورت کے ساتھ نازیبا حالت میں دیکھنا تھا۔ اب جب بیٹے نے گل کھلایا تو انہیں غصے کے بجائے احساسِ تفاخر ہوا۔ یہاں ماؤں کے بیٹوں کی غلط کاریوں کی پردہ پوشی اور بڑھاوا دینے کے عمل کو واضح کیا گیا ہے۔
ناول کا دوسرا باب دوسرے درویش آفتاب اقبال کے بارے میں ہے، جو اقبال محمد خان کی پہلی بیوی امتہ الکریم سے بڑا بیٹا ہے۔ امتہ الکریم کی تین بیٹیاں بھی ہیں۔ امتہ الکریم کی خودداری نے سابقہ شوہر سے بچوں کی پرورش کے لیے بھی کچھ لینا گوارا نہ کیا۔ 42 سالہ آفتاب یونیورسٹی میں پروفیسر اور عملاً مذہبی جھمیلوں سے دور ہے۔ اس کی ذہانت اور فکری نشوونما کوکلاس میں دل چسپ اور فکر انگیز مکالمے میں افلاطون اور ارسطو کے تصور ممیسس کے بارے میں گفتگو کے ٹکڑے سے اجاگر کیا گیا ہے۔ آفتاب طلبہ کو بتاتے ہیں کہ حقیقت کی نمائندگی یا ری پریزنٹیشن ایک بہت لیئرڈ کانسیپٹ ہے۔ یعنی اس کی بہت سی تہیں اور بہت سے آسپکٹس ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ایک واقعہ دیکھ رہے ہوں اور آپ کو اسے بیان کرنے کو کہا جائے تو سب کا بیان الگ الگ ہوگا۔ کسی کوکوئی چیز اہم لگی ہوگی اورکسی کو کوئی اور چیز۔ ریالٹی کی نمائندگی میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ نمائندگی یاری پریزنٹیشن کون کررہا ہے۔
اس قسم کی فلسفیانہ بحث کو بھی دل چسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے جس سے نہ صرف ناول کی دل چسپی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ قاری کے علم میں بھی کشادگی آتی ہے۔ 42 سالہ آفتاب کی دیدہ زیب شخصیت اور ذہانت سے متاثر 26 سالہ شاگرد سلمیٰ ان کی محبت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ کنوارا آفتاب بھی اس سے متاثر ہوتا ہے۔ سلمیٰ امیر والدین کی اولاد ہے۔ سلمیٰ کے والدآفتاب سے فوری مستعفی ہونے کا کہتے ہیں اور وہ چپ چاپ ایسا ہی کرتا ہے۔ لیکن سلمیٰ کالج لیکچرار بننے اور خودمختار ہونے کے بعد آفتاب سے شادی کرلیتی ہے۔ تب ایک ہجوم ان کے گھر پر حملہ آور ہوتا ہے اور وہ دونوں بہ مشکل اپنی جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔ ناول کے اس حصے میں ہمارے کردارکی بوالعجبیوں اور قول و فعل کے تضاد کو واضح کیا گیا ہے۔
آفتاب شاگردوں سے بات چیت میں کہتا ہے کہ ’’تو دیتے ناں عورتوں کو عزت! تو پیدا کرتے ناں مساوات! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو میثاقِِِ مدینہ میں مسیحیوں کو برابر کا شہری قرار دیا تھا ناں، تو غیر مسلموں کو برابر کا شہری کیوں نہیں سمجھتے مسلمان؟ غلامی کا انسٹی ٹیوشن ختم کرنے کے لیے بھی ابراہام لنکن کو آنا پڑا۔ عورتیں ہیں تو بے چاری ذلیل ہورہی ہیں، کسی غیرت مند بھائی سے اتنا نہیں ہوتا کہ والدین کے مرنے کے بعد جائداد میں سے شریعت کے مطابق بہنوں کا حصہ ہی انہیں دے دے۔ سب بے شرمی سے اسٹامپ پیپر لے کر بہنوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں کہ اپنا حصہ ہمارے نام کردو، چودہ سو سال تک مسلمان اس بات پرکشت وخون کرتے رہے کہ کسی بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کا کون سا بیٹا بادشاہ بنے گا؟ ارے بھئی! کوئی قانون بنادو کہ باپ کے بعد سب سے بڑا بیٹا بادشاہ بنے گا۔ ویسٹ بھی تو ہے جنہوں نے ٹرائل اینڈ ایرر کے بعد منصفانہ انتخاب کا طریقہ سوچ لیا… اور بادشاہ؟ یہ کہاں سے آگئے اسلام میں؟ اسلام میں تو سب برابر تھے، پھر ملوکیت کہاں سے آگئی اسلام میں؟‘‘
