بھرا بھرا میرا گھر

648

توقیر عائشہ
’’کیا آپ کا گھر صاف ستھرا ہے؟‘‘
’’ہاں بھئی! ابھی تو ماسی گئی ہے کام کرکے۔‘‘
’’پھر بھی سب کچھ بکھرا بکھرا سا لگ رہا ہے۔‘‘
’’بھئی آپ کو مسئلہ کیا ہے؟؟‘‘
’’میرا مطلب ہے کہ کافی بھرا بھرا سا لگ رہا ہے۔‘‘
’’اللہ رکھے میرے گھر میں سہولت کی ہر چیز جو ہے۔‘‘
’’معاف کیجیے گا… کیبنٹس ہیں، الماریاں ہیں، ریک ہیں، پھر بھی سامان سامنے ہی کیوں رکھا ہے؟‘‘
’’اصل میں وہ جو اسٹوریج کی جگہیں ہیں، اُن میں بھی سامان ہی رکھا ہے۔‘‘
اس گفتگو کے بعد اب تو دل چاہتا ہے کہ خاتونِ خانہ اِدھر اُدھر ہوں تو ذرا ان کیبنٹس اور الماریوں میں جھانک کر دیکھیں کہ آخر ان میں ایسا کیا رکھا ہے کہ گھریلو استعمال کی عام اشیا ان کے اندر رکھنے کے بجائے ملحقہ میزوں اور کاؤنٹرز پر پڑی ہیں؟
تو چلتے ہیں ذرا تانک جھانک کرنے۔ ابتدا باورچی خانے سے کرتے ہیں۔ اس کی دیوار گیر الماریوں اور کیبنٹس کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ ان میں ٹوٹے ہوئے ہینڈل والے چائے کے کپ، رنگ اُڑ جانے کے باعث ایک طرف کردینے والی میلانن کی پلیٹیں، میٹھا کھانے والے بے جوڑ پیالے، دیگچیوں کے ایسے ڈھکنے جن کے اوپر کا ’’لڈ‘‘ نکل گیا ہے۔ کھانا پکانے والے اسٹیل کے ایسے چمچے جن کے لکڑی کے دستے ٹوٹ چکے ہیں۔ پلاسٹک کے ایسے چھوٹے بڑے جار جن کے ڈھکنے کھوگئے ہیں۔ اسکول کے بالکل صحیح حالت کے ایک دو لنچ باکس رکھے ہوئے ہیں۔
ذرا درازوں میں بھی نظر دوڑائیے۔ مسالہ جات، نمک، مرچ وغیرہ کی بوتلوں کے درمیان کیچپ اور جیم کی خالی بوتلیں بھی ہیں۔ کسی بوتل کی تہ میں ذرا سا سفید سرکہ، بیکنگ میں استعمال ہونے والے کوکو پائوڈر، بیکنگ پائوڈر وغیرہ کے خالی ڈبے، اور اسی طرح کی اشیاء نظر آرہی ہیں۔ پلاسٹک کے جگ، زنگ آلود ٹن کٹر، پرانی جوسر مشین اور بہت سا ایسا سامان جو استعمال کے قابل نہیں ہے، رکھا نظر آرہا ہے۔ اگر یہ سامان یہاں سے نکال دیا جائے تو کاؤنٹر پر رکھی ہوئی روزمرہ استعمال کی پلیٹیں، مگ، گلاس، بلینڈر، مکسر وغیرہ سلیقے سے ان میں رکھے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کاؤنٹر پر کام کرنے کی جگہ بھی ملے گی اور باورچی خانہ بھی کشادہ لگے گا۔
باورچی خانے سے منسلک خواب گاہ میں نظر ڈالیے تو نقشہ کچھ یوں ہے: بیڈ کے ساتھ رکھے سائیڈ بورڈ پر کچھ دوائیں، نوٹ بکس، ٹائم پیس، رسیدیں، کوئی کتاب، سوئی دھاگے کا ڈبہ، تہ کی ہوئی تولیہ، ٹشو پیپر کا ڈبہ رکھا ہوا نظر آرہا ہے۔ اچھی خاصی گنجائش والا سائیڈ بورڈ ہے جس میں درازیں بھی ہیں۔ یہ سب سامان اس کے اندر ترتیب سے رکھا جا سکتا ہے مگر… جب اس کے اندر جھانک کر دیکھا تو وہاں پرانی ڈائریاں، پرانے ٹیبل کلینڈر، بے جوڑ ہونے والی جرابیں، کٹا پھِٹا ٹشو رول، انک سے خالی پین، ٹوٹے کنگھے، بچوں کی پچھلے سال کی اسکول کی رسیدیں، پلائیر اور ہتھوڑی جو صاحبِ خانہ نے اپنی آسانی کے لیے رکھ لی ہے، ٹوٹا اسٹیپلر، موبائل فون کے کور، پرانی سی ڈیز جو اب یوٹیوب کے آجانے سے بے کار ہوچکی ہیں، کسی زمانے کی اسٹیمپ جس کے ساتھ سوکھا ہوا انک پیڈ برسوں سے لپٹا رکھا ہے، اور اسی طرح کی بے شمار چھوٹی چھوٹی چیزوں سے اس کو بھرا پایا۔
