دو روزہ میڈیا ورکشاپ برائے خواتین

335

عالیہ شمیم
سیکھنے کا عمل زندگی کے کسی بھی مرحلے میں نہیں رکنا چاہیے۔ جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے زیراہتمام دو روزہ علمی و فکری میڈیا ورکشاپ گزشتہ دنوں لاہور منصورہ کے آڈیٹوریم میں منعقد کی گئی۔ ڈپٹی سیکرٹری جنرل میڈیا ڈپارٹمنٹ ثمینہ قمر ناظمہ تربیت گاہ نے ہدایت برائے تربیت گاہ کی معلومات فراہم کیں۔
ورکشاپ کا پہلا لیکچر بعنوان ’’قرآن کا تصور ِابلاغ‘‘ مولانا غیاث محمد صاحب نے دیتے ہوئے کہا کہ یہ اس دور کا اہم ترین موضوع ہے۔ ابلاغ موجودہ دنیا کی ہی میراث نہیں بلکہ ازل سے ذریعۂ ہدایت اور اعلیٰ پیغمبری رہا ہے۔ پیغام پہنچانا اور اس کی ترسیل و ترویج ہی ابلاغ ہے۔ میڈیا کے کام کو قرآن کے رنگ میں رنگ کر استعمال کرکے دنیا میں سرخرو اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنی ہے۔ آپؐ نے ابلاغ کا کام کرنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے اُن کا احاطہ کرتے ہوئے ایک بات بھی ہو، پہنچا دی جائے۔ ڈھیروں باتیں جمع ہونے کا انتظار نہ کریں۔ خطبہ حجتہ الوداع میں آپؐ نے ابلاغ کی ذمے داری اپنی امت کو سونپتے ہوئے کہا کہ جو یہاں موجود ہیں وہ انہیں پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ یہ اپنی امت کے لیے آپ ؐ کی وصیت تھی۔ نوحؑ کی مثال سامنے رکھیے، ساڑھے 900 سال محنت کے باوجود کوئی تکبر اور بڑائی کا خیال نہیں آیا، بلکہ انہوں نے اللہ کے سامنے اپنی عاجزی کا اقرار کیا کہ اے میرے رب میں نے تو دن رات ایک کرکے انہیں تیری طرف بلایا… ذرا سی محنت اور جلدی رزلٹ، ورنہ دل خراب ہوجانا۔ دنیاوی نتیجے کے لیے نہ بے صبری، نہ قیادت پر عدم اعتماد، نہ نفس پر شیطان کی چالوں کا غلبہ ہوا۔ میڈیا کے کام میں بنا تحقیق وتصدیق خبروں کو آگے بڑھانا سخت گناہ کا باعث ہے۔ صحابہ کرامؓ نے اسماء الرجال کا علم ایجاد کیا، تحقیق کا نظام بنایا۔ معمولی چیزوں کو بھی بنا تحقیق آگے نہ بڑھائیں، یہ سخت گناہ ہے۔ گناہ گار سے نہیں، گناہ سے نفرت کرنی ہے۔ اسلام گناہ گار کو نہیں گناہ کو مٹاتا ہے اور اسی کی تلقین کرتا ہے۔ نفرت غریب سے نہیں غربت سے ہے۔ مولانا نے کہا کہ ہم فنونِ لطیفہ اور فن کو اسلام کے رنگ میں رنگیں گے۔ میڈیا ورکر اپنے میدان میں نظریۂ اسلامی اور بلند مقصدیت کو ملحوظ رکھے۔ ہر دور کی ایک بقرہ ہے (یعنی ہر دور میں لوگ کسی نہ کسی گائے کی پرستش میں مبتلا ہوتے ہیں اور اس بارے میں سوال جواب کرتے ہیں)، یہ بات یاد رکھیے کہ بقرہ کے پیچھے نہ لگیں اور اسے پہچانیں۔ بلاوجہ تنقید سے اپنا اور جماعت کا امیج خراب نہ کریں۔ جس طرح جیل میں قیدی وقت گزارتا ہے بعینہٖ مسلمان کو دنیا میں پابند زندگی گزارنی چاہیے، اپنے کام کا تجزیہ کرتے ہوئے قرآن و سنت سے رہنمائی لیتے رہنا چاہیے، اور اسلامی نکتہ نظر سے پرنٹ، الیکٹرانک وسوشل میڈیا کے باقاعدہ اصول و ضوابط مقرر کرتے ہوئے ابلاغ کا کام کرنا چاہیے۔
