ڈاکٹر شعیب نگرامی
حسان بن ثابت ، جنہیں شاعر رسول کہاجاتاہے اور جنہوں نے ہجرت کے بعد مکہ ومدینہ کے مابین ہونے والی ادبی جنگ میں ایک اہم اور کلیدیؔ کردار اداکیاتھا ، ان کے ایک طویل قصیدے کے یہ دوشعر ملاحظہ ہوں:
و لما نزلنا منزلًا طلًہ الندی
أنیقًا و بستانًا فی النور حالیا
أجدً لنا طیب المکان و حسنہ‘
منی ، فتمنینا ، فکنت الأمانیا
یعنی جب ہم ایسی جگہ پر اترے جسے شبنم نے شاداب وسیراب کررکھاتھا ، اور کلیوں وغنچوں سے وہ سجاہواتھا ، تو مقام کے حسن ودل آویزی نے ہمارے دل میں خوابیدہ تمناؤں اور آرزؤں نے انگڑائی لی، ہم نے آرزوئیں کیں، لیکن حاصل آرزو اور جان تمنا تمہاری اور صرف تمہاری ہی ذات تھی۔
حسان بن ثابتؓ کی صداقت پر کس کو شبہ ہے انہوں نے تو پیغام رسالت کے ہر علمبردار اور توحید کے ہر متوالے کے جذبات واحساسات کی ان حسین اشعار میں عکاسی کردی ہے حضرات! ہم آپ اس وقت جس خطہ زمین پر موجود ہیں یہی وہ جگہ یا خطہ ہے جسے آخری آسمانی پیغام کی طراوٹ اور صحبت نبویﷺ کی نکہت نے دل و نگاہ کی جنت بنادیاہے ۔ اس لئے آج کی اس محفل میں ہمارا موضوع وہی ہستی ہے جس نے دنیا کو جاہلیت ؍ہرطرح کی بت پرستی؍انسانوں کی غلامی ؍خواہشوں کی پرستاری؍اور مادہ ومعدہ کی اسیری وچاکری سے رہائی دلائی ہے ؍ اور یہ ہستی ’’ محسن انسانیت ‘‘ محمد بن عبد اللہ ﷺ کی ہستی ہے اور جو اقبال کی زبان میں، دانائے سبل، مولائے کل اور ختم الرسل تھی اور جس نے غبار راہ کو فراغِ وادیٔ سینا عطاکیاتھا……
محسن انسانیت کے تاریخ ساز کارناموں کا ذکر کرنے سے قبل ذرا آئیے یہ تو دیکھیں کہ کوہ فارانؔ کی چوٹی سے بلند ہونے والی صدائے توحید سے قبل انسانیت کس ڈگر پر چل رہی تھی تاکہ اس طرح ، دعوت توحید اور محسنِ انسانیت کے عالمگیر مشن کی اہمیت اور اس کے صحیح خدوخال واضح ہوسکیں، آپ ایک ہزار چار سو برس پیچھے پلٹ کر دنیا کی حالت پر نظر ڈالئے ، یہ کیسی دنیا تھی…؟ انسان اور انسان کے درمیان تبادلۂ خیالات کے وسائل کس قدر کم تھے، قوموں اور ملکوں کے درمیان تعلق کے ذرائع کتنے محدودتھے، جہالت کے اندھیرے میںعلم کی روشنی کتنی دھندلی تھی،
مؤرخین کے نزدیک اس زمانے کے نام نہاد ترقی یافتہ ممالک، چین ، ہندوستان ، رو م اور ایران تھے، عہدِ نبوی کے آغاز پر چین کی عجیب حالت تھی؍ کنفوشسی نظام پارہ پارہ ہوچلاتھا، ہندوستان کا بدھ مت؍جینی مفکرین کے لئے درد سر بناہواتھا اور ساتھ ہی پور ا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں بھی آچکاتھا ان حالات نے چین کو انسانیت کی خدمت کے لئے ناکارہ بنادیاتھا ۔ رہا ہندوستان تو وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ایک ہزار قبل آریہ قبائل آگئے تھے ؍ذات پات کے نظام؍مظاہر پرستی کی سطحیت کے تحت کروڑوں دیوتاؤں کی ایجاد؍ رہبانیت اور ترک دنیا کو انسانیت کا کمال سمجھنے کا جذبہ ؍ اور اسی طرح کی چیزوں نے پوری انسانیت کی اجتماعی زندگی کی خدمت کے لئے ناقابل بناچکی تھیں۔ چینی مفکر کنفوشیوس کے ہمعصرگوتم بدھ نے برہمنوں کی مراسم پرستی کے خلاف احتجاج کرکے ایک دوسری انتہا پسندی کی تعلیم دی تھی؍ علاج صحیح تھا ، مگر ظاہر ہے کہ وہ عارضی ضرورتوں کے لئے تھا چند دن وہ پھولا پھلا ؍مگر ایک تو معتدل حالات کے لئے اس میں ٹھوس بنیادیں نہ تھیں، دوسرے بدھ مت اور برہمنیت کی کشمکش ایک دوسرے پر عارضی فتح کے بعد، بالآخر بدھ مت کو بڑے مظالم کے بعد ہندوستان سے خارج کردینے کا باعث بنی۔
روم ویونان کی صورت حال یہ تھی کہ یونان کے کھنڈرات پر رومن امپائر کی تعمیر تو ہوچکی تھی لیکن عہد نبوی سے قبل یا تقریبًا اسی زمانہ میں رومیوں پر جرمنی کے وحشی قبائل ٹوٹ پڑے اور پایۂ تخت روما کے مالک بن بیٹھے ، اِن اَن پڑھ وحشیوں نے عیسائیت کو تو ضرور قبول کرلیاتھا لیکن انہوں نے درندگی وبربریت کا جو بازار گرم کیا اس کو پڑھ کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اور ایران کی صورتحال یہ تھی کہ وہاں ’’ مزدکیت ‘‘ کی دولت اور عورت میں اباحت پسندانہ اشتراکیت نے عرصے تک ملک کو نہ صرف خانہ جنگی میں مبتلا کررکھاتھا بلکہ ملک کے اخلاق کو ناقابل اصلاح حد تک تباہ کردیاتھا اور مزدکیت کی دیدہ دلیری اتنی بڑھ گئی تھی کہ اس نے بھرے دربار میں شہنشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھا ’’ کہ تیری ملکہ صرف تیری ہی نہیں ہے بلکہ اسے ہر شخص تصرف میں لاسکتاہے …؟ ؍ نوشیرواں کی تخت نشینی کے بعد آتش پرستی نے مزدکیت پر وہ ظلم ڈھائے جن پر آج بھی جبین انسانیت شرمسار ہے۔
بربریت وبہیمیت ؍اور مذہبی وفکری افلا س کے اس دور میں زمین کا ایک گوشہ ایسا تھا جہاں تاریکی کا تسلط اور زیادہ بھیانک تھا ؍ جو ممالک اس زمانے کے معیارِ تمدن کے لحاظ سے ترقی یافتہ اور متمدن تھے ان کے درمیان ’’ جزیرۂ عرب ‘‘ سب سے الگ تھلگ پڑاہواتھا اور ریت کے بڑے بڑے سمندروں نے اسے دنیا سے کاٹ رکھاتھا۔ جزیرہ عرب علم وتہذیب سے محروم تھا وہاں کے باشندوں کے پاس ایک اعلی درجہ کی باقاعدہ زبان ضرور تھی جس میں بلند خیالات کو ادا کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی ؍ ان میں بہترین ادبی ذوق بھی موجود تھا مگر ان کا جو ادب یا لٹریچر شعر کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اس کو پڑھنے سے ہمیںمعلوم ہوتاہے کہ ان کی معلومات کتنی