عرشمہ طارق
’’دلہن کتنی خوب صورت ہے اور دولہا بھی کسی سے کم نہیں۔ بالکل چاند سورج کی جوڑی لگ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے دونوں کو ایک دوسرے کے لیے بنایا گیا ہو۔‘‘ چاروں طرف سے خوش گوار جملے سننے کو مل رہے تھے۔ دلہن کو خوب صورتی سے سجائی گئی قیمتی گاڑی میں بٹھایا گیا۔ جیسے ہی گاڑی بڑی سی کوٹھی کے آگے رکی چاروں طرف اندھیرا چھا گیا اور ایک دم گھٹن کا احساس ہونے لگا۔ ’’اُفوہ کیا مصیبت ہے، بیڑا غرق ہو ان لائٹ والوں کا، لوڈشیڈنگ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔‘‘ صفیہ نیند کے اُچاٹ ہوجانے سے زیادہ خواب ادھورا رہ جانے پر کوفت میں مبتلا ہوگئی۔
’’صفیہ بیٹی جلدی سے آکر روٹیاں پکا لو، تمہارے بھائی اسکول سے آنے والے ہیں۔ سالن میں نے بنا دیا ہے۔‘‘ امی نے باورچی خانے سے آواز لگائی۔
’’بھئی امی، کیا ہے! ایک تو میری نیند خراب ہوگئی، اوپر سے اتنی گرمی میں روٹیاں پکائوں۔‘‘ اس نے بے زاری ظاہر کی۔
’’تو بیٹا بے وقت کیوں سو رہی ہو؟ پہلے کاموں سے فارغ ہو جائو پھر لیٹ جانا۔‘‘ امی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
صفیہ جھنجھلاتے ہوئے جیسے ہی روٹیاں پکانے کھڑی ہوئی تو چولہے ہی جل کے نہ دیں۔ ’’امی! گیس چلی گئی، اب کیا کروں؟ ایسا کریں آپ بازار سے چپاتیاں منگوا لیں۔‘‘ اس نے امی کا جواب سنے بغیر مشورہ دیا اور ہاتھ جھاڑتی ہوئی باورچی خانے سے باہر آگئی۔
’’یہ تو ہر وقت کا ہی رونا ہوگیا ہے، کبھی لائٹ نہیں، کبھی گیس نہیں، کبھی پانی کا مسئلہ۔ اس ملک میں غریبوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔‘‘ امی بھی ہر وقت کے ان مسئلوں سے بے زار نظر آرہی تھیں۔
’’امی میری شادی کسی امیر گھرانے میں کیجیے گا جہاں ان سارے مسائل سے چھٹکارا مل جائے، عیش کی زندگی بسر کروں۔‘‘ صفیہ نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے اپنے دل کی بات کہہ دی۔
’’شرم تو نہیں آتی ناں ماں کے سامنے ایسی باتیں کرتے ہوئے۔ جہاں نصیب ہوگا وہیں ہوگی شادی… تمہارے خواب دیکھنے سے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ امی نے خفگی کا اظہار کیا۔ صفیہ بھی اپنے نام کی ایک ڈھیٹ تھی ’’امی انسان کو ہمیشہ اچھا سوچنا چاہیے اور اللہ سے اچھی امید رکھنی چاہیے۔‘‘
’’اچھا… اچھا چلو باتیں نہ بنائو، جلدی سے کسی سے کہہ کر روٹیاں منگوائو، بچے اسکول سے آتے ہی ہوں گے۔‘‘ امی نے اپنا سر دباتے ہوئے کہا۔
صفیہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اس سے چھوٹے چار بھائی تھے جو اس سے بہت چھوٹے تھے۔ امی اکثر بیمار رہتی تھیں جس کی وجہ سے گھر کے زیادہ تر کام اسی کو کرنے پڑتے تھے۔ ابا ایک فرم میں ملازم تھے۔ صبح کے گئے شام کو گھر آتے۔ پڑھائی کے دوران صفیہ کے ایک دو رشتے آئے تو یہ کہہ کر منع کردیا گیا کہ ابھی چھوٹی ہے، پڑھ رہی ہے۔ بی اے کرنے کے بعد رشتے آئے تو امی کی بیماری کی وجہ سے معذرت کرلی گئی، اور یہ کہ سب لڑکے ہیں کیسے گھر سنبھالیں گے! اسی طرح دن گزرتے گئے اور امی کی بیماری شدید ہوتی گئی اور آخر ایک دن سب کو روتا چھوڑ کر وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ ماں کے بغیر گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا، بھائیوں کی شرارتیں بھی ختم ہوگئیں، ابا بالکل چپ ہوکر رہ گئے۔ صفیہ کی شوخیاں بھی ماں کے ساتھ ہی رخصت ہوگئیں، ایسے میں اس نے ہمت سے کام لیا، اللہ سے مدد مانگی اور ماں کی جگہ سنبھال لی۔ وہ جو امیر گھرانے میں شادی کے خواب دیکھتی تھی، ماں کے بعد گھر کی ذمے داری، باپ اور بھائیوں کی دیکھ بھال میں ایسی مصروف ہوگئی کہ کچھ اور سوچنے کا موقع ہی نہ ملا۔ چھوٹے بھائیوں اور صفیہ کی عمر میں خاصا فرق بھی تھا، اس نے انہیں اتنی محبت اور شفقت کے ساتھ سنبھالا کہ بعض اوقات ایسا لگتا جیسے وہ ان کی بہن نہیں ماں ہو۔ صفیہ نے اپنے باپ اور بھائیوں کے لیے اپنا آرام، نیند، خوشیاں سب کچھ قربان کردیا۔
’’ابا آپ دوسری شادی کرلیں۔‘‘ صفیہ نے جو کہ اپنے ابا سے کافی بے تکلف تھی، انہیں بڑی بوڑھیوں کی طرح مشورہ دیا۔ ابا نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا اور کہا ’’اس عمر میں کیوں میرا مذاق اڑوانا چاہتی ہو!‘‘
’’کیوں ابا، آپ کی عمر کو کیا ہوا ہے؟‘‘
’’نہیں بیٹا اب میری نہیں بلکہ تمہاری شادی کی عمر ہے، اور میں چاہتا ہوںکہ جلد سے جلد اس فرض سے سبک دوش ہوجائوں۔‘‘
’’ابا ابھی آپ سب کو میری ضرورت ہے، عورت کے بغیر گھر نامکمل ہوتا ہے، اسی لیے تو میں آپ کو شادی کا مشورہ دے رہی تھی۔ چلیں کوئی بات نہیں، فیصل کی شادی ہو جائے تو پھر دیکھا جائے گا، میں اپنے بارے میں بھی سوچ لوں گی۔‘‘
فیصل صفیہ سے پانچ سال چھوٹا تھا، اس کے بعد سہیل، راحیل اور خرم تھے۔ اگر صفیہ نے بھائیوں کی خاطر اپنی خواہشات کا گلا گھونٹا تھا تو چاروں بھائی بھی اس پر جان چھڑکتے تھے۔ ماں کی طرح اس کا احترام کرتے تھے۔ اسی طرح وقت گزرتا گیا اور فیصل پڑھائی سے فارغ ہوکر جیسے ہی برسرِ روزگار ہوا اُس کی شادی خالہ کی بیٹی سعدیہ سے کردی گئی۔ ابا بھی خاصے کمزور ہوگئے تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد گھر ہی میں رہتے۔
’’ابا آپ کو میری سہیلی فرزانہ یاد ہے ناں، جس کے ساتھ میں ٹیچر ٹریننگ کورس کے لیے جاتی تھی، اور امی کے انتقال کے بعد وہ میرے ساتھ کتنا وقت گزارتی تھی، میری کتنی دل جوئی کرتی تھی۔‘‘ صفیہ نے محبت سے اپنی سہیلی کا ذکر کیا۔
’’ہاں ہاں بیٹا! مجھے یاد ہے، کیوں کیا ہوا اسے؟‘‘ ابا نے فکر مندی سے پوچھا۔
’’اوہو ابا اللہ نہ کرے اُسے کچھ ہو، بات یہ ہے کہ اُس نے کچھ عرصے پہلے ایک اسکول کھولا تھا جو کہ اب بہت اچھا چل رہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کے پاس سعودیہ شفٹ ہورہی ہے اور اسکول کی نگرانی کے لیے اُس نے مجھے اور آپ کو کہا ہے۔ اچھا ہے آپ بھی مصروف ہوجائیں گے اور سعدیہ کے آجانے سے مجھے بھی گھر کی طرف سے تھوڑی بے فکری ہوگئی ہے۔‘‘
