ترکی جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے نقشے پر ایشیا و یورپ کی سرحد پر ایک اہم ملک ہے ۔ آج سے دو دہائی قبل ترکی سخت معاشی مسائل کا شکار تھا ، کساد بازاری، غربت، مہنگائی ، بے روزگاری کا زور تھا، ترک فوج نے سیاسی عمل کو روک رکھا تھااور عملاً معاشرہ مفلوج ہو چکا تھا۔خلافت عثمانیہ کے بعد ترکی فوجی جرنل مصطفی کمال پاشا اتا ترک کے بعد 1961,1971,1980میں بھی فوجی حکومتوں کا سلسلہ ترکی میں جاری رہا ۔ان سب کے نتیجے میں ترکی کاجدیدیت کے نام پر سیکولر ازم سے رشتہ جوڑا گیا، لیکن خلافت عثمانیہ کارنگ اور اس کا تاریخی مقام،اسلام سے محبت آنے والی کئی نسلوں کے دلوں سے نہیں نکالی جا سکی۔حالات نے پلٹا کھایا اور آج ترکی نے گذشتہ بیس سالوںمیںوہ بے مثال ترقی کی جسے دیکھتے ہوئے پوری دنیا حیران و پریشان ہو کر رہ گئی۔جس طرح ترکی نے خود کو پُر امن ترین ملک ہونے کا اعزاز بھی دلایا۔یہ وہی ملک تاریخ کے اوراق میںرقم ہوا ہے جہاں کسی فوجی بغاوت کو عوام نے یکسر ناکام بنایا۔ سچ یہ ہے کہ ترکی میں اسلامی روایات کی واپسی نئی مسجدوں کی تعمیر، شراب کی فروخت میں حد بندی، مذہبی گفتگو کی آزادی وغیرہ کی بحالی اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی بے باک ترجمانی دیکھ کر ترک صدر رجب طیب ایردوان کو صلاح الدین ایوبی تصور کیا جاتا ہے۔
ترکی اور پاکستان کے انتہائی گہرے مراسم گزشتہ 70سال سے تسلسل کے ساتھ قائم ہیں۔ اس بات سے اندازہ کریںکہ ترک عوام شاعر مشرق علامہ اقبال کی شاعری وفکر میں دی جانے والی رہنمائی کی وجہ سے ان کے اتنے دلدادہ اور عقیدت مند ہیں کہ ترکوں نے رومی کے مزار کے احاطے میں اقبال کا علامتی مزار بنایا ہے ۔ترکی اور پاکستان میں باہمی تعاون کا معاہدہ 1954ء میں وجود میں آیا جس کے الفاظ کچھ یوں تھے: ”ترکی اور پاکستان کے درمیان دوستی کے جذبے کے ساتھ طے پایا گیا ہے کہ سیاسی ‘ ثقافتی اور معاشی دائروں کے اندر اور اس کے ساتھ امن اور تحفظ کی خاطر ہم زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعاون حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہیں گے۔‘‘
اسی ضمن میں ان تعلقات کو عوامی فلاح و بہبود کے لیے بروئے کار لانے اور عوامی سطح تک منتقل کرنے کے لیے پاکستان میڈیا کلب کے زیر اہتما م پاکستانی الیکٹرانک میڈیا اور اراکین پارلیمنٹ پر مبنی 70رکنی وفد نے ترکی کاپانچ روزہ دورہ کیا۔اس وفد کی خاص بات یہ تھی کہ پاکستان اور ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس سطح کا اتنا بڑا وفد ترکی کے دورے پرگیا۔پاکستان میڈیا کلب کے چیئرمین ضیاء خان کی قیادت میں یہ وفد استنبول روانہ ہوا۔ان کے ہمراہ کراچی، لاہور، کوئٹہ،اسلام آباداورپشاور سے تعلق رکھنے والے 48صحافی، اینکر پرسن، ڈائریکٹر نیوز، کرنٹ افیئرز،پروڈیوسرز جن میں وسیم بادامی، عادل شاہ زیب، طلعت شبیر، احتشام امیر الدین، ایاز شجاع، ہمایوں سلیم، عزیز اللہ،عبد الجبار و دیگر شامل تھے جبکہ صوبہ بلوچستان کے وزیر اطلاعات ظہوربلیدی،وزیر داخلہ سلیم کھوسو، وزیر خزانہ محمد عارف، خیبر پختونخواہ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکرمحمود جان، وزیر معدنیات ڈاکٹر امجد، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کامران