آئینہ

422

ہادیہ امین
آج اکلوتا جنگل میں ہر گزرتا لمحہ دیکھنے کے لائق تھا۔ آج یہاں کا ہر رہنے والا یا تو ایک دوسرے سے خائف تھا یا شرمندہ، مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والوں نے خود ہی اپنے جنگل کا نام “اکلوتا جنگل” رکھ دیا تھا۔ اس کی معقول وجہ یہ تھی کہ یہاں سب اکلوتے تھے۔۔ ایک شیر، ایک چیتا، ایک ریچھ، ایک زرافہ، ایک ہاتھی وغیرہ۔ یہ لوگ جس جنگل سے آئے تھے وہاں شکاریوں کا زور جب بہت بڑھ گیا تو سب جانوروں نے اپنا ایک ایک جوڑا اکلوتے جنگل بھیج دیا کہ مبادا کہیں نسل ختم ہی نہ ہو جائے۔ یہ انسان لوگ کبھی کبھی بہت ظالم ہو جاتے ہیں ۔۔
مگر آج اکلوتا جنگل میں عجیب ہی منظر تھا۔ ہاتھی کی لمبی سونڈ کا مذاق اڑانے والے زرافے کی نظر اپنی لمبی گردن پر پڑ گئی تھی۔ گوریلا کی موٹی جسامت پہ شرمندہ کرنے والے بندر کو پتہ چلا کہ میں بھی گوریلا سے کچھ مختلف نہیں ہوں۔ مار خور، بارہ سینگا، شیر، ریچھ، بھالو، سانپ، کچھوے، سب ہی کی کیفیات مختلف تھی۔ کیونکہ پہلے وہ سب ایک دوسرے کو پہچانتے تھے۔ مگر آج وہ اپنے آپ کو پہچان گئے تھے۔ پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ آج اکلوتا جنگل میں کہیں سے آئینہ آگیا تھا۔۔
جنگل کے سب سے بزرگ شیر جن کو پرانے جنگلوں کی ریت یاد تھی، یہ فیصلہ کیا کہ یوں گھروں میں شرمندہ ہونے سے بہتر ہے کہ ایک اجلاس منعقد کیا جائے جس میں سب ہی ایک دوسرے سے معافی مانگ لیں۔ اکلوتا جنگل میں آباد ہونے کے بعد یہ پہلا اجلاس تھا۔
“میں ہمیشہ تمہاری لمبی سونڈ کا مزاق اڑاتا تھا مگر مجھے پتا چلا کہ میری تو اپنی گردن اتنی لمبی ہے” یہ زرافہ اور ہاتھی کی بات چیت ہو رہی تھی۔۔
“کوئی بات نہیں! اللہ نے تم دونوں کو تمہاری ضرورتوں کے حساب سے یہ نعمتیں دی ہیں اور نعمتیں اپنے ساتھ ذمہ داریاں لاتی ہیں۔ آج سے تم اپنی لمبی گردن کی وجہ سے پرندے کو سیر کر اس کے کرائو گے اور جو فائدہ دو گے” یہ بزرگ شیر کا حکم تھا جو سب بڑے غور سے سن رہے تھے۔
“میں ہمیشہ بھالو بھائی کی بھولی صورت دیکھ کر رشک کرتا تھا مگر مجھے پتہ چلا کہ رب تعالیٰ نے مجھے بھی پتلی پتلی کالی سفید دھاریوں سے بہت خوبصورت بنایا ہے”
“ہاں زیبرا بیٹے! آئینے کا یہی کمال ہے کہ سامنے والے کو اس کی خوبیاں بھی دکھاتا ہے اور خامیاں بھی بتاتا ہے۔ اپنے حالت کا افسوس کرنے والے ذرا غور کریں تو خدا نے انہیں بھی بہت صلاحیتوں سے پیدا کیا ہوتا ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھنے والے جب آئینہ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی اس ہی خدا کی مخلوق ہیں۔ دوسروں کے عیب ڈھونڈنے والوں کو اپنے عیب نظر آ جاتے ہیں۔ واقعی یہ آئینہ خدا کی عظیم تخلیق ہے”
بزرگ شیر نے پھر جواب دیا۔۔ پھر کچھوے کی آواز آئی، “میں کچھ کہنا چاہتا ہوں”