عالیہ منصور سیکرٹری جنرل میڈیا جماعت اسلامی حلقہ خواتین نے ’’ٹیم ورک میک دی ڈریم ورک‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ دو یا دو سے زائد افراد کا متعینہ وقت پر مربوط انداز سے کام کرنا ٹیم ورک ہے۔ ٹیم ورک کے ذریعے کم وقت میں اہداف بھی حاصل ہوجاتے ہیں اور کاموں میں برکت و خیر بھی ہوتی ہے۔ ٹیم ورک میں لگن فرد کو ماہر بنادیتی ہیے، لیکن اگر صرف ماہر ہوں اور کام کی لگن نہ ہو، نہ تقسیمِ کار ہو، آپس میں کوآرڈی نیشن نہ ہو تو نہ صرف کام سست پڑجاتا ہے بلکہ وہ ٹیم نہیں افراد کا ہجوم بن جاتا ہے۔ کام میں مہارت جذبہ، شوق و لگن سے بڑھتی ہے۔ سابقون کی تفسیر بنیں، اپنے آپ کو بچا کر نہ چلیں۔ ستائش و حوصلہ افزائی ضرور کیجیے لیکن غلو سے بچیے۔ گفتگو کا فن، مثبت رویہ لیڈر اور ٹیم اراکین دونوں کے لیے ضروری ہیں۔ بنیادی مقصد رضائے الٰہی ہے۔ دعوت کے ابلاغ کے ذریعے آخرت کی کامیابی کا اعلیٰ ہدف پیش نظر رہنا چاہیے۔ کاموں کی تقسیم ہر نگران کی ذمے داری ہے۔ اپنے دائرۂ اختیار میں کام کو ٹیم ورک سے انجام دینا ضروری ہے۔ مرکزی پالیسی و ہدایات کو ملحوظ رکھیں، ہمارا کام اصلاحِ معاشرہ ہے۔ پہلی ذمے داری خلوص اور وفاداری کے ساتھ ذات کی نفی کرتے ہوئے نصب العین کے لیے کام کرنا ہے، اجتماعیت سے جڑ کر ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا ہے۔ فرد کی کامیابی ٹیم کی کامیابی، اور ناکامی ٹیم ہی کی ناکامی کہلاتی ہے۔ انفرادیت کے بجائے مشترکہ مقاصد کو ملحوظ رکھیں۔ سوشل میڈیا کے استعمال میں احتیاط رکھتے ہوئے ذہن میں رہے کہ ہم تنظیم سے جڑے ہیں، اسلامی اجتماعیت کو گزند نہیں پہنچنی چاہیے۔ ٹیم اجتماعیت ہی سے پہچانی و پکاری جاتی ہے۔
ڈائریکٹر معارف اکیڈمی شاہد ہاشمی نے ’’ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز، چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی‘‘پر اپنے لیکچر میں کہا کہ قلم تو اوّلین تخلیقات میں سے ہے۔ درختوں، پتوں، چھالوں پر شبیہ بنا بنا کر انسان نے ابلاغ یعنی کمیونی کیشن کا عمل شروع کیا۔ دورِ جدید میں حق و باطل کی کشمکش جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اکیلا نہیں اتارا، اور آدم کے ساتھ دشمنِ انسان شیطان بھی اکیلا نہیں تھا۔ آدم اور ابلیس میں کش مکش، آدم کی رحمانی اور ابلیس کی شیطانی اس بات پر نہ تھی کہ کون نمازی ہے، متقی ہے، برسر روزگار ہے، ترقی یافتہ ہے، بلکہ اس بات پر تھی کہ زمین کا نظام کون سنبھالے گا۔ شیطان کو توقع تھی، مغروریت تھی کہ اسے چنا جائے گا، مگر ایسا نہ ہوا۔ آدم علیہ السلام کو چن کر خلیفہ نائب بنایا گیا، خلافت رحمن اور شیطان کے مابین معاہدہ قرار پا گیا کہ شیطان بہکانے کے لیے دائیں بائیں، اوپر نیچے ہر جانب سے آزاد ہے، اور جو اس کے بہکاوے میں آئے گا وہ جہنم کا حق دار ہوگا۔ حق و باطل کی یہ کش مکش دورِ جدید میں بھی جاری ہے۔ اللہ کا خوف، اللہ کی محبت، رسولؐ کی محبت، اچھی صحبت، خیال کی بلندی، اپنی پوری زندگی اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے لگا دینا ہی مومن کی معراج ہے۔
دنیا نیوز کے محمود اصغر نے ’’انفارمیشن ٹیکنالوجی، افادیت، محتاط استعمال‘‘ پر لیکچر میں کہا کہ اطلاعات، خبر، ڈیٹا بیس، بیک گراؤنڈ، اسٹرکچر، فیکس فیگر غرض پوری معلومات کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جاتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے موبائل میں آن لائن شاپنگ، موضوعاتی لیکچر،آن لائن کتابیں، گھر بیٹھے مکہ، مدینہ سے براہِ راست اذان… یہ سب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کرشمے ہیں۔ نوٹیفکیشن بھیج کر سوفٹ ویئر سے دس سالہ تعلیمی، خانگی، ملاقاتی، کاروباری تمام بایوڈیٹا اور ریکاڈ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ستّر سال پرانا ریکارڈ بھی ضائع نہیں ہوتا، بذریعہ کیمرہ مانیٹرنگ کی جاسکتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے لوگوں کے نزدیک رہ سکتے ہیں، ویب سائٹ کے ذریعے پروفیشنل انداز سے اپنے کام کی تشہیر کرسکتے ہیں۔
