نصیحت

842

سیدہ عنبرین عالم
’’بری بات کے جواب میں ایسی بات کہو، جو نہایت اچھی ہو۔ اور یہ جو کچھ بیان کرتے ہیں، ہمیں خوب معلوم ہے۔ اور کہو کہ اے میرے رب! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (سورۃ المومنون: 96۔97)
ناصرہ کی شادی قریب تھی اور اُس کی والدہ اُسے مسلسل نصیحتیں کرتی رہتی تھیں: ’’بیٹا! کسی کی بات بری لگے تو چپ ہوجانا، سسرال کتنی بھی اچھی ہو، سسرال سسرال ہوتی ہے، وہ لوگ تم سے ایسے درگزر نہیں کریں گے جیسے تمہارے اپنے ماں باپ، بھائی بہن کرلیتے ہیں، وہ تو موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، انہیں موقع نہ دینا میری بیٹی‘‘۔
’’ہاں تو کیا سر پر چڑھا لوں؟ جتنا دبوںگی اتنا دبائیں گے، میں تو ایک کی دس سنائوں گی، بولتی بند کردوں گی، آئندہ کسی کی ہمت نہیں ہوگی مجھ سے پنگا لینے کی، میں تو اپنے بچوں کو بھی یہی سکھائوں گی کہ پٹ کے آئو تو گھر مت آنا، ہمیشہ پیٹ کر آنا، پٹ کر نہیں۔‘‘ ناصرہ نے کہا۔
’’نہیں بیٹا، ایسا نہیں کہتے۔ صبر اور برداشت سے کام لیتے ہیں۔‘‘ امی نے سمجھایا۔
’’امی! ہم نے اچھی طرح دیکھ لیا کہ صبر اور برداشت نے آپ کا سسرال میں کیا حشر کیا۔ آپ کی نندیں دوسری بھاوجوں کو کچھ نہیں کہتیں مگر آپ کو سنا کر چلی جاتی ہیں، کیونکہ پتا ہے کہ آپ جواب میں کچھ نہیں بولیں گی۔ ابو بھی آپ پر چلاّتے رہتے ہیں، دادی بھی جب تک زندہ رہیں جی بھر کے آپ کو بے عزت کیا، حالانکہ کوئی اور بہو اُن کی تیز زبان کی وجہ سے انہیں رکھنے پر تیار نہیں تھی، آپ نے تمام عمر اُن کی خدمت کی۔‘‘ ناصرہ نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔
’’بیٹا! یہی تو بات ہے۔ میں مومن ہوں، فساد کو ٹالتی ہوں، اور جو فساد کرتے ہیں اُن کا فیصلہ اللہ کرے گا کہ وہ کیا ہیں۔ تمہاری غلط فہمی یہ ہے کہ اگر ہم فساد کو ٹالتے ہیں تو اس کا صلہ ہمیں لوگوں سے ملے، لوگ ہمارے صبر کی تعریف کریں۔ جب کہ مجھے صلے کی تمنا صرف اللہ سے ہے، لوگوں سے مجھے کسی صلے کی توقع کبھی رہی ہے نہ ہوگی۔ سورہ مومنون میں اللہ کا حکم ہے کہ بری بات کا جواب اچھی بات سے دو۔ میں اللہ کا حکم مانتی ہوں۔ کوئی اور کیا کرتا ہے، یہ میرا مسئلہ نہیں ہے، وہ اپنے اعمال کا جواب خود دے گا۔‘‘ امی نے ناصرہ کو سمجھایا۔
’’آپ نے دادی کو کیوں اپنے ساتھ رکھا؟ وہ نہ ہوتیں تو آپ کی زندگی بہت بہتر ہوتی۔‘‘ ناصرہ نے کہا۔
