رقیہ فاروقی
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ’’ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم! کہہ دیجیے اگر تم اللہ پاک سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو‘‘۔دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی طرح ضرور اللہ پاک سے محبت کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بھنور میں پھنس جانے والی کشتیوں کو کنارے لگانے والی کوئی ہستی موجود ہے۔ جو طوفان کی پہاڑوں کی طرح اٹھتی ہوئی سرکش موجوں کو لگام دیتا ہے، ہر چیز کو الٹ پلٹ کر دینے والی ہواؤں کو باد صبا میں تبدیل کر دیتا ہے۔اس عظیم رب نے محبت کے دعوے داروں کے لیے ایک معیار مقرر کر دیا ہے۔ یعنی معیار ربانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقوں کی اتباع ہے۔ یہ کامیابی کا زینہ ہے۔ ہمیشہ دنیا میں کامیاب اسی کو مانا جاتا ہے کہ جس کی تعریف میں دشمن بھی رطب اللسان ہو۔ تمام دنیا کے لیڈروں میں ایک حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایسی کامل صفات کے حامل تھے کہ دوست تو دوست، دشمن بھی خوبیوں کے قائل تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو اسوۂ حسنہ فرمایا گیا ہے۔ ہر پہلو سورج کی طرح روشن اور منور ہے۔ ہر زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقوں کو اپنانے والے دنیا میں موجود رہے ہیں۔ جنہوں نے عملی نمونہ بن کر امت کے لیے رہنمائی کا راستہ واضح کیا ہے۔دنیابظاہر ترقی کے دور سے گزر رہی ہے۔ ہر قسم کی جدید ٹیکنالوجی متعارف کروائی جا چکی ہے۔ برسوں کی مسافتیں لمحوں میں اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے آنے سے فاصلے سمٹ گئے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود سنت کی اہمیت مسلم ہے۔سائنس کی تحقیقات بھی مسنون طریقوں کی تائید کرتی نظر آتی ہیں۔انسان کے لیے اللہ پاک نے رات اور دن کا نظام بنایا ہے، جس میں رات آرام کے لیے ہے۔جو آدمی رات کو پرسکون نیند لیتا ہے، وہ سارا دن ہشاش بشاش رہتا ہے۔
باوجود ترقی کے راہوں پر سفر کرنے کے، زمین کے نہاں خانوں میں چھپے خزانوں کو نکالنے کے، خلا کو مسخر کر لینے کے، انسان سے ابھی نیند کا معمہ حل نہیں ہو سکا۔ یہ بات طے نہ کی جا سکی کہ انسان کو کس وقت اور کیسے سونا چاہیے۔یہ سب اسلام نے صدیوں پہلے واضح کر دیا تھا۔1930ء میں الیکٹرو اینسیفا لو گراف ایجاد کی گئی، جس سے دماغ کی لہروں کی پیمائش کی جا سکتی ہے، لیکن سوئے ہوئے انسان کی بے سکونی کی وجہ دریافت نہ ہو سکی۔ اس لیے کہ اس کی تکلیف کا ازالہ مسکن ادویہ سے بھی ناممکن ہے۔
جبکہ شریعت مطہرہ نے نیند میں تکلیف سے بچنے کے لیے پورا عمل سمجھا دیا۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں کروٹ پر لیٹتے تھے۔جدید سائنس کی تحقیقات نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ دائیں کروٹ لیٹنا ہر اعتبار سے مفید ہے۔دائیں کروٹ سونے سے دل پر زیادہ اثر نہیں پڑتا، کیونکہ دوران خون کے عمل کے وقت بائیں کروٹ اوپر ہوتی ہے۔اس پر زور نہیں پڑتا اور خون دل سے نکل کر جسم میں گردش کرتا رہتا ہے۔ جب دل تندرست اور توانا ہو گا۔ تو تمام جسم اس کے تابع ہوکر درست کام کرے گا۔
دائیں کروٹ پر لیٹنے کا دوسرا اچھا اثر معدے پر پڑتا ہے۔جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو وہ غذا منہ کے ذریعے کھانے کی نالی سے گزر کر معدے میں آجاتی ہے۔معدے سے لگ کر آنت کا حصہ ہے اور اس کے ساتھ ہی پتہ جگر سے ملتا ہے۔یہ اعضاء دائیں طرف ہونے کی وجہ سے معدے کے اندر کی غذا باآسانی آنت میں چلی جاتی ہے۔اس کے بعد نظام ہضم کا عمل بھی بالکل سہولت سے مکمل ہو جاتا ہے۔پھیپھڑے صحیح کام سرانجام دیتے ہیں۔ایک سنت کا اہتمام کتنے فوائد کا حامل ہے۔ آج کل لوگوں کو صحت کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ بالخصوص دل کے مریض کے لیے تو زندگی کو نظم وضبط کی پابند بنانا ہوتا ہے۔ اگر سوتے وقت کی سنتوں کااہتمام کر لیا جائے تو کسی حد تک اس جان لیوا مرض سے بچا جا سکتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الٹا لیٹنے سے منع فرمایا۔ میڈیکل سائنس نے بھی اس کے مضر اثرات کی تصدیق کی ہے۔سائنس کی تحقیقات کے مطابق الٹا لیٹنے سے معدے اور گردے پر اثر پڑتا ہے۔نظام انہضام پر دباؤ کی وجہ سے بیسیوں بیماریاں جنم لیتی ہیں۔سونے کی ایک قسم قیلولہ بھی ہے۔ یعنی دوپہر میں سونا۔ حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہمارے پاس سے گزرتے تو قیلولہ کا حکم دیتے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’ شیطان قیلولہ نہیں کرتا‘‘۔
پروفیسر جم ہارن جو انگلستان کی سلیپ ریسرچ لیبارٹری کے ڈائریکٹر ہیں، انہوں نے لکھا ہے کہ دوپہر دو سے چار بجے تک انسانی جسم میں اتار چڑھاؤ کا گہرا عمل ہوتا ہے۔ اس لیے اس وقت تقریبا 20منٹ کا آرام جسم میں قوت اور چستی کو بڑھا دیتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ انسان کے جسم میں روح اور جسم کا ایک خاص تعلق ہوتا ہے۔ روح کی تندرستگی جسم کو توانا رکھتی ہے۔ بیمار روحوں کے جسم لاغر ہوتے ہیں، چاہے ان کے لیے ہزاروں جتن کر لیے جائیں۔
حاصل یہ ہے کہ ہمیں ہر سنت کو سنت سمجھ کر اپنانا چاہیے جو دنیا میں روحانی اور جسمانی نشاط کا سبب بنے گا۔ قرون اوّل کی پہلی جماعت نے ایسا زمانہ پایا تھا کہ جب چہار سو افلاس کے ڈیرے تھے۔ مختلف قسم کی صحت افزا خوراکوں کی تمنا بھی بے کار تھی، لیکن ایسا طاقت کا جوہر ان کے پاس چھپا ہوا تھا کہ مقابلے کے میدان میں ایک فرد ہزار پر بھاری ہوتا تھا۔آج بھی ہم اسوہ حسنہ کو اپنا کر وہی کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ سنت کو اللہ پاک نے نور بنایا ہے، جس کی روشنی سے سارا جہاں منور ہے۔ ہم بھی سنت پر ہمیشگی اختیار کر کے آقائے نامدار کے غلاموں میں اپنا نام رقم کروائیں۔ جو سعادت دارین کا سبب ہے۔