خان بنگش کے علاوہ سندھ سے ممبر اسمبلی ارسلان تاج، اسد خان، پنجاب اسمبلی سے میمونہ وحید، سعدیہ سہیل،رکن بلوچستان اسمبلی معصومہ حیات،بشریٰ رند،شکیلہ نوید، ثناء اللہ بلوچ، رکن خیبر پختونخواہ اسمبلی سید فخر جہان، مصورخان، شاہدہ بی بی،سابق رکن قومی اسمبلی عائشہ سید،ثمینہ سعید، فائزہ ملک سمیت دیگر اراکین اسمبلی بھی اس وفد میں پاکستان کے تمام صوبوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔
دورے میںپاکستانی وفد کے اعزاز میں استنبول اور انقرہ قیام کے دوران مختلف استقبالیہ تقاریب کا بھی انعقاد کیا گیا ۔استنبول میں پاکستان کے قونصل جنرل بلال پاشا نے وفد کے اعزاز میںخصوصی استقبالیہ بھی دیا۔اس دورے کا مقصد جہاں پاکستان و ترکی کے درمیان مضبوط باہمی تعلقات کا قیام تھا وہاں میڈیا کے حوالے سے مختلف تربیتی وپیشہ وارانہ امور سے متعلق کچھ منصوبوں پر باہمی رضا مندی سے پیش رفت کی گئی ۔اس مقصد کے لیے استنبول میں وفد نے ترکی کے دو بڑے میڈیا گروپس صباح اور ’یانی شفق‘ کی دعوت پر ان کے مرکزی دفاتر کا دورہ بھی کیا ۔
جسٹس پارٹی کے ڈپٹی ہیڈ خارجہ امور ، پاک ترک کلچرل ایسو سی ایشن کے صدر انجینئر برہان کایا ترک نے بھی ایک استقبالیہ تقریب میںوفد کا گرم جوشی سے استقبال کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میڈیا کلب نے پاک ترک تعلقات میں ایک پل کا کردار ادا کیا ہے ، جس پر ہم ان کے کردار کو سراہتے ہیں۔
پاک ترک کلچرل فورم کے سیکریٹری جنرل اور ترکش ریڈیو ٹیلی ویژن کی اردو سروس کے ہیڈ ، پاکستان میڈیا کلب کے مقامی ترجمان ،معروف صحافی ڈاکٹر فرقان حمید نے وفد کا گرم جو شی سے استقبال کیا،پورے دورے میں وہ آفیشل ترجمان کے طور پرمترجم ، رہنمائی ،میزبانی کی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دیتے رہے ۔
صوبہ بلوچستان کے وزیر خزانہ محمد عارف، صوبائی وزیر اطلاعات ظہور بلیدی، وزیر داخلہ بلوچستان سلیم کھوسو، رکن صوبائی اسمبلی ثناء اللہ بلوچ ، بشریٰ رند ، شکیلہ نوید ،معصومہ حیات سمیت دیگر اراکین بلوچستان اسمبلی نے بھی ترک صدر سمیت تمام ترک بھائیوں کے لیے خیر سگالی اور نیک جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میڈیابھی مبارک باد کی مستحق ہے جس نے اتنا ویژنری بامقصددورہ پلان کیا۔ہم امید رکھتے ہیںکہ ترکی کی جانب سے بھی وفود پاکستان آئیں گے ۔میڈیا اورملک بھر کے اراکین پارلیمان کے ساتھ ترکی کی ترقی کے اس سفر کو جاننے کے ساتھ ساتھ اس دورے سے دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔ ایسے دوروں کا انعقا د ہونا چاہیے ۔ترکی نے جس کم مدت میں ترقی کی ہے وہ بہت مثالی اور حوصلہ افزا ء ہے۔ انہوں کہاکہ ایسے دورہ جات دونوں ممالک کی ترقی کے لیے کار آمد ثابت ہوں گے جن میں دو ممالک کے تعلقات کے علاوہ بہت کچھ سیکھنے اور عوامی بہبود کے حوالے سے نئے آئیڈیاز جاننے کا موقع بھی ملتا ہے۔انہوں نے بھی علی شاہین کودورہ بلوچستان کی باقاعدہ دعوت بھی دی۔