’’بیٹا ہمارے معاشرے میں لڑکی کے ماں باپ کے کوئی حقوق نہیں ہوتے، خصوصاً جن والدین کی صرف بیٹیاں ہوں ان کو بیٹیاں پیدا کرنے کے جرم میں آخری عمر میں اکیلا سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، خدمت کرانے کا حق صرف بیٹوں کے ماں باپ کو ہے، پوتے پوتیوں میں، بھرے پُرے گھر میں رہنے کا حق بھی صرف بیٹوں کے ماں باپ کا ہے، جن کی صرف بیٹیاں ہوں وہ آخری عمر میں تنہا رہ جاتے ہیں، میری امی کی طرح۔‘‘ امی نے کہا۔
’’ہاں! نانا کے انتقال کے بعد نانی اکیلی رہ گئی تھیں۔‘‘ ناصرہ نے کہا۔
’’ہاں بیٹا! اُس وقت ہم مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے تھے اور تمہاری دادی کا بڑا رعب ودبدبہ تھا‘ وہ میرے ابو کے سوئم کے دن میری امی کو اپنے گھر لے آئیں۔ گیارہ سال میری والدہ حیات رہیں اور میرے ساتھ رہیں۔ گھر میں کھانے پینے کی جو چیز آتی، تمہاری دادی پہلے میری امی کو دیتیں، بعد میں سب کو تقسیم کی جاتی۔ کبھی غیریت نہیں برتی۔ تمہارے ابو دو ہزار روپے ہر مہینے مجھے الگ سے دیتے کہ اپنی امی کو دے دینا، بزرگ خالی ہاتھ اچھے نہیں لگتے۔ پھر ان کے علاج سمیت سب خرچا تمہارے ابو نے اٹھایا۔ تمہیں وہ گالیاں نظر آتی ہیں جو تمہاری دادی اور ابو مجھے دیتے رہے، مگر میں ان کا دل دیکھتی ہوں۔‘‘ امی نے جواب دیا۔
’’مگر نانی بھی تو آپ کی بے عزتی پر روتی تھیں۔‘‘ ناصرہ نے اعتراض کیا۔
’’روتی تھیں مگر میری آنکھوں کے سامنے تھیں، مجھے تسلی تھی۔ سسرال تو ایسی ہی ہوتی ہے، مگر تمہاری دادی اور ابو نے مجھ پر جو احسان کیا، میری ماں کو اپنی ماں سمجھا، وہ میرے دل میں اتنی گنجائش پیدا کرگیا کہ کوئی شکایت نہ رہی۔ اور ڈانٹا بھی تو غلطی پر ڈانٹا۔ تمہاری دادی بھی میری ماں تھیں، بلاوجہ کیوں ڈانٹیں گی! بس مزاج میں تیزی تھی، اپنی بیٹیوں کو بھی ہمیشہ ایسے ہی ڈانٹا۔‘‘ امی نے دادی کے حق میں بات کی۔
’’لیکن جب ان کے سب بیٹے الگ ہوئے تو اسی مزاج کی وجہ سے انہیں کوئی رکھنے پر راضی نہ تھا، آخر میں تو بہت چڑچڑی اور بیمار ہوگئی تھیں، باتھ روم بھی نہیں جاسکتی تھیں، چار سال آپ نے اُن کے بستر پر اُن کی صفائی کی، یہ کام تو ان کی بیٹیوں نے بھی نہیں کیا۔‘‘ ناصرہ بولی۔
’’میں بھی تو ان کی بیٹی ہوں، بیٹا! دنیا کا اصول ہے: اچھا کرو گے اچھا ملے گا۔ میری ساس بہت نیک خاتون تھیں، ایک میری امی کی ہی نہیں ہر لاوارث، یتیم، محتاج کی مدد کرتی تھیں۔ بس زبان کڑوی تھی، وہ بھی گھر والوں پر رعب رکھنے کی عادت تھی ورنہ جو لوگ مدد مانگنے ان کے پاس آتے تھے، ان کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر چپکے چپکے بات کرتی تھیں تاکہ کسی کو ان کے حالات پتا نہ چلیں، ان کی بے عزتی نہ ہو، نہ یہ پتا چلے کہ انہوں نے ان کی کیا مدد کی۔ اتنی اچھی تھیں میری ساس۔‘‘ امی نے بڑے فخر سے کہا۔