جلد ہی صفیہ اور ابا نے اسکول کے معاملات بہ خوبی سنبھال لیے۔ گھر کا بھی سارا حساب کتاب صفیہ کے ہاتھ میں تھا جسے وہ بہت منظم طریقے سے چلا رہی تھی۔ اس کی بڑھتی ہوئی عمر دیکھ کر اب تو بھائیوںکو بھی اس کی شادی کی فکر ہونے لگی تھی، لیکن پریشانی کی بات یہ تھی کہ اب جو بھی رشتے آتے وہ کسی بڑی عمر والے کے ہوتے یا اُن کے جن میں سے کسی کی اپنی بیوی سے علیحدگی ہوگئی یا کسی کی بیوی کا انتقال ہو گیا ہو۔ بہرحال ابھی تک کہیں بات نہیں بنی تھی۔ اس عرصے میں فیصل ایک بیٹی کا باپ بن گیا۔
ایک شام فیصل پریشانی کے عالم میں آفس سے آیا اور کہا ’’میرے دوست ریحان کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیاہے میں وہاں جارہا ہوں، واپسی میں دیر ہو سکتی ہے، آپ لوگ فکر مت کیجیے گا۔‘‘
فیصل رات تک وہیں رہا اور صبح کے وقت غمگین اور تھکا ہوا گھر میں داخل ہوا۔ ریحان فیصل کا بہت جگری دوست تھا اور اُس کی اچانک موت نے فیصل کو بہت ڈسٹرب کردیا تھا۔ وہ روز ہی قبرستان جاتا۔ ایک دن قبرستان سے واپس آیا تو پتا نہیں کیا ہوا کہ اس کی جلد پر خارش شروع ہوگئی اور کچھ دانے نمودار ہوئے جو آہستہ آہستہ بڑھنے لگے۔ شروع میں تو زیادہ توجہ نہیں دی، لیکن پھر دانے زخموں کی شکل اختیار کرنے لگے، ان سے مواد بہنے لگا اور شدید تکلیف ہونے لگی۔ بے چارہ فیصل پوری پوری رات جاگ کر گزارتا۔ بہت سے ڈاکٹروں کو دکھایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، اور یہ بیماری اتنی بڑھی کہ چند مہینوں میں ہی فیصل ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا۔ روحانی علاج بھی کروایا گیا لیکن اس سے بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ پورا گھر فیصل کی بیماری کی وجہ سے پریشان تھا۔ صفیہ نے بھائی کی تیمارداری میں دن رات ایک کردیا۔ ایک پڑوسن نے صفیہ سے کہا ’’باجی میں ایک عامل بابا کو جانتی ہوں، انہوں نے بہت سے لوگوں کا کامیاب علاج کیا ہے۔ میں تو کہتی ہوں اپنے بھائی کو وہاں لے جائیں۔‘‘
’’ارے نہیں بھئی، ایسے لوگوں کے پاس تو جانا بھی نہیں چاہیے۔ جن کے عقیدے کمزور ہوتے ہیں وہی ان بابائوں کے پاس جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان گمراہیوں سے بچائے۔ کسی نے جِلدی امراض کے ایک بہت اچھے ڈاکٹر کا پتا بتایا ہے، کل ہم لوگ فیصل کو وہاں لے کر جائیں گے۔ بیماری اور شفا سب اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، ہمیں مایوس ہوکر کسی غلط جگہ پر نہیں جانا چاہیے۔‘‘ صفیہ نے پڑوسن کو سمجھایا۔
