ڈاکٹر نثار احمد نثار
ڈاکٹر مختار حیات سینئر شاعر ہیں اور ادبی حلقوں میں خاصے معروف ہیں تاہم مشاعروں میں بہت کم شریک ہوتے ہیں۔ انہئوں نے گزشتہ دنوں صغیر احمد جعفری کی صدارت میں ایک نعتیہ نشست کا کا اہتمام کیا اس موقع پر انہوں نے کہ اکہ حب رسولؐ کے بغیر نعت نہیں ہوسکتی بہت سے شعرا آج تک نعت نگاری کی سعادت سے محروم ہیں۔ توصیفِ محمدؐ میں شاعر کو ذہن حاضر اور دل کو گرفت میں رکھنا پڑتا ہے تاکہ اس کی قلم سے طلوع ہونے والے حروف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لازوال شان و عظمت کے آئینہ دار ہوں۔ نعت میں مبالغہ آرائی‘ غلو یا اغراق کا کوئی پہلو نہیں ہونا چاہیے لیکن نعت کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ نعت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت رقم کرنے کے ساتھ ساتھ اصلاح معاشرہ کے مضامین بھی لکھے جارہے ہیں گویا نعت نگاری کے ذریعے ہم اسلامی تعلیمات کا پرچار کر رہے ہیں۔ نعتیہ ادب کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہے کہ شعرائے معتقدین اور شعرائے متوسطین کی نعتوں میں جمال مصطفیؐ کے رویوں کو بہ کثرت برتا گیا مگر وقت کے ساتھ ساتھ نعت گو شعرا پر یہ حقیقت بھی کھلی کہ محمد مصطفیؐ کے جمال اور سیرت کے امتزاج پر گفتگو نعت ہے ۔ ذکرِ رسولؐ کی محفلیں ہر مانے میں سجائی جاتی ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ نعتیہ مشاعرے میں صغیر احمد جعفری‘ صبیحہ قمر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد‘ حامد علی سید‘ اکرم کنجاہی‘ ڈاکٹر عبدالمختار اور شعیب نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔
لیاقت علی پراچہ کی رہائش گاہ پر نعتیہ مشاعرہ
۔18 نومبر کو لیاقت علی پراچہ کی رہائش گاہ پر بزم جہانِ حمد کے زیر اہتمام نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا یہ نعتیہ مشاعرہ سالہائے گزشتہ کی طرح نہایت پُروقار انداز میں ترتیب دیا گیا تھا جس میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی جو محبتوں کے پھول نچھاور کر رہے تھے۔ پروفیسر منظر ایوبی نے صدارت کی۔ محسن اعظم ملیح آبادی اور پروفیسر خیال آفاقی مہمان خصوصی تھے۔ رونق حیات مہمان اعزازی تھے رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ حافظ نعمان طاہر نے تلاوت کلام مجید اور نعت رسولؐ کی سعادت حاصل کی۔ لیاقت علی پراچہ نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے غلام ہیں اور ذکر رسولؐ کی محافل سجانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جو لوگ اس محفل میں شریک ہیں وہ بھی اس کارِ ثواب میں شریک ہیں اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر سے ہمارا ایمان تازہ ہوتا ہے۔ ہمارے رسول تمام زمانوں کے لیے رسول بناکر بھیجے گئے‘ آپؐ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آسکتا۔ آپؐ کی زندگی کے تمام حالات اور واقعات تاریخ میں رقم ہیں ہر زمانے میں آپؐ کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے‘ اربابِ سخن نعتیہ اشعار کے ذریعے جمال مصطفیؐ اور سیرت مصطفیؐ بیان کرتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ اتباعِ حضرت محمد مصطفیؐ ہمارے اجتماعی مسائل کا حل ہے۔ صاحبِ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کی محفل میں بہت اچھا کلام پیش کیا گیا قابل مبارک باد ہیں وہ لوگ جو نعتیہ محفلیں سجاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر قیامت تک بلند رہے گا کیونکہ اس کا ذمے اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعت کہنا اس حوالے سے بہت دشوار طلب ہے کہ نعت میں غلو یا جھوٹ کی گنجائش نہیں ہوتی جب کہ غزل میں آپ اپنے محبوب کے لیے جو چاہے لکھ دیں نعت میں عبد و معبود کا فرق نمایاں ہونا چاہیے‘ مراتب رسولؐ کا خیال رکھنا چاہیے۔ نعت کہتے وقت جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا چاہیے‘ نعت میں حمدیہ مضامین نہیں لکھے جاسکتے۔ مہمانِ خصوصی محسن اعظم ملیح آبادی نے کہا کہ سیرتِ رسولؐ ہمارے لیے مشعل راہ ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گفتگو کرنا باعث ثواب آپ کی شان میں غیر مسلم شعرا نے بھی نعتیں کہی ہیں‘ آپؐ رحمت اللعالمین ہیں۔ نعت نگاری بھی فروغِ تعلیمات مصطفی کا اہم جز ہے۔ فی زمانہ نعتیہ ادب بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے بہاریہ شاعری کے علاوہ نعتیہ مجموعے بھی تواتر کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں نعتیہ مشاعرے ہماری اسلامی روایات کا حصہ ہیں۔ آج کا مشاعرہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بزم جہانِ حمد کے روح رواں طاہر سلطانی نے کہا کہ ان کا ادارہ حمد و نعت کی ترویج و ترقی میں مصروف عمل ہے اس سلسلے میں جو لوگ ہمارے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ ہمارے ادارے کے تحت ہر ماہ طرحی حمدیہ مشاعرے ہو رہے ہیں اب تک ہم ایک سو سے زائد طرحی و غیر طرحی مشاعرے ترتیب دے چکے ہیں۔ ادارۂ چمنستانِ حمد و نعت ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت بھی ہم نعتیہ مشاعرے اور نعتیہ کتب شائع کر رہے ہیں۔ نعت ریسرچ سینٹر بھی نعتیہ ادب کے فروغ میں اہم ہے۔ ہم ان شاء اللہ تعالیٰ اسلامی تعلیمات کے فروغ میں کام کرتے رہیں گے۔ مشاعرے میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ ڈاکٹر شوکت علی جوہر‘ اختر سعیدی‘ طاہر سلطان‘ رفیق مغل‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثآر احمد‘ یوسف چشتی‘ سعد الدین سعد‘ نعیم انصاری‘ شارق رشید‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ عقیل عباس جعفری‘ تنویر سخن‘ نصراللہ غالب اور ذوالفقار پرواز نے اپنا اپنا نعتیہ کلام پیش کیا۔ اس موقع پر لیاقت علی پراچہ کی جانب سے تمام شعرا کو تحائف پیش کیے گئے۔
اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام یوم اقبال کے موقع پر خصوصی لیکچر
کادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام یومِ اقبال کے موقع پر خصوصی لیکچرز کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت معروف شاعر انور شعور نے کی جب کہ مہمان خصوصی سلطان مسعود شیخ اور مہمان اعزازی ڈاکٹر عبدالمختار‘ سید نور رضوی تھے۔ اس موقع پر انور شعور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے خون میں رسولؐ کا عشق تھا اور اس آفتاب عالم تاب کے ذکر انوار سے اقبال کی شاعری منور ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقبال کی شاعری وطن اور قوم کی محبت سے شروع ہوتی ہے۔ محبت الٰہی اور محبت رسول پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔ مہمان خصوصی سلطان مسعود شیخ نے کہا کہ اقبال کی خواہش تھی کہ ایک علمی مرکز قائم کیا جائے جہاں دینی اور دنیاوی علوم کے ماہرین کو جمع کیا جائے جو اسلامی تاریخ‘ اسلامی تمدن‘ اسلامی ثقافت اور شرح اسلام سے متعلق ایسی کتابیں لکھیں جو آج کل کے دنیائے فکر میں انقلاب پیدا کردے۔ سید نور رضوی نے کہاکہ علامہ اقبال ہمیشہ مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کے قائل تھے اسے ہی ہندو مسلم اتحاد کا واحد راستہ قرار دیتے تھے۔ علامہ اقبال ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل پر غور و فکر کرتے رہے۔ عبدالمختار نے کہا کہ صاحب غنی شخصیت نور محمد کے گھر پیدا ہونے والا بچہ جس کا نام اقبال رکھا گیا بڑے ہو کر ایک عظیم انسان اور شاعر بن کر نہ صرف اپنے خاندان کا بلکہ پاکستان کا نام روشن کیا۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ 7 نومبر 1928ء کو اقبال نے پنجاب کونسل کے آئندہ اجلاس میں چند قرارداد پیش کیں جن کا مقصد خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے لیے علیحدہ علیحدہ یونیورسٹیوں کے قیام کی خاطر حکومت ہند کی توجہ مبذول کروانا تھا۔ اقبال نے اپنے تصور ریاست کے پہلے اصول کی وضاحت کرتے ہوئے مسلم استحکام کے بجائے استحکام انسانیت کا ذکر کیا۔ تقریب میں بڑی تعداد میں شعرا‘ ادبا نے شرکت کی جن شعرا نے کلام سنایا ان میں نصیر سومرو‘ وحید محسن‘ ناہید اعظمی‘ قمر جہاں قمر‘ دلشاد احمد دہلوی‘ رفیق مغل‘ تاج علی رعنا‘ جمیل ادیب سید‘ محمد علی زیدی‘ شکیل فاروقی‘ فرح دیبا‘ اوج ترمزئی‘ آصف علی آصف شامل تھے۔
غزلیں
اسد اقبال
زندگی اپنی بھلے ناشاد کی ہے
ہر گلی اس شہر کی آباد کی ہے
ہم نے دفنایا ہے ساری خواہشوں کو
حسرتوں سے جان یوں آزاد کی ہے
زندگی سے سخت اکتایا ہوا تھا
یہ محبت جس نے بھی ایجاد کی ہے
کچھ نہیں ملنا وفائوں سے تمہیں بھی
ہم نے یوں ہی زندگی برباد کی ہے
وہ نہ جانے کس قدر مجبور ہو گا
ہاتھ جوڑے جس نے بھی فریاد کی ہے
جس میں سچے ہیں اسدؔ کردار سارے
وہ کہانی بھی مرے اجداد کی ہے
.