’’ہاں ان کے جنازے پر کئی لوگ ایسے آئے تھے کہ رو رو کر ہلکان تھے اور ہم انہیں جانتے تک نہیں تھے۔ سختی اصل میں دادی نظم و ضبط کے لیے کرتی تھیں۔‘‘ بات ناصرہ کی سمجھ میں آگئی تھی۔
’’ہاں بیٹا! لیکن مزاج کی یہ سختی دادی، نانی یا ماں بننے کے بعد بچوں کے ساتھ ہی جچتی ہے، نئی نویلی دلہن کو زبان بند کرکے رہنا پڑتا ہے۔ جو کچھ تم نے مجھ سے 25 سال میں سیکھا، ہوسکتا ہے کہ وہ تمہارے سسرال والوں کو غلط لگے، مگر تم کو بحث نہیں کرنی، تمہیں وہی کرنا ہے جو اُن کے گھر کا طریقہ ہے، کیونکہ اب تم اُن کے گھر کا حصہ ہو۔‘‘ امی نے سمجھایا۔
’’ہوسکتا ہے میری ساس اتنی اچھی نہ ہوں جتنی آپ کی تھیں کہ صرف زبان سے ہی برا بھلا کہیں، اور دل اتنا نرم کہ آپ کو بخار بھی ہوجاتا تو ساری رات بیٹھ کر آپ کے ماتھے پر پٹیاں رکھتیں، اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتیں اور ٹھیک ہوتے ہی پھر گالیاں۔‘‘ ناصرہ ہنس پڑی۔
’’بیٹا! تم ایک نئے گھر میں جا رہی ہو، وہاں ظاہر ہے کہ شروع میں تمہیں سب کچھ مختلف لگے گا، وہاں کے لوگوں کی عادتیں بھی الگ لگیں گی، ہوسکتا ہے کہ اُن کا رویہ بھی تم سے ٹھیک نہ ہو۔ مگر یہ یاد رکھنا کہ آگئی ہو اور اب جانا نہیں ہے، یہیں ساری زندگی انہی لوگوں کے ساتھ گزارنی ہے۔ ان سب کا مزاج سمجھنے کی کوشش کرو، طور طریقے دیکھو، ان کے ہاں آنے جانے والوں میں کس سے کیا سلوک ہے، نوٹ کرو۔ یہ سب کم از کم تین مہینے کرنا ہے اور بولنا بالکل نہیں۔ جب کچھ سمجھ آنے لگے تو کبھی کبھار بولا کرو۔‘‘ امی نے نصیحت کی۔
’’مگر میں تو پانچ منٹ سے زیادہ چپ رہ ہی نہیں سکتی۔‘‘ ناصرہ پریشانی سے بولی۔
’’رہنا پڑے گا میری بچی! جب تک تمہاری گود میں بیٹا نہ آجائے۔ پھر تم مضبوط ہوجائو گی۔ اس کے باوجود بڑے چھوٹے کی خدمت کرتی رہنا اور کم سے کم بولنا۔‘‘ امی نے بتایا۔
’’میں کیوں کروں گی سب کی خدمت! میں کوئی ماسی ہوں کیا؟‘‘ ناصرہ نے جھٹکے سے کہا۔ امی ہنسنے لگیں، پھر ٹھنڈی آہ بھر کر کہا ’’بیٹا میں ایم ایس سی ہوں، قرآن حفظ کیا ہوا ہے، مگر دو مہینے میں ٹائیفائیڈ کی وجہ سے کوئی کام نہ کرسکی تو سب مجھ سے بدل گئے تھے، تمہارے ابو تک مجھ سے تنگ آگئے تھے، صرف تمہاری نانی اور دادی نے میری خدمت کی۔ تمہاری دادی میرے حصے کا سارا کام کرتی تھیں، کیوں کہ اہمیت تو کام کی ہی ہے۔ کوئی بہو پچاس ہزار کما کر لائے مگر کام نہ کرے تو باتیں ہی سنے گی۔ مطلب کی دنیا ہے بیٹا! محبت، خلوص کچھ معنی نہیں رکھتے۔ صرف پیسہ اور کام… خدمت تو کرنی پڑے گی۔‘‘ انہوں نے بتایا۔