پنجاب سے رکن اسمبلی سعدیہ سہیل رانا،میمونہ حیات ،فائزہ ملک نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ترکی کے لوگوں کے ایک دوسرے کے لیے احترام اور دوستی کے مثالی برادرانہ جذبات ہیں جو ہمیشہ سے قائم ہیں،دونوں ملکوں کے درمیان بہتر معاشی تعاون کے ساتھ انہیںمزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ترکی کے صدر طیب اردوان کوپاکستان میں بھی آئیڈیلائز کیا جاتا ہے ۔ہمیں ترکی کی فضا میں بے پناہ محبت و خلوص اور اپنائیت محسوس ہوا ۔یہ عزت،شہرت اور نیک نامی یونہی نہیں ملی بلکہ انہوں نے ترکی کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے ملک کی معیشت میں بہتری کے ساتھ ساتھ ملک میں جاری مذہبی منافرت کو ختم کرنے کے بعد ایسی فضا قائم کی ہے کہ آج ترکی کے عوام طیب اردوان پر اپنی جان قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
جماعت اسلامی خواتین کی رہنما ،سابق رکن قومی اسمبلی عائشہ سید اور سابق رکن بلوچستان اسمبلی ثمینہ سعید نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ دنیابھر میں مسلمانوں پر کوئی تکلیف پہنچی ہے ہر اُس موقع پر ترکی کا کردار پوری دنیا کے مسلمانوںکے لیے قابل فخر ہے ۔ ترکی ہمیں اپنے گھر جیسا ہی محسوس ہوتا ہے ۔شام، برما، فلسطین اور کشمیر پر جس طرح ترکی نے کردار ادا کیا وہ انتہائی مثالی ہے۔ہم ترکی کی ترقی کے لیے دعا گو ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی ارسلان تاج،عدیل احمد اور صوبہ خیبر پختون خواہ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر محمود جان، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کامران خان بنگش، وزیر معدنیات ڈاکٹر امجد، ممبر صوبائی اسمبلی محمدمصور، رکن اسمبلی شاہدہ بی بی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ہمیشہ ترک قوم اور ترک صدر طیب اردوان کے عالمی کردار کو سراہا ہے اورہمیشہ خیر سگالی و برادرانہ تعلقات کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے تمام میزبانوں کی بے پناہ محبتوں کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے پاکستان میڈیا کلب کے چیئرمین ضیاء خان کو اس کامیاب دورے کے انعقاد پر مبارک باد دیتے ہوئے کہاکہ چاروں صوبوں سے آج پارلیمانی ارکان صرف پاکستان کی نمائندگی کر تے ہوئے یگانگت اور قومی یکجہتی کا پیغام بھی دے رہے ہیں۔ہمیں خوشی اور قدر ہے کہ دنیا میں ایک برادر اسلامی ملک ایسا بھی ہے جہاں پاکستانیوںسے بے پناہ محبت کی جاتی ہے ۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان دیرینہ، خوشگوار، لازوال اور گہرے تعلقات ہیں جن پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔دونوں ممالک مذہب،تاریخ اور ثقافت کے اٹوٹ بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ تعلقات پارلیمانی رابطوں سے مزید بہتر اوردیرپا ہو سکتے ہیں۔ ترکی اس وقت عالمی سیاحت کا اہم مرکز مانا جاتا ہے ، خیبر پختون خوا بھی اس تناظر میں بہت سارے امور پر پیش رفت کر سکتا ہے۔اس دورے سے تعلقات کی نئی راہیں کھلی ہیں۔ترک صدر رجب طیب اردوان کا عالمی منظر نامے کے ساتھ ساتھ ترکی کی ترقی میں جو عملی کردار ہے وہ قابل تقلید اور قابل تعریف ہے۔
