عائزہ ظہیر
علم ایک ایسا چراغ ہے جو عقل کے دریچوں کو روشنی بخشتا ہے۔جو انسان کو خق و باطل میں فرق سمجھاتا ہے۔جو انسان کو انسان سے ملواتا ہے۔ جو انسان کو اس کے رب سے روشناس کرواتا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں اس کا تعلیمی نظام کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی اس معاشرے کے خواندہ افراد اور تعلیمی نظام کی مرہون منت ہے۔ ایک تعلیم یافتہ شہری ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل اور ان کی ترقی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔مگر افسوس کہ آج ہمارے ملک کا تعلیمی نظام بد ترین حالات سے دوچار ہے۔ ناخواندگی بذات خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے مگر آج ہم اس سے بھی زیادہ خوفناک صورتحال سے دوچار ہیں اور وہ ہے دوہرا نظام تعلیم۔ ہمارے ملک میں تعلیم کے مختلف معیار بن چکے ہیں۔ یہ طبقاتی کشمکش دیگر شعبوں سے ہوتی ہوئی اب نظام تعلیم کی بنیادیں کھوکھلی کرنے آ پہنچی ہے۔
ایک وہ طبقہ ہے جو سکول، کالج کی تعلیم حاصل کررہا ہے اور ایک طبقہ محض مذہبی تعلیم تک ہی محدود رہنا چاہتا ہے۔ اگر ہم اپنی تاریخ کے اوراق کھنگال کر دیکھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت میں خلفائے راشدین کے زمانے میں ہر شخص کے لیے یکساں نظام تعلیم اور مواقع موجود تھے۔ کوئی وزیر ہو یا عام آدمی دونوں کے لیے ایک ہی طرح کی سہولیات اور نصاب کی فراہمی یقینی بنائی جاتی تھی۔ جس میں صرف دین کی ہی نہیں بلکہ دنیا کی سمجھ بوجھ بھی دی جاتی تھی۔اسلام انسان کو یہ حکم نہیں دیتا کہ وہ دین کے لیے دنیا سے بالکل کنارہ کر لیاور نہ ہی یہ اجازت دیتا ہے کہ دنیا کی خاطر دین کو بھلا دیا جائے۔ اسلام متوازن زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے تاکہ مسلمان دین کی راہ پر چلتے ہوئے دنیاداری کے تقاضے پورے کرے۔
مگر جب انگریز ہم پر قابض ہوئے تو انہوں نے ہمیں اس انگریزی نظام تعلیم سے روشناس کروایا جو صرف اور صرف دنیاداری کے اصول سکھاتا ہے۔ اس نظام نے دین اور دنیا کے درمیان ایک بہت اونچی دیوار کھڑی کردی جسے آج تک ہم عبور نہ کرسکے۔ہم آزادی کے بعد بھی لارڈ میکالے کے بتائے ہوئے نظام تعلیم کی پیروی کر رہے ہیں جس کے بارے میں خود لارڈ میکالے نے نہایت واضح الفاظ میں کہا کہ،’’اس نظام کا مقصد ایسے مسلمان پیدا کرنا ہے جو اپنی نسل اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں مگر ذہنی طور پر انگریز ہوں‘‘۔ آج یہ تمام باتیں ہماری نسلوں میں ثابت ہو رہی ہیں۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
آج ہم نے انگریزوں کے تسلط سے چھٹکارا تو حاصل کر لیا مگر ہم ذہنی طور پر آج بھی غلام ہیں۔ بظاہر تو ہم بالکل آزاد پھر رہے ہیں مگر ہماری سوچ آج بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ ہم دین سے دور مگر اس دنیا اور اس کی مادہ پرستی سے قریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔پھر ہم نے صرف انگریزی نظام اور مدرسے کے نظام پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انگریز کی لگائی ہوئی آگ کو خوب ہوا دی اور آج اس آگ میں ہمارا پورا ملک جل رہا ہے۔ انگریزی نظام مزید دو طبقوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک نظام ہے امراء اور اعلی افسران کے بچوں کے لیے جو آکسفورڈ کے نصاب پر چلتا ہے۔ ان سکولوں میں اردو بولنے پر پابندی ہے۔ موسیقی اور رقص کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ یہ نظام آئندہ نسلوں کو اپنی روایات اور عقائد سے دور کرنے کے لیے کافی ہے۔ اور والدین اپنے بچوں کو انگریزی بولتا دیکھ کر تالیاں بجا بجا کر ان کی مذہبی و نظریاتی اقدار کے قتل پر جشن مناتے ہیں۔اکبر الہ آبادی نے اس پر کہا:
نظر ان کی رہی کالج میں بس علمی فوائد پر
گر الیں چپکے چپکے بجلیاں دینی عقائد پر
اور دوسری طرف غریب کا بچہ سرکاری سرکاری سکول میں ناقص سہولیات کے ساتھ تعلیم حاصل کررہا ہے۔امیر جہاں او۔لیولز کرتا ہے غریب وہاں میٹرک کرتا ہے۔ طبقاتی کشمکش خطرناک حد تک ہماری رگوں میں سرائیت کر چکی ہے۔ہمارا ہمسایہ ملک چین جو ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا لیکن ترقی میں ہم سے صدیوں آگے ہے۔وہ اس لیے کے اس نے نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ ذہنی طور پر بھی خود کو غلامی کے طوق سے آزاد کروا لیا۔