محمد انور
کراچی میں جمعہ کی صبح چینی قونصل خانے پر دہشت گردوں کے ناکام حملے کے واقعے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بھارت سمیت دشمن ممالک اور ان کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے مثبت اقدامات اور خصوصی طور پر پاک چین دوستی کے خلاف عملی مزاحمت پر اتر آئی ہیں۔ لیکن یہ ہماری اور عمران خان کی حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ چینی قونصل خانے پر اس قدر منظم حملہ بھی پولیس سمیت سیکورٹی اداروں نے ناکام بنادیا۔ حملہ آوروں کو قونصل خانے کی عمارت کے اندر داخل ہونے سے قبل ہی مقابلہ کرکے ختم کردیا گیا۔ تاہم اس ناکام حملے میں 2 پولیس اہلکار شہید، 2 نامعلوم افراد جاں بحق اور ایک سیکورٹی گارڈ زخمی ہوگیا۔ سیکورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 3 حملہ آور بھی مارے گئے، جن کے قبضے سے خودکش جیکٹ، دستی بم اور خودکار اسلحہ برآمد ہوا۔
دہشت گردی کے واقعات کا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں، اس طرح کے واقعات امریکا سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت میں یہ واقعات مسلمانوں کی نسل کُشی کے لیے مودی دورِ حکومت میں بڑھ چکے ہیں۔ بھارت کے ان واقعات کے پیچھے کٹر ہندو حکومت کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ جبکہ امریکا میں فائرنگ کے تواتر سے ہونے والے واقعات سے دنیا کی سپر طاقت کہلانے والے ملک کی اندرونی سیکورٹی کی صورتِ حال کا پول کھل چکا ہے۔ رواں سال 13 ستمبر کو کیلی فورنیا میں دہشت گردی کے ایسے ہی واقعے میں 6 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکا بھر میں فائرنگ کے واقعات میں سیکڑوں امریکی شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان واقعات میں قابلِ ذکر اکتوبر 2017ء میں لاس ویگاس میں ہونے والا واقعہ ہے جہاں ایک میوزک کنسرٹ کے دوران فائرنگ کے واقعے میں 58 افراد ہلاک اور پانچ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ پھر نومبر 2017ء میں ریاست ٹیکساس کے ایک چرچ میں فائرنگ سے 26 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ دسمبر 2015ء میں امریکی ریاست سان برنارڈینو میںمعذوروں پر فائرنگ کے واقعے میں 14 افراد ہلاک اور 22 زخمی ہوگئے تھے۔
ان واقعات کے تناظر میں اہم بات صرف یہ ہوتی ہے کہ دہشت گردوں کو کس طرح موقع پر قابو کیا گیا اور ان کے ارادے کو ناکام بناکر کس طرح ان کا مقابلہ کیا گیا۔
نئی حکومت کے قیام کے بعد کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشت گرد حملے کی ناکام کوشش نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پولیس سمیت دیگر ملکی سیکورٹی ادارے ان دنوں پہلے سے زیادہ چوکنا ہیں اور وہ دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کو روکنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ چینی قونصل خانے پر حملے کے پیچھے کون سی بیرونی قوتوں کا ہاتھ ہے یہ بات تو جلد سامنے آجائے گی، کیونکہ چار میں سے تین دہشت گرد موقع پر ہی مارے گئے۔ ایک دہشت گرد موقع سے فرار ہوچکا ہے، لیکن قوی امکان ہے کہ کراچی پولیس اسے جلد گرفتار کرلے گی۔ مرنے والوں کی شناخت اور مفرور ملزم کی گرفتاری کے بعد یہ بات پتا لگانا مشکل نہیں ہوگی کہ یہ دہشت گرد کون تھے اور کن کے اشارے یا ہدایت پر یہ گھناؤنی کارروائی کررہے تھے؟