ڈپٹی سیکرٹری میڈیا ڈپارٹمنٹ سعدیہ حمنہ نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دوسرے حصے پر اپنے لیکچر میں کہا کہ ٹیکنالوجی کا مقابلہ ایمان سے ہوگا۔ ہتھیار بند فوج میڈیا محاذ کے لیے ضروری ہے۔ پھر اس فوج کو اپنے مورچوں پر مستقل مزاجی سے جمے رہنا چاہیے۔ مورچوں کو چھوڑ دینا ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔
مدیرہ ’’بتول‘‘ صائمہ اسما نے ’’ادب اور زندگی‘‘ پر اپنے خوب صورت ادبی لہجے میں کہا کہ ادب دو طرح کا ہوتا ہے، ادب برائے ادب الفاظ کا کھیل ہے، جب کہ ادب برائے زندگی ادب کو مقصدیت کی طرف لے جاتا ہے۔ مؤثر اسلوبِ بیان جتنا مضبوط ہوگا اتنا ہی مقصد واضح ہوگا۔ ادب کے میدان میں وہی صالح فکر کام کررہی ہے جس کی بنیاد اسلام کے دیے ہوئے نظام کی حقانیت پر ہے۔ وہ ادب تیرِ بے ہدف بن جاتا ہے جس کے پیچھے کوئی نظریہ نہ ہو۔ صحیح لکھنے کے لیے غلط کا جاننا ضروری ہے۔ ادب میں کوئی بات کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، اگر وہ انسان کو اسفل السافلین کی طرف لے جائے تو نہ اس کا فائدہ ہے، نہ ضرورت۔
انہوں نے لکھاری بہنوں کو مزید ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ادبی پرچوں کا مطالعہ کریں۔ موازناتی مطالعہ ضروری ہے۔ ٹارگٹ بنائیں، تحریر کو اپنے دور کی نمائندہ بنائیں اور عام ماحول کو خام لوگوں کے لیے نہ چھوڑیں۔ پٹے ہوئے موضوعات سے بچیں۔ اسٹیریو ٹائپ خیالات سے گریز کریں۔ ایک غلطی کہ پہلے نتیجہ پکڑ لیتے ہیں پھر اس میں کہانی ٹھونستے ہیں، یہ طریقہ تحریر کو بے اثر بنا دیتا ہے۔ وقت کی تائید پر سوار ہوکر نئی نظم، نیا خیال ڈھونڈیں۔ خیال کو قوت دینے کے لیے مستند لکھنے والوں کے انٹرویوز ضرور پڑھیں۔
ورکشاپ کے دوسرے دن کا آغاز ڈاکٹر حمیرہ طارق نائب قیمہ پاکستان نے تذکیر حدیث بعنوان ’’رکھ کر نبی اکرمؐ کو سامنے آرائشِ کردار کر‘‘ پر پُراثر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ تعمیرِ کردار کے لیے تعمیرِ افکار ضروری ہے۔ ایمان کو ہمہ وقت جانچتے رہنا ہر مسلم فرد کی پہلی ذمے داری ہے۔ خواہشِ نفس تو قارون کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ نعمتِ خداوندی ہے کہ خیالوں پر گناہ کا وبال نہیں رکھا، بلکہ گناہ تو عمل پر ہے۔
’’راہ‘‘ ٹی وی کے سلمان شیخ نے ’’موبائل جرنلزم‘‘ کے موضوع پر موبائل میں آڈیو ویڈیو گرافی کی تیکنیک سکھاتے ہوئے کہا کہ مومن کا ہتھیار دعا ہے، موجودہ دور میں 90 فیصد سوشل میڈیا میں ویڈیوز بن رہی ہیں، ایک ہی ویڈیو کے کئی کئی ورجن بنالیے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں بات کرتے ہوئے ہر طریقہ آنا چاہیے، لیکن ملحوظ رہے کہ ہماری کوششیں اس میدان میں مقصدیت سے بھرپور ہوں اور مرکزِ محبت نبی اکرمؐ کی کامل شخصیت ہو۔ تخلیق کا بنیادی خیال مثبت ہوتا ہے، اور موجد ہمیشہ اچھے مثبت اثرات کو سامنے رکھ کر ایجاد کرتا ہے۔ اخلاقی اقدار و روایات کا پاس رکھتے ہوئے میڈیا کا استعمال کریں۔
