ام محمد عبداللہ
’’چلو چور سپاہی کھیلتے ہیں۔ میں سپاہی، میں تم سب کو پکڑوں گا‘‘،کاشف نے چہکتے ہوئے کہا۔ عصر کی نماز کے بعد سب بچے چمن میں کھیلنے کے لیے جمع تھے۔ ’’جی نہیں، میں سپاہی‘‘، دانیال نے اکڑ کر کہا۔ ’’چلو ٹھیک ہے دانیال سپاہی ہم سب چھپتے ہیں‘‘۔ سب دانیال کے سپاہی بننے پر راضی ہوگئے۔ کاشف منہ بسور کر رہ گیا۔ ’’میں نہیں کھیلتا‘‘، اس نے منہ بنایا اور چمن میں پھیلی بوگن ویلیا کی بیل کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔ سب بچے ہنس کھیل رہے تھے۔ کاشف غور سے بیل کو دیکھنے لگا۔ کتنی پیاری اور انوکھی بیل ہے۔ بلندیوں کی جانب جاتا ہوا لمبا، مضبوط اور قدرے کم موٹا تنا۔ بابا جانی نے تراش خراش کے نیچے سے ساری شاخیں چھانٹ دیں تھیں۔ اوپر سے شاخیں سمیٹ کر گول دائرے کی شکل میں لوہے کے ایک رنگ میں دے کر چمن کے پول کے ساتھ باندھ دیں تھیں۔ کاشف مکمل طور پر بیل کی خوبصورتی میں کھو چکا تھا۔ سبز پتوں اور گلابی پھولوں والی یہ بیل کیسی حسین تھی۔
کاشف کی نگاہیں رِنگ کی گولائی میں تہہ در تہہ پھیلی ہوئی بیل کو کھوج رہی تھیں۔ اچانک خوشی اور حیرت سے اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ سب اپنے کھیل میں مگن تھے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ بیل کے اندرونی حصے میں خاصی اونچائی پر شہد کی مکھیوں نے چھتہ بنا رکھا تھا۔ کتنا مزہ آئے گا جب میں بابا جانی کو شہد کے متعلق بتاؤں گا۔ خوشی اور جوش میں کھڑے ہوتے ہوئے اس نے بیل کا تنا زور سے ہلا ڈالا۔ بیل کے ہلنے سے مکھیاں بے چین ہو کر ادھر ادھر اڑنے لگیں۔ اس سے پہلے کے کاشف بیل سے دور ہو جاتا دو تین مکھیاں اس کے دائیں ہاتھ پر کاٹ چکی تھیں۔ ’’امی ،امی جی!‘‘ ،کاشف درد کی شدت سے چیخا۔
’’دانیال کی وجہ سے مکھیاں مجھے کاٹ گئیں، یہ میری جگہ سپاہی بن گیا تھا۔ کاش امی جان آپ چمن میں ہوتی اور مجھے مکھیوں سے بچا لیتیں‘‘۔ کاشف کو مکھیوں کے کاٹنے سے درد اور جلن محسوس ہو رہی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ بخار نے بھی آن دبوچا تھا۔ اسے اپنی تکلیف کے ذمے دار اپنے ساتھی لگ رہے تھے اور امی جان اسے وہ ہمدرد مسیحا لگ رہی تھیں جو اگر موقع پر موجود ہوتیں تو اسے اس حادثے سے بچا لیتیں۔ وہ بار بار اپنے بے ربط جملوں میں اپنے احساسات کا اظہار کر رہا تھا۔ امی جان جو اب تک اس کی تکلیف پر افسردہ تھیں اس کے خیالات جان کر بے حد پریشان ہو گئیں۔
آئندہ دو روز میں کاشف کے ہاتھ کی سوجن کافی کم ہو گئی۔ دھیرے دھیرے بخار بھی اتر گیا۔ امی جان جو بخار میں اس کی دیکھ بھال کے لیے مستعد تھیں اب اس کی سوچ کی اصلاح بھی چاہتی تھیں۔ ’’امی جان یہ دیکھیں میرا ہاتھ، مکھی کے کاٹنے کا نشان ابھی بھی باقی ہے‘‘، کاشف نے اپنا چھوٹا سا ہاتھ امی جان کے سامنے کیا۔ امی جان نے کاشف کا ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا، ’’کاشف! آپ کو کیا لگتا ہے شہد کی مکھی نے آپ کو کیوں کاٹا‘‘؟ ’’یہ دانیال کی وجہ سے‘‘۔ کاشف نے بنا سوچے جھٹ سے جواب دیا۔ ’’سچ دانیال ایسا با کمال ہے کہ اس کی وجہ سے شہد کی مکھی آپ کو کاٹ گئی‘‘؟ امی جان نے حیران ہوتے ہوئے کاشف سے پوچھا۔ ’’وہ جی۔ ہاں۔ نہیں۔ پتہ نہیں‘‘۔ کاشف امی کے لہجے کی وجہ سے گڑبڑا سا گیا۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا ، ’’آپ نہیں تھیں ناں میرے ساتھ، اس لیے، ورنہ تو آپ مجھے بچا لیتیں‘‘۔ اب کی بار اس نے محبت سے امی جان کی طرف دیکھا۔
