شریکِ مطالعہ

739

نعیم الرحمن
گزشتہ سے پیوستہ
اردو کے بے مثال افسانہ نگار ممتازمفتی کا پہلا مجموعہ ’ان کہی‘ کے نام سے منظرعام پر آیا تھا۔ طویل عرصے بعد ممتاز مفتی نے ’کہی نا جائے‘ لکھ کر اعتراف کرلیاکہ ان کہی کبھی کہی نا جائے۔ سیمیں کرن نے مفتی جی کے اسی خیال سے اتفاق کرتے ہوئے ’بات کہی نہیں گئی‘کے نام سے پیش کیا۔
مستنصر حسین تارڑ جیسے نامور ناول وافسانہ نگار نے سیمیں کرن کے فن کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے: ’’ادب کی دنیا ایک وہ ہوتی ہے جس میں بڑے شہروں کے حادثاتی ادیب اپنی عظمت کی ڈفلیاں بجاتے، غل غپاڑہ کرتے، اپنے آپ کو زبردستی نمایاں کرتے ہیں، اور ان شہروں سے دورگم نام بستیوں میں کچھ ایسے لکھنے والے بھی ہوتے ہیں جن کا چرچا نہیں ہوتا، لیکن وہ ان بڑے ادیبوں کی عظمت کو اپنی تحریروں سے راکھ کردیتے ہیں، اور یہ ادب میں روشنی کی کرن ہے۔ سیمیں ان میں سے ایک ہے۔ سیمیں ایسی کہانیاں لکھتی ہے جو آپ کو بے آرام کرتی ہیں۔ ان میں لطف اندوزی نہیں، اذیت کے سامان ہیں۔ اور ادب کیا ہے؟ جو آپ کو بے آرام کرے، سوچنے پر مجبور کرے، اذیت دے کر معاشرے کی ناہمواریوں اور ظلم کے خلاف کمربستہ کردے۔ اس کی کہانیاں حیرت انگیز اور عجب خوابوں میں مبتلا ایسی ہیں کہ وہ یک دم بڑے نثرنگاروں میں شامل ہوگئی ہے۔‘‘
معروف افسانہ نگار حمید شاہد نے سیمیں کرن کے بارے میں کچھ یوں اظہارِ خیال کیا ہے: ’’سیمیں کرن کو زندگی کی الجھنوں کا ادراک ہے، اور ان الجھنوں کے مکڑی کے جال سے نکلنے کے جتن کرنے والے کردار ان کی نظر میں ہیں۔ ان کے ہاں موضوعات کی کمی نہیں، اور لطف یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب موضوعات کو بیان کرنے کا کوئی نہ کوئی قرینہ ڈھونڈ لیتی ہیں۔ ’شجرممنوعہ کے تین پتے‘کے بعد انہوں نے ایسے افسانے دیے ہیں جو لائقِ توجہ ہیں۔‘‘
بھارت کے مشہور ناول و افسانہ نگار مشرف عالم ذوقی کا کہنا ہے کہ ’’مشہور شاعرہ ادا جعفری نے لکھاکہ برصغیر میں مرد کے پندارِ برتری نے عورت کو علم وآگہی کے قابل ہی نہیں سمجھا۔ مدتوں عورت احساسِ محرومی سے بھی محروم رہی۔ احساسِ محرومی سے بھی محروم رہنے والی یہی عورت سیمیں کرن کے افسانوی سفر میں تلاش و دریافت اور تحقیق کا اصل موضوع ہے۔ سیمیں کرن کی ایک خوبی یہ ہے کہ اپنے افسانوی سفر میں وہ پختہ اور بالغ سیاسی شعورکی انگلیاں تھام کر بڑی ہوئی ہیں۔ وہ سماجی اورسیاسی موضوعات پرکالم بھی لکھتی ہیں، اور جب زیادہ مضطرب ہوتی ہیں تو وادیٔ پُرخار یعنی افسانوں کو وسیلہ بنا لیتی ہیں۔‘‘
سیمیں کرن کے افسانوں میں بھرپور بیانیہ موجود ہے۔ ان کا اسلوب زندگی آموز اور زندگی آمیز روانی سے مزین، اور زبان و بیان بہت پختہ ہے۔ وہ اردو افسانے کی ایک توانا آواز بن کر سامنے آئی ہیں۔ ’بات کہی نہیں گئی‘ کے ابتدائیہ میں سیمیں کرن کہتی ہیں: ’’حرف تو خود اِک خودنمائی ہے، دعوتِ دید و نظارہ ہے، اسے کسی سہارے یا مزید خودنمائی کی ضرورت کیوں درکار ہوتی ہے؟ مگر میرے محترم دوستوں اوراساتذہ کا اصرار تھاکہ اس کو لکھا جائے! پھر سوچا یہ جاننا میرے قارئین کا حق ہے کہ میرے نزدیک اور میرے لیے ادب کے کیا معنی ہیں، اس کی اہمیت کیا ہے، اور میرا سلسلۂ ادب کیا اورکیوں ہے؟ بس آپ کے اسی حق نے مجھے مائل کیاکہ میں یہ چند سطریں آپ کو براہِ راست مخاطب کرکے لکھوں۔ میرے لیے ادب زندگی کے حبس اور گھٹن میں تازہ ہَوا کا اک جھونکاہے۔ اک ایسی کھڑکی ہے جو اندر، باہرکھلتی ہے! میری یہ کھڑکی اک طرف باطن کی سیڑھیوں کی طرف جاکھلتی ہے، میرے وجدان پہ مقدس آیات کی طرح حروف جیسے نازل ہوتے ہیں، یہ مقدس حروف خود اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ پرواز کریں، خود کو قلمبند کروائیں!‘‘
’بات کہی نہیں گئی‘ میں مختلف موضوعات پر 28 افسانے ہیں۔ ہر افسانے سے سیمیں کرن کی بے پناہ قوتِ اظہارکا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کتاب کا نام پہلے افسانے پر رکھا گیا ہے جو ایک ٹی وی اینکرکے این جی او سے انٹرویو، اوراس سے متعلق امور کے بارے میں ہے۔ ثنا بخاری کے کردار میں ہمارے نیوز چینلز کے رپورٹرز اوراینکرزکی اس ذہنیت کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ وہ کس طرح خبرکے لیے اپنی حدود پار کرجاتے ہیں۔ ڈاکٹر سعادت کے روپ میں بہت سی اَن کہی کہنے کی کوشش بھی ہے۔ پھر ثنا بخاری جب ڈاکٹرسعادت کی حقیقت جاننے کے لیے اُس کی بیمار بیوی سارہ سے ملنے اُس کے گھر جاتی ہے تو سارہ کے ایک جملے ’’فرشتے بھی کہاں مکمل ہوتے ہیں جو ہر بوجھ ڈھو سکیں‘‘ میں بہت سا اَن کہاکہہ دیا گیا۔ لیکن ثنا کے ذہن میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ سارہ کے اس راز سے ڈاکٹرسعادت کس حدتک واقف ہیں، وہ واقف ہوپائیں گے یا نہیں، وہ جاننے کی آرزو لیے کبھی پھر آسکے گی، اور جان بھی گئی تو کیا ڈاکٹرسعادت کو بتا پائے گی یا نہیں؟ ڈاکٹر سعادت اگر پہلے سے بہت کچھ جانتے ہیںتو ان کی زندگی پہ کون سے اَن دیکھے پردے گرے ہیں، یا پھرسعادت کسی اَن سنے اَن جانے راز کو لے کر قبر میں اترجائے گا۔
دل میں اترجانے والے افسانے کابیانیہ کمال کاہے۔افسانہ ’حرف اک منظر‘حقیقت اورسراب کاشاندارامتزاج پیش کرتاہے۔ نفیسہ درانی ایک مشاعرے میں لہک لہک کر اشعار پڑھتی خوبصورت شاعرہ کو دیکھتی ہے جو اپنے اشعار سے زیادہ ناز و ادا سے متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے، پھرمحفلِ میلاد میں خواتین کے قیمتی ملبوسات اور نفیس میک اَپ کا مشاہدہ کرتے ہوئے فلمی گیت کی دھن پر نعت خوان کی آواز پر سر دھنتے مجمع کو دیکھتی ہے، پھرشادی کی ایک تقریب میں نئی رقاصہ کا انتہائی فحش بھارتی گانے پر تڑپتا اور بھڑکتا ڈانس دیکھتی ہے تو یکدم اس کے ذہن کی گتھی سلجھ جاتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ ’دعوتِ نظارہ دیتی شاعرہ، وہ گانے کا شوق پورا کرتا نعت خواں اور یہ طوائف تینوں ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ تینوں اپنے فن، اپنے شوق، اپنی تخلیق کو پسِ پشت ڈال کر خود کونظارہ بناتے تھے۔‘