اب آئیے کپڑوں کی الماری کی طرف… صاحبِ خانہ کی پتلون جو اب ناپ کے مطابق نہیں رہی، اور کچھ مرمت طلب پتلونیں پڑی ہیں۔ کچھ ایسی شرٹس ہیں جن میں سے کسی کا رنگ پسند نہیں، کسی کا کالر تکلیف دہ ہے، کوئی استری سے جل گئی ہے۔ کچھ ٹوٹے موبائل، پرانا کیمرہ، بے جوڑ کف لنکس وغیرہ رکھے ہیں۔ الماری کا وہ حصہ جو خاتون کے زیرِ استعمال ہے، اس میں ملے جلے کپڑوں میں بہت سے ملبوسات ناقابلِ استعمال ہیں، مثلاً ایک لباس جو دھلنے سے سکڑ گیا ہے، ایک شرٹ کا ٹراؤزر کھو گیا ہے، ایک سوٹ درزی نے غلط ناپ کا سی دیا ہے۔ پرانے عبائے، کاٹن لان کے ایسے سوٹ جو رنگ اُڑ جانے یا کسی اور سبب سے پہنے نہیں جاتے لیکن ان کے دوپٹے بہت اچھی حالت میں ہیں، خاندان کے بچوں کو دیئے جانے والے کچھ گفٹ آئٹم جو کبھی دیے ہی نہیں گئے، فیشن سے باہر ہوجانے والے ہینگروں میں لٹکے پارٹی ڈریس موجود پائے۔ الماری میں اتنے فالتو سامان کے سبب کچھ ضروری ملبوسات رکھنے کے لیے خاتون کو اضافی کپڑوں کا ایک ہینگر لانا پڑا جو اب اتنا لد چکا ہے کہ خود بھی ایک الماری معلوم ہوتا ہے۔ اگر الماری سے غیر ضروری سامان نکال دیا جائے تو اس ہینگر کی ضرورت بھی نہ رہے۔ اُف… الماری کے اوپر بھی… خیر، ابھی تو ہم اُس سے صرفِ نظر ہی کرلیتے ہیں جو کچھ الماری کے اوپر رکھا نظر آرہا ہے۔ آئیے سینڈلوں اور جوتوں کی طرف۔
پارٹی ڈریس فیشن سے باہر ہوگیا تو اس کی میچنگ سینڈل بے کار ہوکر ڈبے میں پڑی ہے۔ تلّے کے کام والا ناگرہ جس کا کام بھی کالا پڑ چکا ہے۔ بالکل نئے براؤن اور بلیک پمپس، جو پاؤں میں چھالا ڈال دیتے ہیں لہٰذا پہنے نہیں جاتے۔ جب آپ کا شُو ریک انہی چیزوں سے بھرا رہے گا، تو کارآمد جوتے اور سینڈلز بیڈ کے نیچے ہی رکھے نظر آئیں گے ناں۔
اب ٹی وی لائونج کا رُخ کرتے ہیں۔ یہاں ڈائننگ ٹیبل، وسط میں رکھی چھوٹی میز کرسیاں، دیوار گیر الماری، کئی خانوں اور درازوں والا ڈیوائیڈر موجود ہے۔ صرف ڈیوائیڈر کا جائزہ لیں تو آپ کو چکر ہی آجائیں گے۔ ہر قسم کے گھریلو کاغذات، پرانے اخبار، فائلیں، کچن کے ناکارہ ہوجانے والے برقی آلات ٹوسٹر، بلینڈر وغیرہ، بڑے بھائی بہنوں کی زمانۂ تعلیم کی موٹی کتابیں، پرانا کیسٹ ریکارڈر، ڈنر سیٹ کے بچے ہوئے بے جوڑ برتن، پرانے کیلکولیٹر، غرض ایک دنیا نظر آئے گی۔ یہ سامان نکال دیا جائے تو یہ جو ڈائننگ ٹیبل پر ضروری سامان کا انبار لگا ہے، اور وسطی میز پر جو اخبارات و رسائل اور دیگر سامان رکھا ہے، اسے ڈیوائیڈر میں رکھا جا سکتا ہے۔ اور شیشے کے برتن، گلاسوں وغیرہ کا جو ڈھیر کچن کاؤنٹر پر لگا ہے، وہ یہاں رکھا جا سکتا ہے۔ یوں آپ کا لاؤنج کشادہ نظر آئے گا۔