چیئرمین پاکستان میڈیا کلب ضیاء خان نے اس حوالے سے اپنے احساسات پیش کرتے ہوئے کہاکہ پاک ترک تعلقات ایک اٹوٹ رشتے کے مانند ہیں۔ان تعلقات میں مضبوطی کے لیے علی شاہین اوربرہان کایاترک کے مرکزی کردار پر بے حد مشکور ہوں۔پاکستان میڈیا کلب کا یہ ترکی کا چوتھا دورہ ہے جس کے نتیجے میں باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے سمیت ہم کئی مشترکہ منصوبوں پر پیش رفت کرنے میں کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔اس ضمن میں ہم نے جہاں دو ممالک کو حکومتی سطح پر جوڑا ہے وہاں میڈیا، تاجر برادری اور عوام کی سطح پر بھی ہم ان تعلقات کو فروغ دے رہے ہیں۔پاکستان میڈیا کلب ترکی کے ساتھ اپنے ہر ممکن سفارتی، سیاسی،سماجی تعلقات کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کرتا رہے گا۔پاکستان اور ترکی کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا وفد ہے جس میں پاکستان کی تقریباً تمام بڑی حکومتی و اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے جو کہ اس بات کی عملی مثال ہے کہ پاک ترک تعلقات ہر قسم کے سیاسی اختلافات سے بالا تر ہیں۔پاکستان کے تمام ایشوز کو ترکی نے اپنا سمجھا ہے اور ہر موقع پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔انہوں نے گرانڈ نیشنل اسمبلی کے اسپیکر بن علی یلدرم کی جانب سے پاکستانیوں سے محبت کے بھرپور اظہار پر اسپیکر اسمبلی علی ایلدرم کا بھی شکریہ ادا کیا۔انقرہ ہی میں اراکین پارلیمنٹ کے وفد کو اے کیپارٹی کے مرکزی دفتر کا دورہ کرایا گیا اور پارٹی کے کام ، ترکی کے ترقیاتی سفر اور پالیسیز سے متعلق تفصیلی بریفنگ اور سوال جواب ہوئے ۔
انقرہ پہنچنے پر رکن ترک اسمبلی، ڈپٹی وزیریورپی یونین افیئرز اور اے کے پارٹی کے رہنماعلی شاہین نے پاکستان میڈیا کلب کے وفد کو خوش آمدید کہا اور ایک تعارفی نشست میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہپاک ترکی تعلقات کو علاقائی سطح اور پھر عوامی سطح تک جانا چاہیے ۔اس خطے میں پاکستان اور ترکی اہم کردار ادا کرنے والے ممالک ہیں۔موجودہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو میں اپنے زمانہ طالب علمی میں ہی مستقبل کا طیب اردوان قرار دیتا تھا۔پاک ترک تعلقات سیاسی جماعتوں کے درمیان نہیں عوام کے درمیان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ زمانہ طالب علمی میں کراچی یونیورسٹی میں گزارے گئے ایام ہمیشہ یاد رہیں گے۔پاکستان میں پاک ترک دوستی گروپ کا چیئرمین ہونے کی حیثیت سے خوش آمدید کہتا ہوں۔اسلام آباد سے انقرہ تک ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ میں ان تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش جاری رکھوں گا جنہیں اسٹریٹیجی مراحل تک لے جایا جائے گا ،ہمیںعلاقائی و بین الاقوامی سطح پر اشتراک کی ضرورت ہے۔دسمبر میں ہم تاجر برادری کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کی جانب پیش رفت کریں گے۔انہوں نے کہاکہ میں تو خود پاکستان کو اپنا گھر قرار دیتا ہوں۔ ہمارے تعلقات کئی دہائیوں پر محیط ہیں،موجودہ حکومت نے بھی ہمارے ساتھ ہر معاملے میں بھرپور تعاون رکھا ہوا ہے۔ پاک ترک اسکول کے معاملے میں بھی پاکستانی حکومت کی جانب سے بہت مثبت پیش رفت ہے جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ کشمیر کے معاملے پر ہمارا دل بھی پاکستانیوں کی طرح دھڑکتا ہے،مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہم بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔پاکستان کا اصل رنگ اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہنے میں اس لیے کسی صورت باہمی انتشار کو جگہ نہ دیں۔ ہماری پارلیمنٹ میں650ارکان ہیں اگر آپ ان سب سے پوچھیں کہ آپ کہاں سے ہیں تو سب یہی کہیں گے کہ پاکستان سے ہیں۔علی شاہین پاکستان کا ہی ایک بچہ ہے ، میں پاکستانیوں سے بہت محبت کرتا ہوں اور پاکستانی ہی سمجھتا ہوں۔