اس قسم کی فلسفیانہ گفتگو اور دیگر مصنفین کے اقتباسات سے سید کاشف رضا نے اپنے قاری کی ذہنی تربیت کرنے کی بھی کوشش کی ہے، اور یہ سب کسی بے زار کن لیکچرکی شکل میں نہیں ہے، بلکہ یہ ناول کی کہانی کو آگے بڑھانے میں مددگار ہیں جس سے ناول کی دلچسپی بھی قائم رہتی ہے۔ متنازع امورکی وضاحت کے لیے مصنف نے بڑی خوبی سے مختلف حوالے استعمال کیے ہیں۔ اسی باب میں پاکستان کی تاریخ کے اتفاقات کا مختصر ذکر دہراتے ہوئے مصنف بیان کرتا ہے کہ ’’اگر بھٹو گیارہ جرنیلوں کو سپر سیڈ کرکے ضیا الحق کو آرمی چیف نہ بناتا، اگر بھٹو مجیب الرحمن کو وزیراعظم تسلیم کرنے پر آمادہ ہوجاتا، اگر ایوب خان نے پاکستان میں سیاسی عمل روک کر مارشل لا نہ لگایا ہوتا، اگر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں لیاقت علی خان کو قتل نہ کردیا جاتا، اگر جناح قیام ِ پاکستان کے ایک سال بعد ہی انتقال نہ کرگئے ہوتے تو پاکستان کی تاریخ شاید مختلف ہوتی۔ اس قسم کی گفتگو اور پیراگرافس میں سید کاشف رضا اپنے سیاسی، مذہبی اور معاشرتی خیالات کا بڑی خوبی سے کسی تنازع میں پڑے بغیر اظہار کرتے ہیں۔
ناول کا تیسرا باب ارشمیدس کچھوے کے بارے میں ہے جسے ایک کردار کے طور پر پیش کرکے سید کاشف رضا نے کہانی آگے بڑھانے کا کام بڑی خوب صورتی سے لیا ہے۔ اس باب میں بہت سی اَن کہی نہایت عمدگی سے بیان کی گئی ہیں۔ کچھوا جاوید کو کیسے ملا، اس کے بارے میں پراسرار کہانی کچھوے کے گرد ایک غیر مرئی طلسماتی ہالہ قائم کردیتی ہے۔ راوی اور کچھوے کی بحث دل چسپ اور حقیقت کشا ہونے کے ساتھ مصنف کی ذہانت کی بھی آئینہ دار ہے، جس نے بہت سے مشکل مراحل کچھوے اور راوی کے بیان کی صورت میں بڑی آسانی سے طے کرلیے جس کے لیے وہ بھرپور داد کے حق دار ہیں۔ پہلے ہی ناول میں ان کا اعجازِ بیان حیران کن ہے۔
ناول کا تیسرا درویش اور چوتھا باب بالا دی ویجی گاٹ ہے۔ بالا، اقبال محمد خان کا ناجائز بیٹا، ایک دیہاتی عورت عالم گیر سے تعلقات کا ثمر ہے۔ وہ اپنے دوسرے بہن بھائیوںسے شکل میں مختلف، رنگ میں گورا اور اقبال محمد خان سے مشابہت پر ہمیشہ باپ اور بہن بھائیوں کی نفرت اور غلط رویّے کا شکار رہا ہے۔ اس ناروا سلوک کے باعث وہ گاؤں میں قتل کرکے بھاگ جاتا ہے۔ بالا گھر سے بھاگنے کے بعد مذہبی جہادی تنظیم کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ بالا کے کردار کے حوالے سے سید کاشف رضا نے جہادی تنظیموں کے طریقۂ کار، کم عمر بچوں کو ورغلانے، خودکش دھماکوں کو فضیلت کا روپ دے کر آمادہ کرکے جنت میں جانے اور وہاں حوروں اور دیگر سامانِ عیش حاصل کرنے کی ترغیب کمالِ مہارت اور اختصار سے بیان کی ہے۔ ناول کے مطابق بالا ہی بے نظیر بھٹو کی گاڑی سے باہر خودکش دھماکا کرتا ہے، لیکن بے نظیرگاڑی سے سر باہر نکالنے کی وجہ سے شہید ہوجاتی ہیں۔
ناول کا چوتھا درویش اقبال محمد خان پہلے تین درویشوں کا باپ ہے۔ اس کے کردار کی تشکیل اور کہانی کی تعمیر میں یہ باب بھی دل چسپ ترین ہے۔ اقبال کے عورتوں سے تعلق، دو بیویوں اور بچوں کی موجودگی میں دیگرخواتین سے روابط… ہر بات انتہائی دل چسپ، تہلکہ خیز اورعقدہ کشا ہے۔ ناول کی بے شمار پرتیں اور پہلو ہیں،کئی پیرے اتنے دل چسپ ہیں کہ قاری انہیں بار بار پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اور ہر پڑھت پر ایک نیا مفہوم سامنے آتا ہے۔
چھٹا اورآخری باب ’’ستائیس دسمبر اور اس کے بعد‘‘ میں تمام کڑیوں کو جوڑ کر ناول کے ہر کردار کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا ہے۔ بہت کم ناولوں میں اس طرح ہر پہلو کو اختتام پذیر کیا جاتا ہے۔ کوئی بات ادھوری نہیں چھوڑی گئی۔ یہ ناول کی بہت بڑی خوبی ہے کہ صفحۂ اوّل سے آخر تک قاری کی دل چسپی کا تارکہیں ٹوٹنے نہیں پاتا۔ ہر کردار حقیقت سے قریب تر، ہر واقعہ زندگی کے ایک نئے اَن کہے روپ کا عقدہ کشا ہے۔ اپنے پہلے ہی ناول میں اس کمال کے بیانیہ اور بے مثال مہارت پر سید کاشف رضا بھرپور مبارک باد اور ستائش کے مستحق ہیں۔ قارئین کو ان سے آئندہ ناول کے لیے توقعات بہت زیادہ ہوگئی ہیں۔ میری نظرمیں’’چاردرویش اور ایک کچھوا‘‘ اردو ادب میں جادوئی حقیقت نگاری کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ بقول مستنصرحسین تارڑ: ایک ناول تو بہت لوگ اچھا لکھ لیتے ہیں۔کسی مصنف کا اصل امتحان اس کے دوسرے ناول سے ہوتا ہے، اور یہ امتحان سید کاشف رضا نے ایک بے مثال ناول لکھ کر مزید مشکل بنالیا ہے۔

حصہ