محدود تھیں؍ تہذیب وتمدن میں ان کا درجہ کسقدر پست تھا ان پر توہم پرستی کا کسقدر غلبہ تھا ، ان کے خیالات اور ان کی عادات میںکتنی جہالت اور بربریت تھی اور ان کے اخلاقی تصورات کتنے بھدے تھے، ان کی کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی، کوئی ضابطہ اور قانون نہ تھا، صرف جنگل کے قانون کا راج تھا جس کا جس پر بس چلتا اسے مارڈالتا اور ا س کے مال پر قابض ہوجاتا۔ زنا، جوا، شراب، چوری، رہزنی، اور قتل وخوں ریزی ان کی زندگی کے معمولات تھے، وہ ایک دوسرے کے سامنے بے تکلف برہنہ ہوجاتے تھے، ان کی عورتیں ننگی ہوکر کعبہ کا طواف کرتی تھیں، وہ اپنی لڑکیوں کو اپنے ہاتھوں زندہ دفن کردیتے تھے، محض اِس جاہلانہ خیال کی بنا پر کہ کوئی ان کا داماد نہ بنے ، وہ اپنے باپوں کے مرنے کے بعد اپنی سوتیلی ماؤں سے نکاح کرلیتے تھے ؍ انہیں کھانے اور لباس وپاکیزگی کے معمولی آداب تک نہ معلوم تھے، …مذہب کے باب میں وہ ان تمام جہالتوں اور گمراہیوں کے حصہ دار تھے جن میں اس زمانہ کی دنیا مبتلا تھی۔
خواتین وحضرات!
جیساکہ آپ نے دیکھا کہ محسن انسانیت کی آمد سے قبل انسانیت کس کسمپرسی کے دور سے گذر رہی تھی ، انسانی دماغ اہرام مصر بھی بناچکاتھا ، ایلورہ اجنتابھی اور ایاصوفیہ بھی ؍توریت کی گرمی بھی دنیا میں آچکی تھی ، زبور کی شاعری بھی ، انجیل کی نرمی بی ، وید کی ذات پات کی شرمناک تقسیم بھی، کاؤشلیا کی ارتھ شاستر بھی لکھی جاچکی تھی اور ارسطو کی پالیٹکس بھی ، لیکن ان ذہنی کمالات کے ساتھ روحانی زوال بھی کم نہ تھا۔ زبوں حالی کے اِس دور میں دنیا کو ایک صالح انقلاب اور ایک ہمہ گیر شخصیت کی ضرورت تھی جو اس عالم کے مطلع پر صبح سعادت ہو، زندگی کی تاریک راتوں کے لئے صبح صادق کا مؤذن ہو، جو وسیع کائنات کو گہری نیند سے بیدار کرے، اور جو مردہ انسانیت اور پریشان حال دنیا کے لئے صورِ قیامت ثابت ہو۔
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب ساری دنیا ہی کی حالت اصلاح طلب تھی تو ہمہ گیر اصلاحی انقلاب کا مرک کہاں ہو؟ اور پھر مکہ ہی کو دعوتِ توحید کا مرکز کیوں بنایاگیا۔
اہل علم انتخاب مکہ کی جو وجوہات بیان کرتے ہیں ان میں جغرافیائی، لسانی، اور نفسیاتی وجوہات اسباب قابل ذکر ہیں،
