کامیاب بیوی

689

عائشہ یاسین
انسان نے جب سے کرہ زمین میں قدم رکھا۔اس کی زندگی غم و خوشی ، کامیابی ناکامی اور نفع نقصان سے مزین ہوگئی۔ زندگی دو ادوار میں بٹ گئی ہاں یا نہ۔کوئی چیز ہوتی ہے یا نہیں ہوتی، گناہ ثواب وغیرہ وغیرہ۔دنیاوی اعتبار سے کسی شے کے مثبت اصول کو کامیابی کا نام دیا گیا اور کسی شے کو کھودینا ناکامی کہلایا۔کامیابی کا دارومدار بڑا وسیع ہے۔ اس کو وسیع پیرائے میں بیان کرنا فی الحال ممکن نہیں۔پر ہم اسکو دو پہلو میں مزید تقسیم کرتے ہیں۔ معاشرتی لحاظ سے یا جنسی اعتبار سے دو اشخاص کامیاب یا ناکامیاب ہوتے ہیں، کامیاب مرد یا کامیاب عورت۔
ہر وہ شخص جو معاشی و معاشرتی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے دوسروں پر سبقت لے جائے کامیاب کہلاتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ کامیابی کا تعلق شہرت اور دولت سے بالواسطہ یا بلا واسطہ مشروط کہتے ہیں جب کوئی انسان کامیابی کی منزل پاتا ہے تو اس کے پیچھے ایک پورا طریقہ کار فرما ہوتا ہے۔ایک ان تھک محنت اور کاوشوں کے بعد ہی کوئی ترقی کی سیڑھیاں چڑھ پاتا ہے۔ یہ ایک پورا عمل ہوتا ہے جس کی بنا پر شخصی اور ذہنی تعمیر ہوتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ بندہ اونچائیوں کی طرف بڑھتا ہے۔ کبھی اس کے موثر نتائج وقت سے پہلے سامنے آجاتے ہیں اور کبھی انسان کو سالوں وقت کی چکی میں پسنا پڑتا ہے۔
تو ہم بات کر رہے تھے ایک مرد و عورت کی کامیابی کی۔جیسا کہ یہ بات سب پر واضع ہے کہ مرد کی کامیابی کے پیچھے کئی وجوہات ہوتے ہیں اور مشہور قول ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ مگر ہم نے کبھی سوچا کہ ایک عورت کی کامیابی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوتا ہے؟ اور اگر وہ عورت کسی کی بیوی بھی ہو تو اس کی کامیابی کا ذمہ دار کون ہوتا ہے؟
ویسے تو ہر شادی شدہ عورت کامیاب ہوتی ہے اس کی کامیابی کا ثبوت اس کا اپنے ہاتھ سے بنایا ہوا گھر گھونسلہ اور اس میں چہچہاتے بچے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے اکثر تعداد ان عورتوں کی بھی ہے جو گھر کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اور کسی نہ کسی شعبے میں بھی اپنے گوہر منواتی ہیں اور کامیاب کہلاتی ہیں۔ ان خواتین کی قابلیت اور اہلیت اپنی جگہ مگر ان کے اعتماد اور پروقار شخصیت صرف اور صرف ان کے شریک حیات کی دین ہوتی ہے۔ ہم کتنے ہی ایسی خواتین سے بھی ملتے ہیں جو اپنی ازدواجی زندگی میں توازن نہیں رکھ پاتی مگر پھر بھی کامیاب ہوتی ہیں پر ان کی کامیابی اور ان خواتین کی کامیابی جن کے شریک حیات ان کے قدم سے ہم قدم بنتے ہیں یکسر مختلف ہوتی ہے۔
