ماہنامہ ساتھی کی دلچسپ روایت کا امین، سالنامہ 2018ء

614

بینا صدیقی
بچوں کے رسائل میں ماہنامہ ساتھی اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس نے گزشتہ برسوں میںآٹھ سے اٹھارہ سال تک کے بچوں کی فکری نشوونما میںاہم کردار ادا کیا ہے۔
ماہ نامہ ساتھی نے اپنی عمدہ روایات کو قائم رکھتے ہوئے ماہِ نومبر میں اپنا سالنا مہ شائع کیا جو کہ رنگا رنگ پھولوں سے سجے ایک گل دستے سے کم نہیںہے۔ مدیر اور دیگر اراکین ِادارت کی کامیابی ہے کہ انھوں نے بچوں کے لیے لکھنے والے اچھے ادیبوں کی تحریروں سے رسالہ سجایا۔
دل پہ دستک کے عنوان سے مدیر صاحب کی بت خانے کی تشبیہ او ر اس کی وضاحت آج کل کے زمانے کے لیے عین موزوں تھی۔ السلام علیکم میںطارق خان نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پہ عمل پیرا ہونے کی ایمان افروز نصیحت کی۔ فوزیہ خلیل کی ’’محبت کا تقاضہ‘‘ بھی عشق ِ رسول کی صحیح ترجمانی کے سبق پہ مبنی تحریر تھی۔ جبکہ شازیہ فرحین ’’ہمسائے ‘‘کے ساتھ جلوہ گر ہوئیں۔ جو آج کل کے اسٹیٹس کے مارے ہوئے لوگوںکے المیے پہ لکھی گئی ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آسکی کہ جمال صاحب جیسے سفید پوش آدمی اُس امیروں کے محلے میں کیسے آگئے تھے؟ اس پہ روشنی ڈال دی جاتی تو کہانی مزید دلچسپ ہوسکتی تھی۔
عبدالرحمن مومن صاحب کی ’’آپ کا نام بارہالکھا ‘‘انتہائی عمدہ نعتیہ کلام ہے۔ جبکہ نظموںمیں شام درانی کی ’’یورپ ‘‘ اور مدیحہ صدیقی کی ’’سالنامہ ‘‘بھی زبردست رہی۔
ابن ِ آس صاحب کی ’’چالاک‘‘ بہت واضح طور پر جناب اشتیا ق احمد مرحو م سے متاثرجاسوسی کہانی ہے۔ جس میں بظاہر مصنف کا قصور نہیںکہ اردو اد ب میں ابن ِ صفی مرحوم اور اشتیا ق احمد مرحوم کا اثر ہی اتنا گہراہے کہ جو بھی اردو میں جاسوسی کہانی لکھنے کے لیے قلم اٹھاتا ہے۔ اُس کو لامحالہ اُن ہی راہوں سے گزرنا ہوتا ہے جو اِ ن اساتذہ نے اپنے قلم سے بنا دی ہیں۔ خاص کر محمود فارو ق کی طرح علی اور عمر کا لیٹ ہونا اور شارٹ کٹ کے چکر میں کسی مصیبت کو آواز دے لینا سو فیصد اشتیا ق صاحب کا انداز معلوم ہوا۔
’’الف کی طرح سیدھی اردو‘‘ میں آج کل کے بچوں کے ایک اہم مسئلے کی نشان دہی کی گئی ہے کہ بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ انگریز ی میں سو فیصد نمبر لینے والے یہ بچے اردو میں نہ صرف کمزور ہوتے ہیں بلکہ اس کمزوری کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔
سالنامے کی ایک دلچسپ چیز جناب اطہر ہاشمی صاحب کے ساتھ ملاقات کی روداد ہے۔ جس میں انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں اپنے بچپن اور اردو سے اپنی محبت کا ذکر کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ان کا مضمون جو رسالے کی جان ہوتا ہے یعنی ’’اردو زباں ہماری ‘‘ بھی موجود ہے۔ جس میں وہ گزشتہ شماروں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے ان میں ہونے والی اردو کی اغلاط کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے، جس سے تمام قلمکاروں کو ایک تو اس زعم سے نجات ملتی ہے کہ اردو تو گھر کی لونڈی ہے اور بقو ل مشتا ق احمد یوسفی صاحب ،’’ اِس سے سلوک بھی لونڈیوں والا کیا جانا چاہیے‘‘۔دوسرے اپنی ہی غلطیوں کی اصلاح نہیں بلکہ دوسروں کی غلطیوں سے بھی اپنی تصحیح کرنے کا موقع ملتا ہے۔
جاوید بسام صاحب کی ’’آدھی بہن ‘‘ایک دلچسپ طبع زاد کہانی ہے۔ جس میں نواب صاحب کے گھر کھانا پکانے والی دو بہنوںکی کہانی رواں اور مزیدار انداز میں پیش کی گئی ہے۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ دوسروں کی پشت پہ پاؤں رکھ کے اونچائیوں کو چھونے والے کسی دن
گرتے ضرور ہیں۔ بس، جس دن بھی پشت پیش کرنے والے کو کروٹ لینے کی ضرورت پیش آجائے۔
جناب عثمان ایڈ وکیٹ صاحب نے ایک دلچسپ موضوع پہ قلم اٹھایاہے ، کہانی کا عنوان ہے ’’بڑا ہونے کی دھن ‘‘۔ بچوں کی نفسیات ہوتی ہے کہ ان کو بڑوں کی زندگی بڑی ہی پر کشش لگتی ہے اور وہ بڑے جوتے اور کپڑے پہن کے بڑا دکھائی دینا چاہتے ہیں۔ لیکن اس دلچسپ کہانی کا انجام شاید پیسٹنگ کی غلطی سے درمیان میں شائع کر دیا گیا ہے ۔ جس میں بڑے ہوجانے کے بعد کے نقصانات پہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ بعد میں کہانی پھر بچپن پہ آجاتی ہے۔ کہانی کا یہ انداز سمجھ میںنہیں آیا کہ قلمکار نے اپنایا تھا یا پھر پیسٹر نے کہانی میںاپنی من مانی کی ہے؟ یا پھر پیسٹرصاحب بچوں کی طرح کہانی کو بھی جلدی سے ’’بڑا‘‘ کر کے اس کے منطقی انجام تک لے جانے کے خواہاں تھے؟
ماہم جاوید کی ’’ادھوری خواہش ‘‘کہانی کم اور ایک ایسا معذرتی خط زیادہ محسوس ہوئی جو مدیر صاحب کی جانب سے سالنامے میں کہانی کی فرمائش کے جواب میں تحریر کیاگیا ہو۔تاہم ماہم کو ماں بننے کی نئی خوشگوار ذمے داریاں بہت مبارک ہوں۔
