مرتب: عبداللہ
ایک دن اکبر بادشاہ دربار لگائے بیٹھا تھا کہ ایک ہاتھی کے بے قابو ہو کر چھوٹ جانے سے ’’ہٹو بچو‘‘ کا غل ہونے لگا۔ بادشاہ نے کھڑکی کی طرف منہ کیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک نوجوان نے دوڑتے ہوئے ہاتھی کی دم پکڑ کر اسے روک لیا ہے۔ بادشاہ نے بیربل کو اس کی شہ زوری کا تماشا دیکھا کر پوچھا۔ ’’کچھ سوچو تو سہی۔ اس میں اتنا زور کہاں سے آگیا۔‘‘
بیربل نے عرض کی۔ ’’جہاں پناہ! یہ صرف بے فکری کا زور ہے۔‘‘
بادشاہ کو وزیر کی اس بات پر تعجب ہوا کہ بے فکری سے اتنی قوت کیوں کر آگئی۔
بیربل نے فوراً شہ زور جوان کو دربار میں بلوا کر کہا۔ ’’جہاں پناہ تمہاری شہ زوری دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ آج سے ایک روپیہ روزانہ تمہیں تنخواہ ملا کرے گی اور کام صرف یہ ہے کہ شہر کے باہر فلاں خانقاہ پر ٹھیک شام کے وقت چراغ جلا آیا کرو۔ لیکن یاد رہے کہ اگر ایک دن بھی وقت سے آگے پیچھے پہنچو گے تو پھانسی دے دی جائے گی۔
نوجوان سن کر آداب بجا لایا اور ہدایت کے مطابق ہر روز خانقاہ پر چراغ جلانے لگا۔ مگر تھوڑے دنوں کے بعد جب ایک بیل چھوٹ گیا اور نوجوان نے اس کی بھی دم پکڑنی چاہی تو بیل کو ٹھہرانے کی جگہ خود ہی دور تک گھسٹتا ہوا چلا گیا اور جب وہ دم چھڑا کر بھاگا تو یہ دھم سے زمین پر آگرا۔
بادشاہ نے دیکھ کر فرمایا واقعی فکر مندی بڑی بری چیز ہے۔‘‘
مسکرائیے
٭استاد: بھینس کی کتنی ٹانگیں ہوتی ہیں۔
شاگرد:سر! یہ تو کوئی بے وقوف بھی بتادے گا۔
استاد: اسی لیے تو تم سے پوچھ رہا ہو۔
٭٭٭
٭اردو کے استاد: کوئی اچھا سا شعر سناؤ۔
شاگرد: سنیے:
جگر کا خون چوس لیتا ہے امتحان کا زمانہ
کبھی سہ ماہی، کبھی نوماہی کبھی سالانہ
٭٭٭
٭استاد: سب سے زیادہ سونا کہاں ملتا ہے۔
شاگرد:جناب! چارپائی پر۔
٭٭٭
٭ایک فرم کے مالک نے دوسری فرم کے مالک سے پوچھا:
’’سناؤ بھئی کاروبار کیسا چل رہا ہے۔‘‘
’’ ففٹی ففٹی۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ دوسرا بولا۔
’’صبح ایک آرڈر ملتا ہے، شام کو ایک آرڈر کینسل ہوجاتا ہے۔‘‘
٭٭٭
٭استاد: اگر تمہارے پاس دو سیب ہوں اور تمہارے ہاں دو مہمان آجائیں تو تم کیا کروگے۔
شاگرد:ان کے جانے کا انتظار۔