یہی تو دن ہیں

216

مریم شہزاد
ہم اکثر اپنی بیٹیوں کو شادی سے پہلے گھر کے کام کاج نہیں کرنے دیتے کہ ساری زندگی یہی تو کرنا ہے۔ ابھی تو پڑھ لیں، زندگی انجوائے کرلیں۔ لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ آخر ہماری ماؤں نے بھی تو ہم کو سب کام سکھائے تھے، بچپن سے ہی کام کی عادت ڈالی تھی، اور اُس وقت تو سلائی کڑھائی بھی گھر میں ہی کی جاتی تھی۔ لڑکیاں فارغ بیٹھی نظر آئیں، ایسا تو ممکن ہی نہ تھا۔ جب جب اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوتیں، عمر کے لحاظ سے مختلف کورس کروائے جاتے، اور میٹرک کے بعد سلائی سیکھنا تو ضروری ہی تھا۔
چھوٹی عمر سے ہی کچن کا کچھ نہ کچھ کام بھی کروا لیا جاتا تھا، اور کچھ نہیں تو سبزی ہی بنوانے اپنے ساتھ بٹھا لیا، اور ساتھ ہی گھرداری کے ٹوٹکے بھی نانی، دادی بتاتی جاتیں۔
آج جو ہم اپنے آپ کو انتہائی عقل مند ودانا تصور کرتے ہیں تو وہ ہمارے بزرگوں کی تربیت ہے۔ ہماری امی ہماری سہیلی بھی ہوتی تھیں اور ایک استاد بھی، جو ہر دم ہم کو کچھ نہ کچھ سکھانے کی کوشش میں لگی رہتی تھیں، اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کو ہم سے محبت نہیں تھی، بلکہ یہ اُن کی محبت ہی تھی کہ انہوں نے ہم کو مستقبل کی بہترین ماں بنایا۔
مگر آج ہم مغرب کی تقلید میں بچوں کے صرف دوست بن بیٹھے ہیں۔ اس طرح دراصل اپنی بیٹیوں سے محبت نہیں دشمنی کررہے ہیں۔ ہم ان سے کام نہ کرواکر آرام کی عادت ڈال رہے ہیں، اور یہی بچیاں جب سسرال جاتی ہیں تو کام کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو پریشانی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ ان پر ظلم ہورہا ہے ۔
البتہ جو بچیاں اپنی امی کو بچپن سے گھرداری کرتے دیکھ رہی ہوتی ہیں وہ پھر بھی سیٹ ہوجاتی ہیں۔ مگر کچھ، جو یہ سمجھتی ہیں کہ ان پر ظلم ہورہا ہے، انہیں اگر بروقت میکے میں سمجھایا نہ جائے تو وہ اپنا گھر خراب کرلیتی ہیں۔
ایسا وقت آنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ شروع ہی سے بچیوں کو گھرداری سکھائی جائے۔ یقینا میری ان باتوں سے زیادہ تر لوگوں کو اختلاف ہوگا، مگر ہم یہ بھی تو سوچیں کہ ایک لڑکا بھی شادی سے پہلے ہی سے کاروبار یا ملازمت شروع کرتا ہے تب وہ شادی کرپاتا ہے۔ اگر ہم اپنے بیٹوں کو بھی یہی کہیں کہ ابھی آرام کرو شادی کے بعد کام کرنا، تو کیا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ کوئی اپنی بیٹی اس کو دے گا!
جب ہم اپنے بیٹوں کو شادی سے پہلے ہی اس قابل دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی اور پھر بچوں کی ذمے داریاں سنبھالنے کے قابل ہوں، تو بیٹیوں کو بھی تربیت دینی ہوگی۔ جب لڑکا اپنی بیوی کو جیب خرچ دیتا ہے، اس کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو ہنسی خوشی پورا کرتا ہے ،اس کے آرام کا خیال کرتا ہے تو پھر یہ بیوی کی بھی ذمے داری ہے کہ اس کو گھر کا سکون اور چین دے تاکہ ایک بہترین معاشرے کی تشکیل ہو۔

حصہ