’’ہاں یہ تو آپ نے صحیح کہا، انسان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘ ناصرہ نے امی کی تائید کی۔
’’بیٹا! شوہر کو راضی رکھنا ہے تو اُس کے ماں باپ کو راضی رکھنا۔ تم اپنی طرف سے پوری کوشش کرو، آگے اللہ ہے نیتوں کا جاننے والا، اور کام بنانے والا۔ بیٹا میکے کی زیادہ فکر نہ کرنا، بس تمہارا گھر بس جائے تو ہم خوش ہیں، ہمیں تم سے کچھ نہیں چاہیے۔‘‘ امی نے کہا۔
’’وہ بھی تو آپ کے بیٹے ہی کی طرح ہوں گے، کوئی غیر تھوڑی ہیں۔‘‘ ناصرہ نے شرما کر کہا۔
’’یہ غلط فہمی دماغ سے نکال دو۔ ہم تو اُسے اپنا بیٹا ہی سمجھیں گے، مگر دنیا کے کوئی ماں باپ بیٹوں کی تربیت یہ کہہ کر نہیں کرتے کہ ساس سسر کو ماں باپ سمجھنا۔ یہ سنہرا اصول صرف لڑکیوں کو سکھایا جاتا ہے، دامادوں کے تو نخرے اٹھائے جاتے ہیں، انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ بیٹا! میں چاہوں تو تمہیں اقوالِ زریں قسم کی نصیحتیں کردوں، مگر میں تمہیں وہ بتا رہی ہوں جو حقیقت ہے۔ کوئی لڑکا ساس سسر کو ماں باپ نہیں سمجھتا، کیوں کہ یہ اس کی تربیت میں نہیں ہوتا۔‘‘ امی نے بتایا۔
’’مگر ابو تو نانی امی کے پیر بھی دباتے تھے، انہیں نئے جوڑے لا کر دیتے تھے، ہر ہفتے ان کی دوا ختم ہوجاتی تھی تو وہ بھی لاکر دیتے تھے۔‘‘ ناصرہ نے مثال پیش کی۔
’’ہاں بیٹا! ان مہربانیوں کے بدلے مَیں نے کیا کیا قربانیاں دیں، اس کا تمہیں اندازہ نہیں ہے، میری تو زبان ہی بند ہوگئی تھی ہر زیادتی کے آگے، اس ڈر سے کہ میری امی کو گھر سے نہ نکال دیں۔ زیادتی تو خیر کیا کرتے، بس زبان کے گھائو بہت ہیں۔‘‘ امی نے کہا۔
’’دادی کا تو خیر مزاج ہی وہ تھا، ابو سب سے بڑے ہونے کی وجہ سے رعب ڈالتے تھے۔‘‘ ناصرہ بولی۔
’’بیٹا! ایک بات یاد رکھنا کہ تم مسلمان ہو اور لا الٰہ الااللہ کی دعویدار ہو۔‘‘ امی نے کہا۔
’’اس میں کیا شک ہے امی، یہ بھی کوئی بتانے کی بات ہے!‘‘ ناصرہ نے حیرانی سے کہا۔
امی مسکرانے لگیں ’’ہاں بیٹا! یہ بات بہت اہم ہے۔ لا الٰہ الااللہ کا مطب ہے: کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے۔ یعنی مجازی خدا بھی نہیں، ساس سسر بھی نہیں، حتیٰ کہ ماں باپ بھی اللہ کی رضا کے خلاف حکم دیں تو نافرمانی جائز ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا۔
’’ارے امی! وہ لوگ بھی مسلمان ہیں۔ کوئی نماز، روزے یا زکوٰۃ وغیرہ سے منع تھوڑی کرے گا۔ قرآن تو میں روز پڑھتی ہوں، وہاں بھی پڑھتی رہوں گی ترجمے کے ساتھ۔‘‘ ناصرہ نے کہا۔