شوہر کا ساتھ عورت کو نڈر اور بہادر بناتا ہے۔ جب کوئی عورت اپنے شوہر کو اپنے ہم قدم پاتی ہے تو اڑتی پتنگ کی طرح لہراتی پھرتی ہے کیونکہ اس کو علم ہوتا ہے کہ اس کی دوڑ انتہائی محفوظ اور پاک ہاتھوں میں ہے۔ وہ عورت جو کسی طرح کے ازدواجی رکاوٹ کا سامنا کرتے ہوئے بڑھتی ہے اس قدر پر اعتماد اور مکمل نہیں ہوتی، اس عورت کی نسبت جس کو اپنے شوہر کا ساتھ حاصل ہو۔ اس کی اعتماد کے ساتھ ساتھ اس کے ترقی بھی تیر رفتار ہوتی ہے کیونکہ اس کا شوہر محافظ ہونے کے ناطے اس کی راہوں سے دشواریاں ہٹاتاجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں اس پر انگلی اٹھنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیںاور وہ اپنی قابلیت کو صحیح سمت اور بر وقت بروئے کار لا تی ہے۔ دوسری جانب جب شوہر ہی بیوی کا ساتھ نہ دیتا ہو تو اس کو معاشرے اور معاشرے سے وابسطہ لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کی بھی تنقید کا سامنا رہتا ہے اور اس کی صلاحیتیں سلب ہوجاتی ہیں۔
خوش نصیب ہوتی ہیں وہ خواتین جن کو ایسا جیون ساتھی نصیب ہو۔ کیونکہ جب عورت خود کو محفوظ اور مکمل محسوس کرتی ہے تو معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کرتی ہے۔وہ اپنی کاوشوں کو ملکی اور معاشرتی تعمیر میں استعمال کرتی ہے نہ کہ ایک بے حس معاشرے کے بے تکے الزامات پر خود کو صحیح ثابت کرنے میں ضائع کرتی رہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایک بیمار اور محکوم ذہن کبھی بھی صحت مند سوچ کو پروان نہیں چڑھا سکتا۔ جہاں رشتوں میں عدم اعتماد ہو اور ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو وہاں ایک ایسی سوچ کی رمق کیسے جنم لے سکتی ہے جو تندرست بھی ہو اور معاشرے کی تعمیر کا باعث بھی بنے۔
یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے رشتوں کو مضبوط کریں۔ایک دوسرے کی عزت نفس کو اولیت دیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کی اہمیت کو سمجھیں ، ایک دوسرے کی عزت کا پاس کریں اور احترام کو لازم کریں۔ایک دوسرے کا احترام ہی وہ واحد جز ہے جو ہر خواہش کو پروان چڑھانے میں مددگار ہوگا اور محبت کی بنیاد بنے گا۔جس خاندان میں والدین ایک دوسرے کا لحاظ اور ادب روا رکھتے ہیں، ان کی اولاد بلکہ نسلیں اس روایت کو قائم رکھتی ہیں۔ اور جن خاندان میں عورتوں کی عزت کو اولین اہمیت اور ترجیح حاصل ہوتی ہیں ان ہی خاندانوں سے بڑے بڑے گوہر نایاب پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ان کی پرورش ایک سازگار ماحول میں کی گئی ہوتی ہے جو ان کی شخصیت کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ ان کی سوچ اور عملی پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔
یہ کہنا ہر گز غلط نہ ہوگا کہ جس طرح ہمارا معاشرہ کسی مرد کی کامیابی کے پیچھے کسی عورت کے ہونے کو مشروط رکھتا ہے۔ اسی طرح ایک شادی شدہ عورت کی کامیابی اس کے شوہر کی عطا کردہ سکون ،اعتماد اور رواداری سے مشروط ہوتی ہے۔ یہ اس کا شوہر ہی ہوتا ہے جو اس کی مضبوط اور پروقار شخصیت کو استوار کرتا ہے۔ اس کو تحفظ دیتا ہے۔اس کی ترقی اور کامیابی کو سراہتا ہے۔اس لیے ہم کہتے ہیں کہ ایک بیوی کی کامیابی کے پیچھے صرف اور صرف اس کے شوہر نامدار کا ساتھ ہوتا ہے۔

حصہ