چلیے بچوں کے کمرے کی طرف… ٹوٹے ہوئے بیٹ، تار ٹوٹے بیڈمنٹن ریکٹ، مختلف کھلونوں کے نامکمل حصے، وہ نیا جوتا جو ناپ کے مطابق نہ نکلا اور واپس کرنے کے ارادے سے سال بھر سے پیک حالت میں رکھا ہے۔ چھوٹے ہوجانے والے نائٹ سوٹ، یونیفارم، پینٹیں، کچھ تعلیمی میٹریل، مثلاً ادھورے جیومیٹری باکس، ٹوٹے انک پین، زپ ٹوٹے پاؤچ، پچھلے سال کے اسکول کے امتحانی پرچے، کلر پینٹ کی پچکی ٹیوبیں وغیرہ، یہ سب سامان ہٹادیا جائے تو پڑھنے کی میز پر فائلیں، کورس کی کتابیں، جیومیٹری باکس اور دیگر کارآمد اشیا جو ڈھیر کی صورت رکھی ہیں، ان کو بک ریکس میں رکھا جا سکتا ہے۔ اب اس کمرے کا مکین بستر پر بیٹھ کر ہوم ورک کرنے کے بجائے میز کرسی استعمال کرسکے گا۔
اب باتھ روم کی جانب قدم بڑھاتے ہیں۔ دیوار میں نصب تین خانوں والے کیبنٹ میں ٹوتھ پیسٹ، شیمپو، صابن، کنگھا، واشنگ پاؤڈر وغیرہ کچھ اس طرح رکھا ہے کہ ایک چیز اُٹھاؤ تو دو گرتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ گنجائش والے اس کیبنٹ کے پچھلے حصے میں شیمپو کی خالی بوتلیں، ٹوتھ پیسٹ کی خالی ٹیوبیں، پلاسٹک کا ٹوٹا ہوا مگ، ڈیٹول کی خالی بوتلیں، زنگ آلود شیونگ ریزر، واشنگ پاؤڈر کے خالی ہوجانے والے ریپر اور اسی طرح کی الم غلم چیزیں بھری ہیں۔
پرانے تعمیر شدہ گھروں میں دو چھتّیاں اور اسٹور موجود ہوتے ہیں۔ ہم نے مختلف کمروں کے جس غیر ضروری سامان کا ذکر کیا ہے، اکثر وہ اسٹور اور ان دو چھتّیوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ایک خاتون نے اپنی دو چھتّی کی صفائی کی تو ان کی والدہ کو جہیز میں دیے گئے تانبے کے ایک کے اندر ایک رکھے چھ چھوٹے بڑے دیگچے برآمد ہوئے، جن کا آج کے زمانے میں استعمال کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
چلیے، اب چھت کا رخ کرتے ہیں۔ مگر یہ کیا…؟
ابھی زینے پر قدم رکھا ہی ہے، وہ بھی بچتے بچاتے… کیونکہ ابتدائی سیڑھیوں پہ پرانی جھاڑوئیں، پوچے، فنائل کے خالی ڈبے، بالٹیاں اور گھر کی ٹوٹی چپلوں نے قبضہ جما رکھا ہے۔ بمشکل چھت تک پہنچے۔
ارے بابا! یہاں شاید ردی والا اپنا ٹھیلا الٹ کر چلا گیا ہے۔ پردوں کی ٹوٹی ہوئی ریلنگز، کھونٹیاں، ٹوٹی ٹرائی سائیکل، کسی زمانے میں گھر پر ہونے والے رنگ و روغن کے خالی ڈبے، منرل واٹراور کولڈ ڈرنک کے خالی ڈبے، بائیک اور گاڑی کے خراب ہوجانے والے ٹائر، لوہے لکڑی پر مشتمل بچا ہوا تعمیراتی سامان بری طرح پھیلا ہوا ہے…یااللہ، بہتر ہے کہ اب گھر سے باہر کا ہی رُخ کرلیا جائے۔