اس رات فیصل تکلیف کی شدت سے اتنا رویا کہ سب گھر والے اس کے ساتھ رو دیے اور اس کے حق میں دعا کرنے لگے۔ اگلی صبح ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ جوان موت پر ہر کوئی غمگین تھا۔ سعدیہ اتنی کم عمری میں بیوہ اور اس کی کم سن بچی یتیم ہوگئی تھی۔ غم اتنا شدید تھا کہ ابو تو بستر سے ہی لگ گئے۔ جوان بیٹے کی موت کا صدمہ وہ برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔ تینوں بھائی اداس اور پریشان تھے۔ صفیہ خود غم سے نڈھال ہورہی تھی۔ ایک مرتبہ پھر اس نے حوصلے سے کام لیا اور اپنے غم کو سینے میں چھپا کر سب کو سہارا دیا۔ سعدیہ کو اس کے گھر والے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ بچی چھوٹی تھی اس لیے وہ بھی ماں کے ساتھ چلی گئی۔ پورا گھر ویران ہوگیا۔ ایک سال اسی سوگواری میں گزر گیا۔ سب کے سامنے تو صفیہ بہت ہمت سے کام لیتی، ابا اور بھائیوں کو حوصلہ دیتی، لیکن اکیلے میں اتنا روتی کہ خود کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا۔
ایک دن چچا اور چچی آئے اور صفیہ کو گلے لگا کر پیار کرتے ہوئے کہا ’’صفیہ بیٹی تم نے بھابھی صاحبہ کے بعد گھر، بھائی صاحب اور اپنے بھائیوں کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ قابلِ فخر ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا اجر ضرور دے گا۔‘‘ چچا کی آنکھوں میں نمی آگئی۔
’’چچا میں نے اس گھر کی بڑی بیٹی ہونے کے ناتے اپنا فرض نبھایا ہے۔‘‘ صفیہ نے پاس بیٹھے ابا کا ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا ہمارا مشورہ ہے کہ پڑھی لکھی سمجھ دار لڑکیاں دیکھ کر سہیل اور راحیل کی سادگی سے شادیاں کردو تاکہ گھر میں کچھ رونق ہوجائے اور تمہاری ذمے داری بھی ہلکی ہوجائے۔ خرم تو ابھی چھوٹا ہے، پڑھ رہا ہے، اس کے بعد اپنے بارے میں بھی سوچو۔ کیا اسی طرح ساری عمر گزار دو گی!‘‘ چچا نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو صفیہ نے سر جھکا دیا۔
’’کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ابا کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ بھائیوں کے لیے تو صفیہ ہی ان کی ماں تھی اور اب باپ بھی۔ ہر دکھ کے موقع پر انہیں اپنی بہن ایک سایہ دار درخت کی طرح محسوس ہوتی۔ یہ وہ صفیہ تو نہیں تھی جو پہلے صرف اپنے بارے میں سوچتی تھی، ماں کی جدائی نے اس کی سوچ اور ترجیحات ہی بدل دی تھیں۔ محلے کے امجد صاحب جو کہ تین بیٹیوں کو رخصت کرچکے تھے اور اب بیوی کے انتقال کے بعد اکیلے زندگی گزار رہے تھے، انہوں نے اپنی بچیوں کے اصرار پر صفیہ کے لیے پیغام بھجوایا تو صفیہ نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اب وہ کیا کسی کا سہارا بنے گی، اللہ نے اس سے جو کام لینا تھا، لے لیا۔
فجر کے وقت سب کے اٹھنے سے پہلے صفیہ بیدار ہوتی تھی۔ اپنی نگرانی میں ناشتا بنواکر ان کے ساتھ بیٹھتی اور اپنے بھائیوں کو دعائوں کے ساتھ گھر سے رخصت کرتی تھی۔ آج خلافِ معمول اسے سامنے نہ پاکر بھائی بے چین ہوکر اس کے کمرے میں گئے تو جائے نماز پر سجدے کی حالت میں دیکھ کر اس کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگے، جب بہت دیر بعد بھی وہ سجدے سے نہ اٹھی تو بھائیوں نے مل کر اسے سیدھا کیا، لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی، ان کی ماں جیسی بہن ہمیشہ کے لیے سکون کی نیند سوچکی تھی۔