فوری طور پر اطمینان کی بات یہ ہے کہ چینی سفارت خانے کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کے خلاف بروقت کارروائی پر پاکستانی فوج اور پولیس کی تعریف کرتے ہیں۔ اب صورت حال کنٹرول میں ہے اور 3دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا جبکہ حملے میں کوئی چینی شہری ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔
چین کا فوری طور پر یہ ردعمل یقینی طور پر سیکورٹی اداروں اور حکومتِ پاکستان کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ کسی بھی ملک کے اہم فرائض میں غیر ملکیوں کی حفاظت اہم ترجیحات میں شامل ہوتی ہے۔ اس واقعے میں پاکستانی پولیس اہلکاروں اور دیگر دو افراد کی ہلاکت نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستانی قوم اور ادارے اپنی جان کی قربانی دے کر اپنے مہمان غیر ملکوں کا تحفظ کرتے ہیں۔
مراد علی شاہ کا دہشت گردوں کے شہر میں داخلے پر اظہارِ برہمی
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے دہشت گردوں کے حملے کو ناکام بنانے پر جہاں اطمینان کا اظہار کیا، وہیں پر پولیس اور دیگر اداروں کے افسران کی اس بات پر سرزنش بھی کی کہ آخر دہشت گرد شہر میں داخل کیسے ہوئے؟ انہوں نے پولیس حکام اور دیگر اداروں کو ہدایت کی کہ سیکورٹی کے انتظامات اس طرح بنائے جائیں کہ دہشت گرد صوبے کے شہروں میں داخل ہی نہ ہوسکیں۔
خاتون پولیس افسر کا مثالی جرأت مندانہ کردار
کراچی میں چینی قونصل خانے پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے جواب میں کیے جانے والے پولیس آپریشن کی قیادت نوجوان اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس (اے ایس پی) سہائے عزیز تالپور نے دیگر مرد افسران کے ساتھ کی، اور پاکستانی خواتین کے لیے بہادری کی نئی مثال رقم کردی۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے خاتون پولیس افسر کو شاباش دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے بہادری کی مثال قائم کی ہے۔ جبکہ آئی جی سندھ کلیم امام نے بھی ان کی بہادری کو سراہتے ہوئے ان کا کندھا تھپتھپایا، جبکہ وہاں موجود دیگر افسران نے بھی خاتون پولیس افسر کا حوصلہ بڑھایا۔ آئی جی سندھ کی جانب سے اے ایس پی کلفٹن سہائے عزیز کو قائداعظم پولیس میڈل (QPM) دیئے جانے کے لیے باقاعدہ سفارش کردی گئی ہے۔
ضلع ٹنڈو محمد خان کے گاؤں بھائی خان تالپور سے تعلق رکھنے والی سہائے نے 2013ء میں سینٹرل سپیریئر سروس (سی ایس ایس) کے امتحان میں کامیابی حاصل کرکے بطور اے ایس پی، پولیس میں شمولیت اختیار کی۔ ان کے والد ڈاکٹر عزیز تالپور ایک سرگرم سیاسی کارکن اور مصنف ہیں جنہوں نے اپنی بیٹی کی تعلیم کو خصوصی اہمیت دی۔ سہائے عزیز کے مطابق وہ سندھ کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون ہیں جو سندھ پولیس میں اس رینک تک پہنچیں۔ ان کے مطابق ان کی کامیابی والدین کے اس فیصلے کی مرہونِ منت ہے کہ انہوں نے خاندان کی مخالفت کے باوجود سہائے کا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ اپنی کامیابی کے سفر کے آغاز کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب میرے والدین نے مجھے اسکول میں داخل کروانا چاہا تو زیادہ تر رشتے داروں نے اس کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ میرے اہلِ خانہ کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور مخالفت اتنی شدید تھی کہ ہمیں گھر چھوڑ کر قریبی علاقے میں منتقل ہونا پڑا، لیکن جب میں نے سینٹرل سپیریئر سروس (سی ایس ایس) کا امتحان پاس کیا اور بتایا کہ میں پولیس میں بطور اے ایس پی شمولیت اختیار کررہی ہوں تو میرے ان عزیزوں نے بھی رابطہ کرنا شروع کردیا جنہیں میں جانتی تک نہیں تھی۔