کم و بیش ایسی ہی صورت حال بہت سے گھروں میں پائی جاتی ہے۔ ذرا سوچیے! ہمارے گھروں میں سامان کا اتنا بڑا ذخیرہ کیسے ہوگیا؟ ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب بازار یا شاپنگ مال گئے تو جو کپڑا، جوتا، کچن کے لوازمات، کراکری اچھی لگی، جیب نے اجازت دی تو خرید لی، یہ سوچے بغیر کہ ہمیں اس کی ضرورت تھی بھی یا نہیں۔ پھر پرانی چیز کو الماری یا دراز میں پیچھے کی طرف دھکیل کر آگے نئی چیز رکھ لی جاتی ہے۔
گھریلو سامان کی چھانٹی کیے بغیر نیا سامان لے لیا جاتا ہے۔ مثلاً چارج ایبل فین خراب ہوگیا تو اس کو کیبنٹ میں رکھ لیا گیا اور نیا لاکر ضرورت پوری کرلی۔ چیزوں کو بے دردی سے استعمال کیا جائے تو وہ جلد ٹوٹ جاتی ہیں۔ ان کو ریپیئر کرنے کے بجائے نئی خرید لی جاتی ہیں، اور اس طرح سامان بڑھتا چلا جاتا ہے۔ کارآمد اور بے کار سامان ملا جُلا کر رکھ دینے سے یاد بھی نہیں رہتا کہ کس دراز یا شیلف میں کیا رکھا ہے۔ اور ضرورت کے وقت بازار کی جانب دوڑ لگا دی جاتی ہے۔
یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگاکہ گھر کے سامان کو بڑھانے میں خواتین سے زیادہ مردوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کولر کی ٹونٹی بدلی جائے یا پلمبر نل بناکر جائے، ناکارہ ہوجانے والی اشیا اور بچے ہوئے پائپ کے ٹوٹے ٹکڑے ٹول بکس میں رکھ لیے جاتے ہیں۔ اس ٹول بکس میں ناکارہ ڈرل مشین کے پرزے، حتیٰ کہ ٹوٹی ہوئی ہتھوڑی پڑی ہے۔ جب آپ پھینکنا چاہیں تو کہا جاتا ہے کہ اسے ہارڈوئیر کے پاس جاکر بنوا لیں گے، اور اس کی نوبت کبھی نہیں آتی۔ پرانے اخبار آپ ردی والے کو نہیں دے سکتیں کیونکہ صاحبِ خانہ کو کسی خاص آرٹیکل کا ڈھونڈنا یاد آگیا ہے۔ سامان کی زیادتی کے باعث قسم قسم کے کیڑے مکوڑے اور چھپکلیاں بڑھتی ہیں، اور صفائی بھی صحیح طور سے نہیں ہوتی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ملازمہ کا ڈسٹنگ کردینا، فینائل کا پوچا لگا دینا مکمل صفائی نہیں ہے۔
اکثر خواتین کا خیال ہے کہ گھر کا کام تھکا دیتا ہے۔ یاد رکھیے، ہم گھر کو سامان سے جتنا بھریں گے، اپنی تھکن کا اُتنا ہی سامان کریں گے۔ تو آئیے کچھ ایسا کرتے ہیں کہ:
ناکارہ برقی آلات، لوہے، پلاسٹک، لکڑی، کاغذ پر مشتمل وہ اشیاء جو بالکل بے کار ہیں اور ریپیئر بھی نہیں ہوسکتیں، انہیں ردی والے کو دے دیں۔ وہ سامان جو کارآمد ہے لیکن ہمارے لیے کسی سبب بے فائدہ ہے، اگر اپنے اردگرد دیکھیں تو وہ اُن لوگوں کے لیے کارآمد ہے جو آپ کی طرح قوتِ خرید نہیں رکھتے۔ مثلاً کچن کے بہت سے برتن، بچوں کے کھلونے، کپڑے، تعلیمی میٹریل وغیرہ، بستر کی چادریں، دوپٹے ،کارآمد چپلیں وغیرہ۔
اپنے گھروں کو ہلکا کیجیے۔ جب تک پرانا سامان ہٹا نہ لیں نئی چیزیں بے سبب نہ خریدیں۔ ضروری نہیں کہ بازار میں بکنے والی ہر شے اٹھاکر گھر لے آئیں۔ یوں ضروریاتِ زندگی تعیشاتِ زندگی بن کر گھر کے چپے چپے پر پھیل جاتی ہیں اور ہم اس سامان کی خدمت کرتے کرتے زندگی کے اہم مقاصد سے غافل ہوجاتے ہیں۔ گھریلو زندگی کو آسان اور آرام دہ بنانے والی اشیاء تو اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں، لیکن بہت زیادہ سامان کو جمع کرنا اور اس کی دیکھ بھال میں اپنی قوت، صلاحیت او ر وقت صرف کرنا سراسر خسارے کا سودا ہے۔