“ہاں ضرور! قریب آکر کہو” بزرگ شیر نے جواب دیا۔ آج کچھوے نے نوٹ کیا کہ بزرگ شیر کے قریب جاتے ہوئے کسی نے اس کی رفتار کا مذاق نہیں بنایا کیونکہ آئینے کی وجہ سے سب جان گئے تھے کہ ہم سب خوبیوں خامیوں کا مرکب ہیں۔ کچھوے نے دل ہی دل میں کہا “تھینکس اللہ تعالیٰ فور آئینہ”
“ہاں کہو” بزرگ شیر نے کچھوے کو مخاطب کیا۔
“میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک آئینے کی وجہ سے اکلوتا جنگل میں اتنا سکون آگیا تو انسانوں کے تو ہر گھر میں آئینہ ہوتا ہے۔ وہاں سکون کیوں نہیں ہوتا؟”
کچھوے کو انسانوں کی دنیا کا بہت تجسس تھا۔ اس نے کہیں سے سن بھی لیا تھا کہ انسان اپنے بچوں کو غرور سے بچنے کے لیے اس کی اور خرگوش کی کوئی کہانی سناتے ہیں۔ اس وجہ سے سب اس پر بہت ہنستے تھے مگر اب نہیں۔ اب تو آئینہ آگیا تھا نا۔ سب خود کو بھی جان گئے تھے۔ اب کوئی کسی پر نہ ہنستا تھا۔۔
“ہاں کچھوے بیٹا! مگر یہ آئینہ صرف ظاہری صورت دکھاتا ہے۔ ہم جانور تو اسی پر خوش ہو گئے مگر انسان تو اشرف المخلوقات ہے۔ اس کے پاس دل ہے۔ دماغ ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ ان میں سے بعض لوگ جو خود اپنی نیتوں کی جانچ کرتے رہتے ہیں، وہ خود ہی اپنا آئینہ بن جاتے ہیں۔ بعض دوسروں کے لیے آئینہ بن جاتے ہیں اور وہ بہت مخلص ہوتے ہیں۔ وہ دوسرے انسانوں کو بھی آگے لے کر جاتے ہیں۔ یہ والدین بھی ہو سکتے ہیں، استاد بھی، دوست بھی یا کوئی بھی مخلص رشتے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ انسانوں کو اپنی زندگی میں ملنے والے ایسے آئینوں کی قدر کرنی چاہیے۔ آئینہ ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ مگر انسان جب آئینہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے، کچھ سیکھنا ہی نہیں چاہتے تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ غرور کا شکار ہو جاتے ہیں اور دوسرے انسانوں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ اور بعض آئینہ بننے کی خاطر کبھی خوبیوں کو بہت بڑا کر دیتے ہیں اور کبھی خامیوں کو۔ وہ آئینہ نہیں ہوتے کیونکہ آئینہ جھوٹ تھوری بولتا ہے۔ کچھوے بیٹا، تمہیں بات سمجھ آگئی تو محفل برخاست کریں؟؟
“جی بزرگ شیر، بہت شکریہ”
اور یوں اکلوتا جنگل کی ایک شام اپنے اختتام کو پہنچی اور تمام جانور صاف دلوں کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو چل دئے…

بکری کا اعتراض

مدیحہ صدیقی

بکری نے دنبی سے کہا
میرے جیسے بال بنا
بال کھلے کیوں رکھتی ہو
چہرہ ڈھک کر رکھتی ہو
میری دو پونی دیکھو
اپنی بے چینی دیکھو
بالکل جوکر لگتی ہو
کیڑے کا گھر لگتی ہے
تم سا حال گر ہوجائے
میری سانس تو رک جائے
دنبی نے بکری سے کہا
سننا میری بات ذرا
میرے بالوں کی دشمن
ڈھکتے ہیں یہ میرا تن
جب جب سردی آتی ہے
پھر میری یاد آتی ہے
اون مرا لے جاتے ہیں
کپڑے گرم بناتے ہیں
اسکولوں کی جرسی بھی
نرم گرم سی ٹوپی بھی
مجھ سے لے کر اون سب ہی
پاتے ہیں سکون سب ہی

حصہ