مریم شہزاد
پیارے بچوں چار بہنیں تھیں بلکہ ہیں ہنستی مسکراتی، ادھر سے ادھر پوری دنیا کی سیر کرتیں، گھومتی پھرتی، کبھی کسی ملک کی مہمان بنتی تو کبھی کسی ملک کی،کوئی بہن کہیں زیادہ دن رہ جاتی اور کسی بہن کو کوئی اور جگہ پسند آجاتی تو وہ وہیں زیادہ دن رک جاتی، بہت مزے میں ان کے دن گزر رہے تھے، مگر ان کی یہ بات بہت اچھی تھی کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کام نہیں کرتی تھی، ان سب بہنوں کو پاکستان بہت پسند تھا، وہاں وہ ہر صوبے میں مہینوں کے لئے جاتیں کوئی کسی صوبے میں زیادہ عرصہ رہتی کوئی کسی صوبے میں۔
ارے ان بہنوں کے نام تو بتائے ہی نہیں، ان کے نام گرمی، سردی، خزاں بہار ہیں۔ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ ان سب کو پاکستان بہت اچھا لگتا تھا، سب ے بڑی بہن گرمی تھی اس کا غصہ بھی بہت تیز تھا، جب وہ ملتان، جیکب آباد، سبّی جاتی تو اس کا پارہ ایک دم ہائی ہو جاتا سب اس کی منتیں کرتے، مگر وہ کسی کی نہیں سنتی وہاں کے رہنے والے بھی پریشان ہوجاتے کبھی کبھی بارش آکر اس کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتی مگر اس کے غصے سے ڈر کر بھاگ جاتی آخر خزاں اس کو سمجھا بجھا کر وہاں سے لاتی اور سردی بہن کو بھیج دیتی تاکہ لوگ سکون کا سانس لیں۔
مگر خزاں کا بھی موڈ اکثر خراب ہو جاتا تھا جب وہ شمالی اور پہاڑی علاقوں میں جاتی تو سردی اس کو اکیلے نہیں جانے دیتی اور خزاں کو سردی کا ساتھ اچھا نہیں لگتا تھا وہ چاہتی تھی کہ اکیلے گھومے پھرے، مگر اللہ کا حکم تھا تو سردی ساتھ ساتھ جاتی، خزاں سارے درختوں کے پتے گرا دیتی، سب درخت پریشان ہوجاتے، ہر طرف خشک پتوں کا راج ہو جاتا اور وہ مسکراتی ہوئی آگے چلی جاتی۔
اس کے جاتے ہی سردی سب درختوں کو سفید برف سے ڈھک دیتی جس سے علاقے بے حد خوبصورت لگنے لگتے، سردی وہاں دیر تک رکتی، اور سب کو خوش دیکھ کر خوش ہوتی لوگ پورے ملک سے وہاں کی خوبصورتی دیکھنے آتے اور سردی سے مل کر بہت خوش ہو تے آخر سردی آہستہ آہستہ وہاں سے چپکے چپکے نکل جاتی اور بہار بہن کو وہاں بھیج دیتی کہ اب تم اپنا کام شروع کرو اور اس کی مدد کے لیے برف کو بھی چھوڑ جاتی، بہار آتے ہی سب طرف سبزہ پھیلانا شروع کرتی درختوں پر نئے پتے آجاتے، ہر طرف ہریالی ہی ہریالی بکھر جاتی سب کے چہرے خوشی سے چمکنے لگتے۔
گرمی کو کراچی بہت پسند تھا، وہ کراچی آتی تو جانے کا نام ہی نہیں لیتی، خزاں منتیں کر کر کے اس کو جانے کو کہتی مگر وہ راضی نہ ہو تی، لیکن کچھ عرصے کے لیے سو جاتی تو خزاں جلدی سے سردی کو بلا لیتی، سردی آئی تو جاتی مگر اس کا کراچی میں بالکل دل نہیں لگتا اور وہ جلدی سے واپس ناران، کاغان، مری کوئٹہ اور دوسرے پہاڑی علاقوں کی طرف چلی جاتی اور ایک بار پھر سے ہر طرف برف ہی برف پھیلا دیتی اور گرمی بہار کے ساتھ واپس لمبے عرصے کے لیے کراچی آجاتی۔
اب بھی خزاں پوری کوشش میں ہے کہ سردی کو منا کر لے آئے اور گرمی کو کچھ عرصہ کے لیے کہیں اور بھیج دے مگر سردی اور گرمی دونوں راضی نہیں ہو رہی سب بچے اور بڑے انتظار میں ہیں کہ کب سردی آئے اور کب سب لحافوں اور کمبلوں میں بیٹھ کر مونگ پھلی کھائیں، گرم گرم سوپ پئیں، اور پیارے پیارے سویٹر اور جیکٹ پہنیں اور سردیوں کے مزے لیں۔