افروز عنایت
عابدہ: عطیہ بڑی پریشان ہے اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے۔ ایک ایک سے کہہ رہی ہے کہ میری بیٹیوں کا کہیں رشتہ لگادیں۔ اپنی ارجمند کو بھی اُس نے کہلوایا تھا لیکن…
زینب: تم… اکرم انکل کی بیٹی عطیہ کی بات کررہی ہو… جو ہمارے پڑوس میں رہتے تھے؟
عابدہ: ہاں ناں… ساری زندگی اُس نے کسی کے ساتھ نہ نبھایا اور اب… نہ بہنوں کے ساتھ، نہ پھوپھیوں کے ساتھ، نہ بھابھیوں، اور نہ ہی ساس کے ساتھ… اور شوہر سے بھی اس کی نہ نبھی۔ ہر رشتے کے ساتھ بداخلاقی کا مظاہرہ کیا۔
زینب: لیکن… اس کی بچیاں تو ٹھیک ٹھاک… میرا مطلب ہے کہ اچھی بھلی ہیں؟ پھر…
عابدہ: اور تو اور اس کی بہن نے بھی ’’ٹکا‘‘ سا جواب دے دیا کہ میرا بیٹا نہیں مان رہا۔ اس کی بداخلاقی اور سخت طبیعت سے ہر کوئی واقف ہے، کم از کم جان پہچان والے اور رشتے داروں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس کی بیٹیوں کا رشتہ لیں۔ ہاں کوئی انجانا بندہ پھنس جائے تو اور بات ہے۔
………٭٭٭………
زینب رات کو سونے کے لیے لیٹی تو اسے عابدہ کی گفتگو یاد آگئی جو اُس نے اپنی پڑوسن عطیہ کے بارے میں کی تھی۔ اُف خدایا۔ ماں کا کردار، اخلاق کس قدر بیٹیوں کی زندگی پر اثرانداز ہوسکتا ہے! بداخلاقی، لڑائی جھگڑے کا اثر تو آخرت کی زندگی پر پڑتا ہے، لیکن اس پر اِس طرح دنیا میں بھی سزا مل سکتی ہے! اس نے ایک جھرجھری لی۔ اس کی نظروں میں اس کی تینوں بیٹیوں کے سہمے چہرے سامنے آگئے۔
………٭٭٭………
عطیہ اکرم صاحب کی سب سے بڑی بیٹی تھی، منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوئی، اسی لیے وہ ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھی۔ گھر میں دولت کی فراوانی تھی، لہٰذا اس کی ہر جائز ناجائز خواہش کو پورا کرنا ماں باپ نے فرض سمجھ لیا۔ اگر وہ صبح کو رات اور رات کو صبح کہتی تو ماں باپ کی مجال نہ تھی کہ انکار کرتے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ اس کی طبیعت میں حسد، ضد، من مانی، غصہ، جھگڑالو پن بڑھتا گیا۔ خودسری کا یہ عالم تھا کہ چھوٹے بہن بھائیوں کو اپنے سامنے ٹکنے نہ دیتی۔ سمجھیں کہ گھر میں اسی کی حکمرانی تھی۔ ماں اگر بچپن میں اس کی روک تھام کی کوشش کرتی تو شاید معاملہ اتنا گمبھیر نہ ہوتا۔ عطیہ کی بدزبانی کی حالت یہ تھی کہ کوئی رشتے دار بھی اس کی زد سے نہ بچ سکا۔ جو اس کی خوشامد کرتا یا ہاں میں ہاں ملاتا وہ صحیح… اس کے ساتھ عطیہ کے تعلقات دوستانہ ہوتے۔ لیکن ذرا سی مخالفت پر وہ نہ بہنوں کا، نہ بھائیوں کا لحاظ کرتی۔ گھر میں بھابھیاں آئیں تو وہ بے چاریاں سہمی سہمی اپنی عزت بچا کر رکھتیں۔ عطیہ نے جوانی میں قدم رکھا تو ماں باپ کو بڑی پریشانی لاحق ہوگئی، کیونکہ نہ ہی رشتے داروں اور نہ عزیزوں و پڑوسیوں میں سے کوئی آگے بڑھا۔ آخرکار میرج بیورو والوں سے مدد لی گئی اور ایک انجانی فیملی میں عطیہ کا رشتہ طے پایا۔ اکرم صاحب نے خوب جہیز دیا کہ بچی سے سسرال والے خوش رہیں۔ لیکن کچھ ہی دنوں میں وہاں بھی اُس نے اپنا وہی چلن اختیار کیا۔ گھر میں صرف ایک ساس ہی تھی، اُس کی بھی زندگی عطیہ نے حرام کردی، شوہر بھی اس کے تلخ رویّے کی وجہ سے نالاں رہتا۔ آخر اس نے والدہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی کرلی اور اپنا زیادہ وقت وہیں گزارنے لگا۔ اس سانحہ کا بھی عطیہ پر کوئی زیادہ اثر نہ ہوا، نہ اس کے رویّے میں تبدیلی آئی۔ آس پڑوس اور رشتے دار اس سے کنی کتراتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی بچیاں جوان ہوئیں تب اسے کچھ احساس ہوا۔ اگرچہ اس میں بہت حد تک سدھار آگیا، لیکن اس کے پچھلے رویّے کی وجہ سے لوگ ڈرتے تھے کہ کہیں اس کی بچیاں بھی اپنی ماں پر نہ گئی ہوں، یا کہیں شادی کے بعد وہ بچیوں کی زندگی میں دخل اندازی نہ کرے، کیونکہ ماضی میں اس کی دخل اندازی کی وجہ سے اس کی چھوٹی بہن کا گھر بھی ٹوٹتے ٹوٹتے بچا تھا اور اس بات سے اکثر لوگ واقف تھے۔ عطیہ کی اس صورت حال کی وجہ سے آس پاس کے لوگوں کو عبرت ہوئی کہ بچوں، خصوصاً بچیوں کی تربیت میں والدین اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ خوش اخلاقی، نرمی، درگزر اور محبت کا رویہ رکھیں۔
………٭٭٭………
مجھے جب یہ حقیقی واقعہ میری عزیزہ نے بتایا تو میں سوچنے لگی کہ ماں کا کردار اور اس کا ماضی کس قدر اہم ہے، خصوصاً اس کا لوگوں کے ساتھ منفی رویہ نہ صرف اس کی زندگی پر، بلکہ اس سے زیادہ اس کی اولاد پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ خصوصاً بیٹیوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ماں کا ’’عکس‘‘ ہوتی ہیں، لوگ انہیں ان کی مائوں کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ مجھے ایک خاتون نے بتایا کہ میری بیٹی کے لیے جب رشتہ آیا تو اتفاقاً ہمارے جاننے والوں کے ساتھ لڑکے والوں کے دوستانہ تعلقات تھے۔ لڑکے والوں نے ان سے صرف یہ پوچھا کہ ویسے تو سب صحیح لگ رہا ہے، ہمیں صرف یہ بتائیں کہ لڑکی کی والدہ کیسی طبیعت کی مالک ہیں۔ واقف فیملی نے انہیں بتایا کہ لڑکی کی والدہ پڑھی لکھی اور بہت سادہ طبیعت کی مالک ہیں۔ لہٰذا لڑکے والوں نے فوراً وہ رشتہ طے کردیا۔ اس طرح نہ صرف خیر و خوبی سے وہ شادی انجام پائی بلکہ ہنسی خوشی زندگی بسر ہورہی ہے۔ اس مضمون کی تیاری کے سلسلے میں ایک بچی نے مجھ سے کہا کہ کیا باپ کی شخصیت کا بیٹی پر یا بیٹے پر اثر نہیں ہوتا؟ یقینا ہوتا ہے، لیکن اتنے گہرے نقوش نہیں چھوڑتا جتنا ماں کا رویہ یا اخلاق اثرانداز ہوتا ہے۔ میری ایک عزیزہ نے بتایا کہ میری بہن نے اپنی بیٹی کے لیے میرے بیٹے سے نسبت چاہی، میری بہن بااخلاق ہے لیکن اس کا شوہر نہایت جھگڑالو اور بحث مباحثہ والا شخص ہے، لہٰذا میں نے اپنی بہن سے معذرت طلب کی۔
یہاں میں نے بداخلاقی یا لڑائی جھگڑے کا صرف ایک نقصان بیان کیا ہے، لیکن بداخلاقی، لڑائی جھگڑا، حسد، غصہ… یہ وہ برائیاں ہیں جن سے بچنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ کیونکہ مندرجہ بالا خصلتوں کا مالک نہ صرف اپنی زندگی میں زہر گھولتا ہے بلکہ اس کا اثر اُس کے چاروں طرف رہنے والوں پر بھی پڑتا ہے۔ ایسے بندے سے لوگ کتراتے ہیں، اسے ناپسند کرتے ہیں، اس سے کسی قسم کا تعلق یا ناتا جوڑنے سے پرہیز کرتے ہیں، یہاں تک کہ کسی ادارے میں اس قسم کے ملازم یا افسر سے بھی لوگ مجبوراً تعلقات نبھاتے ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ رب العزت نے بداخلاقی کو ناپسند فرمایا ہے۔ دینِ اسلام نے بار بار باہمی تعلقات استوار کرنے کے لیے نرم خوئی، خوش اخلاقی، ہمدردی، محبت، انکسار اور درگزر کی تاکید فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ان درج بالا خوبیوں کا مجسم پیکر تھی جس کی بدولت عرب و صحرا کے باسیوں کے دل مسخر ہوئے۔ لہٰذا ہر مسلمان کا اپنی ذات کو ان خوبیوں سے آراستہ کرنا لازمی ہے، تا کہ وہ دنیاوی و اخروی فائدے حاصل کرسکے، خصوصاً بیٹیوں کی مائوں کو شروع سے اپنی بیٹیوں کی تربیت میں نرمی، خوش اخلاقی، درگزر، محبت و انکسار جیسی خوبیاں اُجاگر کرنا لازمیہہیں تا کہ وہ نہ صرف اچھی بیٹیاں، بہنیں، بیویاں، بہوئیں، بلکہ اچھی مائیں بھی ثابت ہوں۔ (آمین)