’’پیارے کاشف! کیوں ناں میں آپ کو ایک حدیث سناؤں‘‘، امی جان کاشف کو اپنے قریب بٹھاتے ہوئے بولیں۔ ’’جی امی جان!‘‘ کاشف سعادت مندی سے امی جان کی طرف متوجہ ہوا۔ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ’’ میں ایک دن نبی ﷺ کے پیچھے تھا تو آپ ﷺنے فرمایا، (لڑکے! میں تمہیں کچھ باتیں سکھاتا ہوں، تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہاری حفاظت کرے گا، تم اللہ کو یاد رکھو تم اسے اپنی سمت میں پاؤ گے، جب بھی مانگو تو اللہ تعالی سے مانگو اور جب بھی مدد طلب کرو تو اللہ تعالی سے، یہ بات ذہن نشین کر لو کہ اگر پوری امت مل کر تمہیں معمولی فائدہ پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں وہی فائدہ دے سکتی ہے جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سب مل کر تمہیں معمولی نقصان پہنچانا چاہیں تو وہ تمہیں اتنا ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلمیں اٹھا لی گئی ہیں اور صحیفے خشک ہو گئے ہیں‘‘۔(ترمذی)
امی جان حدیث سنا کر لمحہ بھر کو خاموش ہو گئیں۔ کاشف سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھنے لگا۔ ’’کاشف بیٹے غور کریں۔ اللہ کے رسولﷺ فرما رہے ہیں کہ یہ بات ذہن نشین کر لو کہ اگر پوری امت مل کر تمہیں معمولی فائدہ پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں وہی فائدہ دے سکتی ہے جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سب مل کر تمہیں معمولی نقصان پہنچانا چاہیں تو وہ تمہیں اتنا ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔ یعنی شہد کی مکھی کا کاٹنا اور آپ کا اس تکلیف میں مبتلا ہو جانا اللہ تعالی کی طرف سے لکھا ہوا تھا۔ اس میں دانیال یا کسی اور بچے کا دخل نہیں تھا۔ اگر اللہ تعالی کا حکم نہ ہوتا تو شہد کی مکھی کی مجال نہیں تھی کہ وہ آپ کو کاٹتی اور دانیال جسے آپ قصور وار سمجھ رہے ہیں وہ غریب تو اپنا بھی کچھ دفاع نہ کر پاتا اگر اس مکھی کو اسے کاٹنے کا حکم ملتا۔ایسے ہی اگر اللہ تعالی نہ چاہتے اور دانیال تو کیا سب دنیا کے لوگ مل کر شہد کی مکھی سے آپ کو تکلیف پہنچانا چاہتے تو نہ پہنچا سکتے۔ کاشف غور سے امی جان کی بات سن رہا تھا‘‘۔
’’تو کیا امی جان اگر آپ وہاں موجود ہوتی تو مجھے بچا نہ لیتیں‘‘ ؟کاشف نے سوال کیا۔ ’’بیٹا میں اللہ پاک کی رحمت سے کوشش ضرور کرتی مگر آپ کو میں صرف اس صورت میں بچا سکتی اگر اللہ پاک آپ کو بچانا چاہتے وگرنہ میری کوشش ناکام ہو جاتی۔ ہمارا ہر طرح کا نفع نقصان اللہ تعالی ہی کی طرف سے ہے۔ اس لیے ہمیں دل میں نہ کسی سے متعلق برے خیالات پالنے چاہئیں اور نہ ہی کسی سے لمبی چوڑی توقعات وابستہ کرنی چاہئیں‘‘۔
امی جان نے کاشف کو سمجھایا۔ ’’جی امی جان میں سمجھ گیا کہ ہمیں تکلیف بھی اللہ تعالی کے حکم سے پہنچتی ہے۔ اس لیے ہمیں ہر وقت استغفار اور اللہ تعالی سے اپنے لیے عافیت کی دعا مانگنی چاہیے‘‘۔ ’’شاباش بیٹے، اسی طرح ہمیں کامیابی بھی اللہ کے حکم سے ملتی ہے اس لیے ہمیں اللہ کا شکر ادا کر کے اپنی نعمتوں کو محفوظ کرنا چاہیے‘‘، امی جان نے پیار سے کاشف کو سمجھایا۔ ’’اللہ کے جو بندے ہمارے ارد گرد ہیں ان کا کیا امی جان‘‘؟ سائرہ جو امی اور کاشف کی گفتگو غور سے سن رہی تھی نے پوچھا۔ ’’بیٹے اللہ تعالی کے بندوں کو اپنے نفع نقصان سے عاجز سمجھتے ہوئے ہر حال میں اپنے اچھے برتاؤ کا حقدار بنائیے‘‘، امی جان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔’’جزاک اللہ خیرا کثیرا، امی جان! آپ نے ہمیں بہت اچھی بات بتائی۔ ہم ہمیشہ اس کو ذہن میں رکھیں گے ان شاء اللہ‘‘،سائرہ اور کاشف نے اپنے عزم کا اظہار کیا۔