آئیے سب سے پہلے جغرافیائی اسباب ووجوہات پر نظر ڈالیں قاہرہ یونیورسٹی میں میرے تاریخ کے استاد ، ڈاکٹر عبد الحلیم نجار کا کہنا ہے کہ ، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے بر اعظموں میں جزیرہ نمائے عرب کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ مرکز بھی ایسا کہ ایشیا میں ہوتے ہوئے بھی وہاں سے افریقہ اور یورپ سے بہت قریب ہے۔ اور کسی مرکز سے ہر انتہائی حصہ قریب ترین ہوتاہے اور ہر جگہ پہنچنا مرکز ہی سے آسان ہوتاہے ، اور یہ عجب اتفاق تھا کہ ایشیا، یورپ اور افریقہ سے طبعی مماثلت کے ساتھ ساتھ عرب میں ان تینوں بر اعظموں کے سیاسی مفادات بھی سرور کائناتؐ کی ولادت کے وقت پوری قوت سے اثر انداز تھے ، قسطنطنیہ کے رومیوں نے شمالی عرب پر ، ایرانیوں نے مشرقی اور حبشیوں نے جنوب مغربی عرب پر قبضہ رکرکھاتھا ، اور اس طرح جزیرہ عرب تینوں بر اعظموں کا مرکز یا سنگم بناہواتھا،
رہا مسئلہ لسانیاتی وجوہات کا تواس سلسلہ میں میرے ایک دوسرے استاد ڈاکٹر خلیل ناجی مرحوم پروفیسر فلالوجی، قاہرہ یونیورسٹی کہاکرتے تھے کہ عربی کا خط جمالیاتی اور تحریری نقطہ نظر سے جو صلاحیتیں رکھتاہے اور خود زبان ادائے مطالب اور فصاحب وبلاغت کی جو غیر متناہی قابلیت رکھتی تھی وہ دیگر ہمعصر متمدن زبانوں مثلًا پہلوی، یونانی، سنسکرت، لاطینی، اور چینی پر بدرجہا تفوق رکھتی تھی۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ عہدِ نبوی میں عربی زبان اتنی مستحکم ہوچکی تھی کہ آج تک پھر کبھی نہ اس کی صرف ونحو، یعنی ’’ گرامر ‘‘ بدلی گئی اور نہ ہی اس کے تلفط واملا میں کوئی ردوبدل ہوا۔ چودہ سو برس پہلے سرور کائنات ؐ نے جس زبان میں لوگوں کو مخاطب فرمایاتھا آج عالم عربی کی تمام نشرگاہیں اور صحافت اسی زبان کو استعمال کرتی ہے۔ ہندی قید، اور ایرانی آولیستا کی زبانیں تو پرانی ٹھہریں، آج سے پانچ سو پہلے کی انگریزی یا فرانسیسی کو آج انگلینڈ وفران کا کوئی عامی سمجھ نہیں سکتاہے ۔ کسی ابدی قانون کو عربی جیسی مستحکم اور امیر زبان ہی میں شائع کیاجاسکتاتھا تاکہ وہ کبھی ناقابل فہم ہوکر اذکار رفتہ نہ ہوجائے ۔
رہیں نفسیاتی وجوہات تو اس سلسلہ میں مفکرین کا کہناہے کہ جزیرہ عرب میں اس وقت تک کوئی نبی نہیں آیاتھا وہاں کے لوگوں کی ذہنی قوتیں محفوظ تھیں؍ یوگوسلاویہ کے مسلمان مستشرق ڈاکٹر عبد الکریم جریانوف نے لکھا ہے کہ جزیرہ عرب کے باشندوں میں جفاکشی، جاں فروشی، صبروضبط، مستعدی سادگی، اور اسی طرح کے دیگر بلند کردار جو ابھرتی قوم کے لئے درکار ہوتے ہیں خوب پرورش پاچکے تھے ؍صحرائی زندگی اور کھلی فضا میں پرورش کے باعث ان کی بصیرت، سماعت اور دیگر حواس بھی شہریوں کے مقابلہ میں غیر معمولی طور پر تیز تھے اور ا س سے قطع نظر چند ساحلی یا سرحدی رقبوں کو چھوڑ کر ان پر کسی بیرونی سلطنت کا قبضہ نہیں ہواتھا اور دنیا کی رہنمائی کے لئے کسی غلامانہ ذہنیت رکھنے والی قوم کی جگہ وہی قوم اور وں پر فوقیت رکھتی ہے جو آزادوں کی بھی آزاد ہو،
خواتین وحضرات!