بے مثال انداز میں سیمیں کرن نے ہماری مصنوعی زندگیوں کو پیش کیا ہے، جہاں ہرشخص اپنے شعبے میں کمال کے بجائے نقلی ذرائع سے کامیابی کے حصول میں کوشاں ہے۔ ’پانچ تعبیریں‘ کتاب کے بہترین افسانوں میں شامل ہے، جس میں ہمارے شہری معاشرے کے دیہاتی زندگی کے بارے میں منفی تاثرات کو غلط ثابت کیا گیا ہے۔ جس طرح گھر کا ڈرائیور اگر حنیف ہو تو بچہ ہر ڈرائیور کو حنیف ہی سمجھتا ہے۔ ڈسپنسر صفدر ہو تو اس کی نظر میں ہر ڈسپنسر صفدر ہوتا ہے۔ اسی طرح شہری معاشرہ ہر دیہاتی کو جاہل اور اجڈ ہی سمجھتا ہے۔ افسانے کی راوی دیہاتی پھوپھا حبیب کے رنگ میں ڈھل جانے والی پھوپھی رضیہ کی موت پر جب اس کی تدفین میں شرکت کرتی ہے تو دیکھتی ہے کہ پھوپھی کی بیٹیاں مہمانوں کے حساب کتاب سے ان کے ساتھ خود کو ڈھال لیتیں، دیہاتی اجڈ مہمانوں کو انہی کی زبان میں جواب دیتیں۔ جب وہ شہری رشتے داروں کے پاس آکر بیٹھیں توکچھ اورحیرتیں راوی کی منتظر تھیں۔ بڑی بیٹی نے انتہائی سلیقے سے کچھ بات اردو اور کچھ انگلش میں کی تو اسے پتا چلاکہ ڈبل ایم اے اور بی ایڈ کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ اسکول ٹیچر ہے، دوسری نے ایم ایس سی کیا ہے، اور تیسری بی ایس سی میں، ایک میڈیکل کالج میں ہے۔ تین بیاہی ہوئی تھیں۔ اپنے گھروں، خاوندوں کو بڑے اعتماد سے سنبھالے دیہاتی ماحول اور اس کی مشکلات سے کامیابی سے لڑتیں، اور تعلیم کے زیور سے آراستہ دیہاتی جنگجوئی بھی ان کے خون میں تیرتی تھی۔ یہ پانچ تعبیریں یہ واضح کرتی ہیں کہ شہری اور تعلیم یافتہ ہونے کا زعم بالکل بے بنیاد اور جھوٹا ہے۔
افسانہ ’لذت کی پلیٹ کا آخری لقمہ‘ ایک دلدوز کہانی ہے، جس میں دوسری شادی سے پیداشدہ گھریلو مسائل انتہائی اختصار سے پیش کیے گئے ہیں، جس کے ساتھ غربت اور محرومی کی زندگی گزارنے والے فرد کے لیے ایک لقمہ کی لذت بھی کیا اہمیت رکھتی ہے، جس سے محروم ہونے پر وہ ایسی کیفیت کا شکار ہوکر موت سے بھی ہمکنار ہوسکتا ہے۔
افسانہ ’خسارہ‘ میں سیمیں کرن نے مذہبی انتہاپسندی کے حساس موضوع کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ یہودی ماں اور مسلمان باپ کا بیٹا سلمان داؤدی کس طرح اس انتہاپسندی کے باعث اسلام سے دور ہوجاتا ہے۔ پھر ریسٹ روم میں شراب کی چسکیاں لگاتا سیٹھ خالد عیسائی لوگوں کی دعا پر غصے میں بھرا سوچتا ہے’’یہ شودروں کی نسل، یہ چوڑے، یہ عیسائی ہماری برابری میں گھر میں دعاکروانے لگے، یہ حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹاکہنے والے مشرک کبھی نہیں بخشے جائیں گے۔ میں شراب پیتا ہوں، لاکھ گناہ گار سہی، مگر ہوں تو کلمہ گو، اُمتی ہوں، ہرسال حج کرکے آتا ہوں، اس کا میرا کیا مقابلہ۔‘‘
پارسائی کے اس زعم نے امتِ مسلمہ کا جو حال کیا ہے وہ اَن کہاہی قاری پرآشکارہوجاتاہے۔کتاب کے تمام افسانے قاری کوسوچنے پرمجبور کردیتے ہیں۔ہرایک پرتبصرہ ممکن نہیں،لیکن چندافسانوں کاذکرضروری ہے،جن میں ’شناختی کارڈ‘،’یہ کون لوگ ہیں‘،’ست رنگی آگ‘،’کمبل‘ ،’ پاک گلی‘، ’یہ تیری مزدوربندیاں‘ اور’کلموہی کہیں کی‘ سے سیمیں کرن کی انفرادیت اور ان کے بیانیہ کی قوت کا اظہار ہوتا ہے۔ ’بات کہی نہیں گئی‘ پڑھنے کے بعد ان کے مزید افسانوں کا انتظار رہے گا۔ ختتام

حصہ