نائلہ صدیقی کی کہانی’’چھوٹے ‘‘مزیدار انداز میں لکھی گئی ہے اور گھر کے چھوٹوں کی جھنجلاہٹ کی اچھی ترجمانی کی گئی ہے۔ ہر چھوٹا یہ سمجھتا ہے کہ سارے فضول اور چھوٹے کام اس کے سپرد کر دیے گئے ہیں اور گھر کے سارے بڑے مزے کرتے ہیں۔ وہ کیا جانیں کہ گھر کے بڑے ، ان سے کہیں بڑی بڑی ذمے داریوں کا بوجھ کاندھوں پہ اٹھا ئے ہوئے ہیں۔ ایک سبق آموز مگر مزیدار کہانی۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ امی اپنے بیٹے کو ’’گڈو بیٹا‘‘کے بجائے ’’گڈو بھیا‘‘اور ابو اپنی بیٹی کو’’نازش بیٹی ‘‘ کے بجائے ’’نازش آپا‘‘ کیوں کہتے ہیں؟
محمد طارق خان نے بچوں کے انگریزی ادب سے استفادہ کرتے ہوئے ، ننھے بچوں کے لیے ایک دلچسپ تصویری کہانی پیش کی۔ پڑھ کے ہمیںبھی لطف آیا ۔اگرچہ ننھے بچوں کی فہر ست سے لمبا عرصہ ہوا ، ہمارا نام خارج ہوچکا۔
جناب احمد حاطب صدیقی صاحب نے ’’ساٹھ سال بعد‘‘کے عنوان سے ایک مزے دار اور قدرے طویل کہانی لکھی ہے ۔جو تخیل کی بلند پروازی کی ترجمان ہے۔ مستقبل میںجھانک کے دیکھا جائے تو شاید کچھ ایسی ہی صورتحال دکھائی دے ، جیسی استادِ محترم جناب حاطب صدیقی نے پیش کی ہے۔ جب انسان مشینوں کا زیادہ غلام ہوجائے تو اکثر عقلوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور سامنے کی بات نہیں سوجھتی کہ گھوڑے کی لگام کھونٹ سے کھول لی جائے۔ ہم سب بھی لگام کھونٹ سے کھولے بغیر شاید بگٹٹ بھاگنے کی فکروں میں رہتے ہیں تب ہی چوٹ پہ چوٹ کھاتے ہیں۔
سیما صدیقی صاحبہ ایک کہنہ مشق لکھاری ہیں ، جن کی کہانی ’’خواہشوں کے بھنور ‘‘آج کل کے موبائل دور کے بچوں کی بے جا ضد اور مہنگی فرمائشوں کے گرد گھومتی ہے۔ بچے ابھی سے اُ تنے مادہ پر ست ہوگئے ہیں جتنے کہ ہم سب بڑے ہونے کے بعد ہوئے ۔ پہلے زمانے کے بچے کاغذ کی کشتی اور کپڑے کی گڑیا سے بہل جاتے تھے ، آج کے بچے اپنے ہاتھ اور باپ کی جیب سے بڑے موبائل ہی لے کے خوش ہوتے ہیں۔ ایک سبق آموز مگر بہت اثر انگیز کہانی۔ دوسرے یہ کہ اس کہانی میں سیماصدیقی کا مخصوص شگفتہ انداز کچھ سنجیدہ سنجیدہ محسوس ہوا۔
میمونہ حمزہ کا عربی ادب سے ترجمہ ’’ما ں کا ہاتھ ‘‘میں سگے اور سوتیلے بچوں کے بیچ روا رکھے جانے والے فرق پہ کہانی کی بنیا درکھی گئی ہے لیکن کہانی کچھ عجلت میںلکھی گئی ہے ۔ برسوں سے ظلم کرنے والی سوتیلی ماں کا محض ایک بار سوتیلے کے سگے کو ڈانٹ سے بچانے کی بات پہ اپنے ظلم وستم سے تائب ہوجانا کچھ غیر حقیقی محسوس ہوا۔ تاہم کہانی کو کسی انجام تک پہنچانا بھی ضرور ی تھا۔
حماد ظہیر کی ’’جعلی عقاب ‘‘سائنس فکشن اور سماج سدھار سوچ کا اچھا امتزاج ہے۔ جبکہ ان کی ہمشیرہ مریم سر فراز بھی ایک قسط وار ناول ’’آبشار کاراز‘‘لے کے حاضر ہوئی ہیں۔ جو ایک مزیدار کاوش ہے۔