اِن حالات اور وجاہات کے پیش نظر مکہ میں ایک شخص پیداہوتاہے ؍ بچپن ہی میں ماں باپ اور دادا کا سایہ اس کے سرسے اٹھا جاتاہے ؍ ہوش سنبھالتاہے تو بدو لڑکوں کے ساتھ بکریاں چرانے لگتاہے ؍ جوان ہوتاہے تو تجارت میں لگ جاتاہے ؍ یہ شخص جن لوگوں میں پیدا ہوا ، جن میں بچپن گزارا، جن کے ساتھ پل کر جوان ہوا، جن سے اس کا میل جول رہا، جن سے اس کے معاملات رہے؍ ابتداء ہی سے عادات میں اخلاق میں وہ ان سب سے مختلف نظر آتاہے ، وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا، اس کی صداقت پر اس کی ساری قوم گواہی دیتی ہے وہ کسی سے بدکلامی نہیں کرتا، کسی نے اس کی زبان سے کبھی گالی یا کوئی فحش بات نہیں سنی، وحشیوں کے درمیان وہ ایسا صلح پسند ہے کہ اپنی قوم میں فساد اور خونریزی کی گرم بازاری دیکھ کر اس کو اذیت ہوتی ہے؍ اپنے قبیلے کی برائیوں سے دامن بچاتاہے اور مصالحت کی کوششوں پیش پیش رہتاہے ؍ بت پرستوں کے درمیان وہ ایسا سلیم الفطرت اور صحیح العقل کہ زمین وآسمان میں کوئی چیز اسے پوجنے کے لائق نظر نہیں آتی کسی مخلوق کے آگے ا س کا سر نہیں جھکتا ؍ اس کا دل خود بخود شرک اور مخلوق پرستی سے نفرت کرتاہے ؍ اس تاریک ماحول میں یہ شخص ایسا ممتاز نظر آتاہے جیسے گھٹاٹوپ اندھیرے میں ایک شمع روشن ہو یا پتھروں کے ڈھیر میں ایک ہیرا چمک رہاہو۔
چالیس برس کی عمر تک وہ ایک عام انسان تھا، وہ پاکیزہ اخلاق؍ شائستہ اطوار؍ اور بہترین سیرت تو ضرور رکھتاتھا مگر چالیس برس کے بعد جب وہ ایک نیا پیغام لے کر نکلا تو یک لخت اس کی کایا ہی پلٹ گئی۔اب وہ ایک حیرت انگیز کلام سنارہاتھا جس کو سن کر ساری قوم مبہوت ہوگئی، اس کلام کی شدتِ تأثیر کا یہ عالم کہ اس کے کٹر دشمن بھی اس کو سنتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں یہ دل میں اتر نہ جائے۔
چالیس برس بعد وہ ایک بے مثل حکیم، ایک لاجواب مصلحِ اخلاق وتمدن؍ ایک حیرت انگیز ماہر سیاست، ایک زبردست قانون داں، ایک اعلی درجہ کا جج، ایک بے نظیر سپہ سالار بن کر ابھرا ۔ اس نے معاشرت ومعیشت اور اجتماعی معاملات نیز بین الاقوامی تعلقات کے متعلق قوانین بنانے شروع کردئیے اور ایسے قوانین بنائے کہ بڑے بڑے قانون داں غور وخوض اور عمر بھر کے تجربات کے بعد بمشکل ان کی حکمتوں کو سمجھ سکتے ہیں اور دنیا کے تجربات جتنے بڑھتے جائیں گے ان کی حکمتیں اور زیادہ کھلتی جائیں گی۔وہ الگ تھلک رہنے والا سکون پسند انسان جس کے اندر کسی نے چالیس برس تک سیاسی دلچسپی کی بو بھی نہ پائی تھی، وہ یکایک اتنا زبردست ریفارمر اور مدبر بن کر ظاہر ہوا کہ ۲۳ سال کے اندر اس نے بارہ لاکھ مربع میل میں پھیلے ہوئے ریگستان کے منتشر، جنگجو، جاہل، سرکش، غیر متمدن، اور ہمیشہ آپس میں لڑنے والے قبائل کو ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک قانون، اور ایک نظام حکومت کے تابع کردیا اس باغی قوم کو جس کی گود میں صدیوں سے کوئی ایک قابل ذکر پیدا نہ ہواتھا اس نے ایسا مردم خیز بنادیا کہ اس میں ہزاروں ایسے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے جو دنیا کو دین ، اخلاق اور تہذیب کا درس دینے کے لئے ساری دنیا میں پھیل گئے۔
)جاری ہے(