قیم جماعت اسلامی اور ڈائریکٹر تعلقاتِ عامہ شاہد وارثی نے ’’منصوبۂ عمل‘‘ کی اہمیت وافادیت پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ حدیث کا مفہوم ہے ’’حالات کی سواری بننے کے بجائے حالات کا سوار بن‘‘… کامیابی یا ناکامی کو ایک لفظ میں کہا جائے تو وہ منصوبہ بندی کہلاتی ہے، جو کامیابی و ناکامی میں موجود فرق کو واضح کرتی ہے۔ کامیابی ایک دن کی مہم نہیں ہے، یہ ایک عادت کا نام ہے جو آپ کو اپنانا پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نارمل فرد کو یکساں صلاحیتیں دی ہیں، ان صلاحیتوں کو اپنی قابلیت سے کیسے ابھارا جائے، اس کے لیے ذہانت کا استعمال ضروری ہے۔ سونے کے یا علمی ذخائر بے کار ہوں گے جب تک انہیں استعمال کرنا نہ آتا ہو۔
جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف نے ’’موجودہ دور میں میڈیا کی اہمیت اور ضرورت‘‘ پر لیکچر دیا۔ انہوں نے کہا کہ اخبار مضبوط میڈیا ہے جس میں برسوں پرانی خبریں بھی مل جائیں گی۔ بروقت فوری خبر ضروری ہے۔ بہت لمبی دستاویز مسترد کردی جاتی ہے۔ خبروں میں غیر ضروری طوالت سے بچیں، مکرر الفاظ سے گریز کریں، ٹو دی پوائنٹ خبر بنائیے جس میں خبریت ہو۔ اسلام اور نظریۂ پاکستان کے خلاف مغربی دنیا اور بھارت میں جو سازشیں ہورہی ہیں پاکستانی میڈیا کو ان کا توڑ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتِ عظمیٰ کا یہ فیصلہ قابلِ تحسین ہے جس میں اس نے ٹی وی چینلز پر بھارتی مواد دکھانے پر پابندی عائد کردی ہے۔
ورکشاپ کے آخری دن کا آخری پروگرام جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی پاکستان دردانہ صدیقی کے خطاب سے ہوا۔ انھوں نے کہا کہ اسلام نے ہر دور میں اپنے پیغام کی ترسیل کے لیے مروجہ ذرائع استعمال کیے ہیں خواہ وہ ملکہ سبا کو خط لکھنا ہو یا سباحہ کا نعرہ لگانا ہو۔ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ تعمیرِ معاشرہ کے لیے تعمیرِ ذات اوّل شرط ہے۔ اگرزمین پر انقلاب لانا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے اندر انقلاب برپا کرنا ہوگا۔
علاوہ ازیں تربیت گاہ میں کشمیر کے حوالے سے مذمتی قرارداد پیش کی گئی اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے میڈیا پر بھارتی مواد کی بندش کے فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا۔

سرد موسم میں کشمیری چائے کا لطف اٹھائیں

اجزا:دودھ ایک لیٹر، بادام کرش کیے ہوئے 20 گرام، پستہ کرش کیا ہوا 20گرام، کشمیری پتی تین کھانے کے چمچ، بادیان کا پھول تین عدد، دارچینی ایک ٹکڑا، چھوٹی الائچی 7عدد، میٹھا سوڈا آدھا چائے کا چمچ، ٹھنڈا پانی(برف والا )2 گلاس، چینی حسبِ ذائقہ، نمک حسبِ ذائقہ۔
ترکیب: ایک برتن میں پانی لیں اور اس میں کشمیری پتی، بادیان کے پھول، دارچینی، سبز الائچی، میٹھا سوڈا اور نمک ڈال کر اتنا پکائیں کہ قہوہ آدھا رہ جائے۔ پھراس میں ٹھنڈا پا نی ڈال کر پانچ سے سات منٹ کے لیے پکائیں اور چھان لیں۔ قہوہ تیار ہے۔ اب ایک برتن میں دودھ لیں اور بادام، پستہ اورچینی ڈال کر پانچ سے سات منٹ ہلکی آنچ پر پکائیں۔ پھر اس میں تیار کیا ہوا قہوہ ڈال کر ہلکی آنچ پرمنٹ 15۔20کے لیے پکائیں۔ مزے دار کشمیری چائے تیار ہے۔

حصہ