انقرہ میں پاکستانی وفد کے اعزاز میں ترکی کی گرانڈ نیشنل اسمبلی کے اسپیکر اور سابق وزیر اعظم بن علی یلدرم کی جانب سے ایک خصوصی استقبالیہ رکھا گیا تھا۔اس موقع پررکن اسمبلی علی شاہین، برہان کایاترک کے ساتھ پاکستانی سفیر محمد سائرس سجاد قاضی بھی موجود تھے ۔اسپیکر گرانڈ اسمبلی ترکی بن علی یلدرم نے بھی مرکزی کانفرنس ہال پہنچنے پر پاکستانی میڈیا و پارلیمانی وفد کا پرتپاک استقبال ہر فرد سے بالمشافہ مصافحہ کرکے کیا۔اسپیکر اسمبلی بن علی یلدرم نے وفد کے سربراہ چیئرمین پاکستان میڈیا کلب ضیاء خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کی نئی حکومت کے لیے ہمارے خیر سگالی و نیک جذبات ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ ہمارے تعلقات مزید آگے بڑھیں گے۔یہ تعلقات کسی حکومت کے آنے جانے کے محتاج نہیں بلکہ قلبی تعلقات ہیں۔امریکہ جس طرح ترکی کے خلاف محاذ آراء ہوا تو پاکستان کی جانب سے سب سے توانا آواز بلند ہوئی۔ترک عوام بھی سب سے زیادہ پاکستانیوں کو اپنے قریب محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے پاک ترک کلچرل ایسو سی ایشن کے صدر برہان کایا ترک کی اس حوالے سے کوششوں کو سراہتے ہوئے کہاکہ انہوں نے بھی اس حوالے سے اپنا مثبت کردار رکھا ہے اور دونوں ممالک کے مابین قریبی تعلقات کے لیے کئی سرگرمیاں کی ہیں اور ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔پاکستان نے ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے خلاف اپنا بہترین کردار ادا کیا جس سے ہمیں اپنے سچے دوستوں کا اندازہ ہوا۔ترکی میں فوجی بغاوت کے سرغنہ امریکہ میں پناہ لے کر کئی ممالک میں خفیہ سرگرمیاں کر کے ترکی کے خلاف جو سازشیں کر رہے ہیں اسے ہم آپ کے ساتھ مل کر ناکام کریں گے۔پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کے اچھے نتائج ہمیں مل رہے ہیں،تجارتی و دفاعی حوالے سے بھی ہمارے معاہدے ہونے کو ہیں۔ بن علی یلدرمنے مزید کہاکہ ترکی پاک افغان تعلقات میں بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ ترکی ایسے خطہ میں ہے جہاں کئی بین الاقوامی مسائل حل طلب ہیں۔ یہاں امن کا قیام اور اختلافات کو گفتگو سے حل کرکے پورے خطہ کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ بین الاقوامی ڈپلومیسی کے زریعہ ترکی قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔پاکستان میڈیا کلب کے چیئرمین ضیاء خان اوربلوچستان کی رکن اسمبلی بشریٰ رندنے تاریخی مہمان نوازی سے عزت افزائی پر اسپیکر اسمبلی بن علی ایلدرم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تحائف پیش کیے۔بن علی یلدرم اور علی شاہین کی جانب سے بھی یادگاری شیلڈ وفد کے سربراہ ضیاء خان کو پیش کی گئیں، جبکہ وفد کے تمام راکین کو خصوصی تحائف دیئے گئے۔