احمد، علی اور یوسف کے پودے

337

مریم شہزاد
احمد، علی اور یوسف نانو کے ساتھ چھت پر گئے تو وہاں نئے گملے رکھے دیکھے
”نانو یہ گملے کیسے ہیں؟” احمدنے پوچھا۔
”ان میں پودے کیوں نہیں ہیں” علی نے کہا۔
”اور ان پر ہمارے نام کیوں لکھے ہیں” یوسف نے بھی نانو سے پوچھا۔
”ایک منٹ،! پہلے ہم یہ روٹی کے ٹکرے اور پانی پرندوں کو ڈال دیں پھر بتاتی ہوں، چلو آکر روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے کرو۔”
تینوں روٹی کے ٹکرے کرکے ڈالنے لگے اور نانو نے اتنی دیر میں پانی کے برتنوں میں پانی ڈالا۔
”آپ تینوں کو معلوم ہے کہ ان مٹی کے برتنوں کو کیا کہتے ہیں، جن میں ہم نے روٹی اور پانی رکھا ہے پرندوں کے لیے؟” نانو نے پوچھا۔
مٹی کے پیالے، احمد نے جلدی سے کہا۔
”مٹی کے پیالے تو ہیں مگر ان کو کونڈیاں کہتے ہیں”۔
”اچھا نانو ان گملوں کا بتائیں نا” یوسف کو بہت گھبراہٹ تھی”
بھئی یہ تین گملے آپ تینوں کے ہیں۔
”مگر یہ تو خالی ہیں، علی نے کہا”۔
ہاں ابھی ان میں صرف کھاد ڈالی ہے اب آپ تینوں اس میں پودے لگائیں گے۔
ہم، کیسے؟؟ تینوں نے حیران ہو کر کہا۔
”احمد آپ یہ ٹماٹر لو، علی آپ مٹر اور یوسف آپ نیبوں کے بیج، اب اپنے اپنے نام والے گملے میں دبادو”۔
”کیسے نانو” ان کی سمجھ نہیں آیا تو نانو نے کھرپی اٹھای اور اس سے کھاد کو ادھر ادھر کیا تو گملے میں گڑھا سا بن گیا احمد کے گملے میں ٹماٹر کاٹ کر رکھا اور کھاد ڈھک کر چھپا دیا ،علی سے مٹر کے دانے اس میں رکھوائے اوریوسف سے نیبو کے بیج پھر ان تینوں نے باری باری اپنے اپنے گملوں میں پانی ڈالا ان کو یہ سب کر کے بہت مزا آیا۔
”اب ان میں پودے آجائیں گے” علی نے پوچھا۔
ہاں، بالکل ،نانو نے کہا۔
”اس کا مطلب ہے کہ ہم جب اگلے ہفتے آئیں گے تو پودے بھی ہوں گے اور اس میں مٹر بھی ہوگی؟” یوسف نے کہا۔
”ارے نہیں بھئی، اتنی جلدی تھوڑا ہی، ایک دو ہفتے میں چھوٹا سا پودا آئے گا، پھر وہ بڑا ہو گا پھر اس میں پھل آئے گا” نانو نے بتایا تو احمد نے کہا
”اُف اتنے سارے دن”
”اچھا جیسے پہلے ہم چھوٹے سے ہوتے ہیں اور پھر بڑے ہوتے رہتے ہیں، اس طرح پودے بھی آہستہ آہستہ بڑے ہوتے ہیں” علی نے پوچھا
جی ہاں بالکل ایسا ہی ہوتا ہے
اب بچے ہر روز فون پر نانو سے پوچھتے کہ پودے نکلے یا نہیں، پندرہ دن بعد انہوں نے دیکھا کہ ننھے ننھے پودے آگئے ان کو بہت خوشی ہوئی پودے پھر تیزی سے بڑے ہونے شروع ہو گئے اور تقریباً دو ماہ میں بچے چھت پر اپنے پودوں کو دیکھ رہے تھے کہ تینوں کے پتّے بالکل الگ الگ طرح کے تھے کہ احمد زور سے چیخا۔
” نانو۔۔۔۔۔ جلدی سے آئیں،”
نانو گھبرا کر جلدی سے آئیں۔
”کیا ہوا احمد، کسی کیڑے نے تو نہیں کاٹ لیا”
”نہیں نانو یہ دیکھیں،” اس نے اپنا پودا دکھایا جہاں ایک چھوٹا سا سبز رنگ کا ٹماٹر پتوں میں چھپا ہوا تھا ”نانو میں اس کو توڑ لوں؟”
نہیں ابھی نہیں ابھی یہ بڑا ہوجائے گا اور لال ہو جائے پھر اب علی اور یوسف کا بھی دیکھتے ہیں مگر ان میں ابھی کچھ نہیں آیا تھا مگر کچھ دن بعد ان دونوں کے پودوں میں بھی چھوٹے چھوٹے نیبو اور مٹر آگئے اب وہ انتظار میں ہیں کہ یہ جلدی سے بڑے ہوں تاکہ وہ توڑ کر مزے سے کھائے۔

حصہ