گل افشاں
پریت کی ریت کیا نبھا پاتی
زندگی سے ڈری ہوئی لڑکی
سوچ میں گم ہے آج سورج بھی
دھوپ میں ہے کھڑی ہوئی لڑکی
جھانک کر آئنے میں کیا دیکھے
اپنے قد سے گھٹی ہوئی لڑکی
ماں کے آنچل کو تھامے بیٹھی ہے
واہموں میں گھری ہوئی لڑکی
اک کہانی معاشرے کی ہے
ٹائٹل پر چھپی ہوئی لڑکی
روز مجھ کو سلام کرتی ہے
پھول لے کر کھڑی ہوئی لڑکی
باپ حیران ماں پریشاں ہے
کتنی جلدی بڑی ہوئی لڑکی
مانگتی پھر رہی ہے روڈ پہ بھیک
بے تحاشا سجی ہوئی لڑکی
سچ تو یہ ہے کہ میں ہوں گل افشاںؔ
خاک جیسی چھنی ہوئی لڑکی
سعید سعدیؔ
دل کی بات زباں پر لا کے دیکھو تو
ہم کو اپنا حال سنا کے دیکھو تو
ہم تیری باتوں میں بھی آ سکتے ہیں
سچ میں تھوڑا جھوٹ ملا کے دیکھو تو
سورج، چاند، ستارے توڑ کے لا دوں گا
تھوڑی سی امید دِلا کے دیکھو تو
اس چہرے کے پیچھے کتنے چہرے ہیں
آئینے کے سامنے آ کے دیکھو تو
وحشت، ہُو کا عالم، سناٹا اور ہم
بیٹھے ہیں اطراف سجا کے دیکھو تو
تم نے اُس کا کہنا یوں ہی مان لیا
کچھ اپنا بھی ذہن لڑا کے دیکھو تو
آئو دیکھیں کتنے ہیں سقراط یہاں
تم لوگوں کو زہر پلا کے دیکھو تو
اجڑی بستی والو ہمت کر دیکھو
پھر کوئی زندہ شہر بسا کے دیکھو تو
ہر خواہش پوری ہو، یہ ناممکن ہے
پھر بھی تم کچھ خواب سجا کے دیکھو تو
سعدیؔ وہ ٹوٹے ہوئے دل کی سنتا ہے
اُس کے در سے آس لگا کے دیکھو تو
افشاں سحر
یاد تیری مہربانی آ گئی ہے
اور اشکوں میں روانی آ گئی ہے
خود ہی جب اُس نے تعلق توڑ ڈالا
ہم کو بھی دیوار ڈھانی آ گئی ہے
ہاں بدل ڈالا زمانے نے اُسے بھی
آگ اُس کو بھی لگانی آ گئی ہے
عشق میں پھر خود کشی کر لی کسی نے
سامنے اور اِک کہانی آ گئی ہے
آ گئے ہیں یہ مرے قد کے برابر
کیا غموں پر بھی جوانی آ گئی ہے
درد و غم اب مسکرا کر جھیلتی ہوں
بات مجھ کو بھی چھپانی آ گئی ہے
دل بڑی مشکل سے سنبھلا تھا ابھی تو
یاد پھر کوئی پرانی آ گئی ہے
شاعری جذبوں سے کرتی ہوں سحرؔ میں
بات اب مجھ کو بنانی آ گئی ہے