الیاس نواز کا ڈراما ’’اپناکام ‘‘دلچسپ ہے ۔لیکن ایک تو یہ موضوع بچوں کے حساب سے تھوڑا سا بڑا تھا کہ بیرون ِ ملک جانے والے کس طرح بے وقوف بنا ئے جاتے ہیں، دوسری طرف خالہ خیرن کی زبان سے جھڑنے والی گالیوں کی بوچھاڑ بھی گراں گزری۔ اُن کے ہر جملے میں ایک گالی ٹانک دی گئی تھی۔
رمشا جاوید ایک اچھی لکھاری ہیں ۔ تاہم سالنامے میں ’’درویش‘‘کے نام سے شائع کہانی میں اپنا وہ خاص اثر نہ دکھا سکیں۔ کہانی میٹرک کے اردو کے پرچے میں آنے والے اس لازمی سوال کا جواب محسوس ہوتی ہے کہ جس میں پوچھا جاتا ہے کہ شاہین علامہ اقبال کا پسندیدہ پرندہ کیوں تھا؟ ہم نے بھی جب اس سوال کا جواب تیار کیاتھا تو کچھ ایسے ہی جملے لکھے تھے۔ کہانی میں دلچسپی کا عنصر بہت ہی کم ہے۔ آخر میں ایک سمندری طوفان سے بچ نکلنے والے کی تیسری آنکھ کھل جانے کا بھی اس تمام کہانی سے کوئی خاص تعلق دکھائی نہیںدیتا۔
گلِ رعنا کا ترجمہ ’’جادو والا شربت ‘‘ ایک رواں اور سلیس ترجمہ ہے۔ اچھا ترجمہ وہی ہوتا ہے جہاں کہیں اٹک کے کسی اور راستے کی بس نہ پکڑنی پڑ ے۔ جادو والا شربت ، انسانی نفسیات کی ترجمانی کرتی ہے کہ کس طرح ایک ڈرپوک اور بزدل لڑکے کو سوڈا کاربونیٹ او ر سبز کولٖٖڈ ڈرنک کے محلول نے طاقت عطا کر دی۔جو دراصل اس لڑکے کی اپنی ہی سوئی ہوئی طاقت تھی۔
راحت عائشہ شاید اپنی مدیرانہ مصروفیات اور وقت کی تنگی کے سبب کہانی کے بجائے ایک کھیل لے کے آئی ہیں ۔ کہانی کا عنوان ’’جادوئی کھیل ‘‘ہے ۔ یہ کھیل ہم بھی اپنے بچپن میں کھیلا کرتے تھے۔ تاہم اس کو کہانی نہیں کہا جا سکتاکہ یہ کہانی کی جملہ تعریف پہ پورا نہیں اترتی۔
کہانی کے لیے پلاٹ ، کردار ، آغاز و انجام کے چار عناصر لازم ہیں۔ جبکہ اس میں پلاٹ اور انجام موجود نہیں ہے۔
خط رے کے تقریبا ً تمام خطوط انتہا ئی دلچسپ ہیں۔ شاید بڑے مدیروں نے اتنی جگہ گھیر لی کہ ننھے ادیبوں کی کاوشوں کے لیے اس بار صفحات مختص نہیں کیے جاسکے۔ یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ جگہ جگہ پرو ف ریڈ نگ کی غلطیوں نے اچھی اچھی کہانیوں کا وہ حال کیا ہے جو مزے دار چکن بریانی یا عمدہ مٹرپلاؤ کھانے کے دوران چاول کا کنکر کرتا ہے۔ سارا کھانا کِرکِرا کر دیتا ہے۔ ہمارے دانتوں تلے بھی کئی کنکر آئے۔
تاہم ساتھی کی تمام ٹیم مبارکبا د کی مستحق ہے کہ اس نے ایک عمدہ اور معیار ی سالنامہ شائع کرکے اپنی د یرینہ روایت کو برقرار رکھا۔ سرورق سے لے کے کہانیوں کے چنا ؤ تک ان کی کاوشیں لائق ِ تحسین ہیں۔ امید کرتے ہیںکہ بچوں کے ادب کے لیے یہ روایت جاری رہے گی۔

حصہ