’’یہ تو ایسے ہی ہے جیسے عیسائی اتوار کے اتوار چرچ جاتے ہیں، ہندو آرتی چڑھا دیتے ہیں، تم نماز پڑھ لو۔ بیٹا! میرے نبیؐ کی سنت تو جدوجہد، اسلام کی ترویج اور جہاد ہے۔ ہر شخص کو دیکھنا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کیا خدمت کرسکتا ہے، اور جب تم اللہ کی راہ میں نکلو گی تو رکاوٹیں آئیں گی، اُس وقت تم کہو گی: نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے، اور میں صرف اللہ کا حکم مانوں گی۔‘‘ امی نے سمجھایا۔
’’اس طرح تو مسئلہ ہوجائے گا، ہوسکتا ہے کہ اللہ کی راہ میں کام کرنا اُن لوگوں کو برا لگے۔‘‘ ناصرہ بولی۔
’’بیٹا! انہیں پیار سے سمجھانا اور اپنی ذمے داریاں پوری کرنا تاکہ انہیں شکایت کا موقع نہ ملے، پھر بھی نہ مانیں تو دیکھو کہ اور کیا عملی طریقہ ہوسکتا ہے رب کو راضی کرنے کا۔ گھر کے قریب کوئی بیمار ہو تو ایک دو گھنٹے اس کی خدمت کرکے آجائو، کسی کی مال سے مدد کرسکتی ہو تو کردو، کوئی یتیم بچی پال لو جسے پوری حفاظت سے جوان کرکے بیاہ دو، کچھ نہیں تو گھر کے باہر ٹھنڈے پانی کا کولر رکھ دو اور جیسے ہی خالی ہو بھر دیا کرو۔ بیٹا! انسان چاہے تو اللہ کو راضی کرنے کے بہت راستے ہیں، بس نیت نیک ہونی چاہیے۔‘‘ امی نے سمجھایا۔
’’اعتراض کرنے والے تو ہر بات پر ہی اعتراض کرتے ہیں۔ خیر، یہ بتائیں کہ نیکی کے کام بھی تین مہینے بعد شروع کرنے ہیں یا شروع سے ہی؟‘‘ ناصرہ نے پوچھا۔
’’آج کل تم کون سا نیکی کا کام کررہی ہو، پہلے وہ تفصیل سے بتائو۔‘‘ امی نے پوچھا۔
’’آپ کو تو معلوم ہے ثمینہ آنٹی، جن کا ڈائیلاسز ہوتا ہے، وہ اور ان کے بوڑھے شوہر اکیلے رہتے ہیں، روز دوپہر میں ان کا تین وقت کا کھانا بناکر فریج میں رکھ دیتی ہوں۔ وہ سارا دن گرم کرکے کھاتے رہتے ہیں۔ اور دو جگہ درس میں جاتی ہوں اور ماسی کی بیٹی کو قرآن پڑھا رہی ہوں۔‘‘ ناصرہ نے تفصیل سے بتایا۔
’’ماشاء اللہ میری اولاد اس قابل تو ہے کہ کوئی پوچھے کہ کیا کام اللہ کو راضی کرنے کو کیا، تو دو تین کام بتا سکے۔ بیٹا آپ کا سسرال دور ہے، یہ تینوں کام اب آپ کی چھوٹی بہن کرے گی، اور آپ تین مہینے میں اپنے سسرال میں ڈھونڈو گی کہ آپ کیا عملی نیکی اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے کرسکتی ہو، اور وہ اپنا فرض سمجھ کر کرنا، کوئی آپ کو روک نہ سکے۔ بیٹا سسرال، شادی، خاندان یہ سب بھی ضروری ہے، مگر زندگی ایک ہی بار ملی ہے، اس زندگی میں سسرال کو راضی کرنے کے بجائے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرو، انسان کبھی راضی نہیں ہوتے، اور اللہ تو بس تمہاری راہ دیکھ رہا ہے۔‘‘ امی نے سمجھایا۔

حصہ