قبولیت کی سچی طلب

بنت ِ آدم
قبولیت کی سچی طلب دل میں بس جاتی ہے تو تمام کام اخلاص کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ قبولیت کی فکر تقاضا کرتی ہے کہ کام کا مقصود صرف اللہ کی رضا ہو اور اس میں کسی کے لیے کوئی حصہ نہ ہو۔ سوشل میڈیا کے اس زمانے میں، جب کہ ہر شخص کے لیے اپنی کارکردگی کی خبر عام کرنا آسان ہوگیا ہے، اخلاص کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ برائی اس میں نہیں ہے کہ آپ کا کام خبر بن جائے، برائی اس میں ہے کہ خبر بنانا ہی کام کا مقصد بن جائے، اور اس طرح پستی کی طرف رخ ہونے کی وجہ سے کام کی خبر آسمان پر جانے کے بجائے زمین کی پستیوں میں ہی بکھر کر رہ جائے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کے یہاں قبول ہوجانے کے لیے تعمیر کعبہ کا کام کیا، اور اللہ نے اسے قیامت تک کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبر بنادیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے جو کام کیا جائے وہ کائنات کی بہت خاص خبر بن جاتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ کام خبر بننے کے لیے نہیں بلکہ ربِّ خبیر کے یہاں قبول ہونے کے لیے کیا جائے۔
قبولیت کی سچی طلب دل میں بس جاتی ہے تو اچھے کام کرتے ہوئے دل میں یہ جذبہ جوان رہتا ہے کہ مشکل سے مشکل کام میرے حصے میں آجائے۔ ٹیم میں کچھ لوگ جسمانی طور سے کمزور ہوسکتے ہیں، کچھ کی قوتِ کار کم ہوسکتی ہے اور کچھ کی مدتِ کار تھوڑی ہوسکتی ہے، ایسے میں پوری ٹیم کو قوت اُن سے ملتی ہے جو بڑے بڑے بوجھ اٹھانے کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں، جنہیں آرام سے بے رغبتی اور کام کا جنون ہوتا ہے، جنہیں مالِ غنیمت کا شوق نہیں ہوتا، بلکہ جامِ شہادت سے عشق ہوتا ہے۔ قبیلہ نخع کے لوگ قادسیہ کے معرکے میں شریک ہوئے اور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کام آگئے۔ حضرت عمرؓ نے خبر لانے والوں سے پوچھا کہ نخع کے لوگ کیوں زیادہ شہید ہوئے؟ کیا دوسرے انہیں محاذ پر تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے؟ انہوں نے وضاحت کی کہ دراصل ہوا یہ کہ نخع والوں نے اہم ترین محاذ آگے بڑھ کر خود سنبھال لیے تھے۔
جو مشکل کام اپنے ذمے لیتا ہے اسی کو تکان زیادہ ہوتی ہے، پسینہ بھی اسی کا زیادہ بہتا ہے، چوٹیں بھی اسے ہی زیادہ آتی ہیں، لیکن وہی پوری ٹیم کے لیے جوش اور طاقت کا سرچشمہ ہوتا ہے، اسی کو دیکھ کر دوسروں کو کام کرنے کا حوصلہ اور توانائی ملتی ہے۔

حصہ